• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

خواتین پولنگ ایجنٹس سے متعلق فیصلہ، سیاسی جماعتوں کی الیکشن کمیشن پر تنقید

شائع July 24, 2018

اسلام آباد: الیکشن کمیشن پاکستان ( ای سی پی ) کی جانب سے خواتین پولنگ ایجنٹس کو صرف خواتین پولنگ اسٹیشن میں بیٹھنے کی اجازت دینے سے متعلق فیصلے پر ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تین بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی )، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) نے الیکشن کمیشن کے حالیہ فیصلے کے وقت پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’ غیر ضروری اقدامات ‘ انتخابی عمل کو متنازع بنانا ہے۔

ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل فرحت اللہ خان بابر کا کہنا تھا کہ الیکشن کے انعقاد سے چند گھنٹے قبل الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ حکم جاری کیا گیا جبکہ پارٹیوں کے پاس وقت نہیں ہے کہ وہ خواتین پولنگ ایجنٹس کو تربیت دیں‘۔

مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن نے سینیٹرز کے الزامات مسترد کر دیئے

انہوں نے کہا کہ مختلف حلقوں خاص طور پر دیہی سندھ سے امیدواروں کی جانب سے یہ شکایات موصول ہوئی ہیں کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے متعلق آخری لمحات میں بتایا گیا‘۔

پیپلز پارٹٰی کے رہنما کا کہنا تھا کہ اس سے قبل دیہی علاقوں میں خواتین الیکشن ورکرز کی کمی کے باعث مرد پولنگ ایجنٹس خواتین کے پولنگ اسٹیشن میں فرائض انجام دیتے تھے، اگرچہ اس سلسلے میں اسی حلقے، برادری اور خاندان سے تعلق رکھنے والے امیدوار کے ساتھ باہمی معاہدہ ہوتا کیا جاتا تھا۔

انہوں نے سوال کیا کہ انتخابات میں جب کچھ وقت ہی باقی تھا تو کیوں اچانک پابندی عائد کی گئی؟ اگر یہ سب کچھ ضروری ہی تھا تو الیکشن کمیشن کو کئی ماہ قبل یہ ہدایات جاری کرنی چاہیے تھیں تاکہ امیدوار انتخابی عمل سے متعلق خواتین پولنگ ایجنٹس کو تربیت فراہم کرسکتے۔

اس تمام صورتحال پر جب مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بھی اسی طرح کے ردعمل دیتے ہوئے تحفظات کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اس طرح کے فیصلے کا یہ صحیح وقت نہیں ہے، اس سے براہ راست انتخابی عمل پر اثر پڑے گا۔

تحریک اںصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے کہا کہ روایتی طور پر سیاسی جماعتیں خواتین پولنگ اسٹیشن کے لیے خواتین پولنگ ایجنٹ ہی تعینات کرتی ہیں لیکن اگر ایسے کوئی قوانین نہیں تھے اس طرح کی پابندیاں نہیں ہونی چاہیے تھیں۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے لیے یہ وقت نہیں ہے کہ وہ انتخابات سے کچھ گھنٹے قبل ہی اس طرح کے حکم جاری کرے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری اطلاعات مشاہد اللہ خان کا کہان تھا کہ الیکشن کمیشن کو کوئی بھی ایسا اقدام نہیں اٹھانا چاہیے جو ان کی ساخت اور آزادی پر سوال کا باعث بنے۔

یہ بھی پڑھیں: انتخابات میں دھاندلی کرنے کے 9طریقے

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو اس طرح کے کسی بھی اقدام سے پرہیز کرنا چاہیے جو سیاسی جماعتوں کے لیے پریشانی کا باعث بنے۔

ان کا کہنا تھا کہ ای سی پی کی حالیہ احکامات میں ویسے کچھ غلط نہیں لیکن سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس پر اس لیے تحفظات کا اظہار کیا جارہا کیونکہ اس حکم کا وقت درست نہیں اور اس سے پارٹیوں کو نقصان ہوگا۔

دوسری جانب اس تمام صورتحال پر ای سی پی کے ترجمان چوہدری ندیم قاسم کا کہنا تھا کہ یہ حکم ’ سماجی اور اخلاقی اقدار ‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے حکم جاری کیا تاہم انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ قانونی طور پر الیکشن کمیشن کسی جماعت کو صرف خواتین پولنگ ایجنٹ رکھنے کا پابند نہیں کرسکتا، کیونکہ پولنگ ایجنٹس سے متعلق قانون میں صنف کا ذکر نہیں کیا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 25 نومبر 2024
کارٹون : 24 نومبر 2024