کراچی کا حلقہ این اے 253 — کیا مصطفیٰ کمال ایم کیو ایم کو شکست دے پائیں گے؟
این اے 253 کراچی وسطی-1 ایک نیا حلقہ ہے جو کہ نیو کراچی سب ڈویژن پر مشتمل ہے۔ اس سے پہلے اس کے کچھ علاقے سابقہ این اے 243 کراچی وسطی کم کراچی غربی میں شامل تھے جو کہ اب این اے 243 کراچی شرقی-2 ہو چکا ہے۔ اس کے کچھ علاقے این اے 244 اور این اے 245 میں بھی شامل تھے جنہیں پہلے کراچی وسطی کہا جاتا تھا مگر اب یہ بالترتیب کراچی شرقی-3 اور کراچی شرقی-4 ہوچکے ہیں۔
جب یہ حلقہ تین حلقوں میں تقسیم تھا، تب بھی یہاں سے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم پی) انتخابات پر غالب رہتی تھی۔ 2013 میں اس کے امیدوار عبدالوسیم این اے 243، شیخ صلاح الدین این اے 244 اور محمد ریحان ہاشمی این اے 245 سے کامیاب ہوئے۔
ایم کیو ایم کی انتخابی کارکردگی یہاں سے غیر معمولی رہی ہے اور اس نے آسانی سے اپنے حریفوں کو بڑے مارجنز سے شکست دی ہے۔ 2002 کے انتخابات میں این اے 243 کراچی-5 پر ایم کیو ایم کے سلطان احمد خان نے کامیابی حاصل کی جنہوں نے متحدہ مجلسِ عمل (ایم ایم اے) کے ایڈووکیٹ محمد سلیم الدین قریشی کو 49 ہزار 105 ووٹوں سے شکست دی۔
2008 کے انتخابات میں ایم کیو ایم کے عبدالوسیم نے پی پی پی کے ایڈووکیٹ ظفر احمد صدیقی کو 1 لاکھ 45 ہزار 617 ووٹوں سے شکست دی۔ 2013 کے انتخابات میں عبدالوسیم ایک مرتبہ پھر قومی اسمبلی میں پہنچ گئے۔ اس دفعہ انہوں نے پاکستان تحریکِ انصاف کے زاہد حصین ہاشمی کو 1 لاکھ 63 ہزار 763 ووٹوں سے شکست دی۔ ہاشمی کو عبدالوسیم کے مقابلے میں 29 ہزار 875 ووٹ ملے تھے جو کہ صدیقی کے 22 ہزار 147 ووٹوں (2008) سے بہتر تھے۔ اس کے علاوہ 2008 میں پی ٹی آئی کا کوئی امیدوار موجود نہیں تھا اور پی پی پی کے سید سہیل عابدی نے صرف 5831 ووٹ حاصل کیے تھے۔
این اے 244 کراچی-6 بھی 2002 میں ایم کیو ایم کی مرکزی شخصیت سید حیدر عباس رضوی نے جیتی، جنہوں نے ایم ایم اے کے ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی کو 25 ہزار 542 ووٹوں سے شکست دی۔ یہ نشست 2008 میں ایم کیو ایم کے شیخ صلاح الدین نے ایک بار پھر جیتی جنہوں نے 1 لاکھ 74 ہزار 44 ووٹ حاصل کیے، جبکہ ان کے مخالف امیدوار پی پی پی کے غلام قادر صرف 9 ہزار 271 ووٹ ہی حاصل کر پائے۔ یہ حلقہ 2013 میں ایک بار پھر ایم کیو ایم جیتنے میں کامیاب رہی جب اس کے امیدوار شیخ صلاح الدین نے 1 لاکھ 33 ہزار 885 ووٹ حاصل کیے، جبکہ پی ٹی آئی کے امیدوار خالد مسعود خان نے صرف 26 ہزار 495 ووٹ حاصل کیے۔
این اے 245 کی نشست بھی ایم کیو ایم کے کنور خالد یونس نے جیتی جنہوں نے 51 ہزار 696 ووٹ حاصل کیے، جبکہ ایم ایم اے کے سید منور حسن صرف 41 ہزار 947 ووٹ حاصل کر سکے۔ 2008 میں ایم کیو ایم کے فرحت محمد خان نے یہ نشست جیتی۔ انہوں نے 1 لاکھ 49 ہزار 157 ووٹ حاصل کیے جبکہ پی پی پی کے قاضی محمد بشیر نے 15 ہزار 392 ووٹ حاصل کیے۔ 2013 میں ایم کیو ایم کے محمد ریحان ہاشمی یہ نشست جیتنے میں کامیاب رہے جنہوں نے اپنے مخالف پی ٹی آئی کے امیدوار محمد ریاض حیدر کے 54 ہزار 937 ووٹوں کے مقابلے میں 1 لاکھ 15 ہزار 776 ووٹ حاصل کیے۔
اس دفعہ یہاں سے کھڑے ہونے والے سب سے نمایاں امیدوار شاید سید مصطفیٰ کمال ہیں جو کہ پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے بانی اور رہنما ہیں۔ کمال، جنہوں نے 2016 میں ایم کیو ایم سے الگ ہو کر ایک نئی جماعت بنا لی تھی، ان کا مقابلہ ایم کیو ایم کے اسامہ قادری، سنی تحریک کے ثروت اعجاز قادری، اور پی ٹی آئی کے محمد اشرف جبار قریشی سے ہے۔ قریشی نے یہاں سے 1997 میں انتخاب لڑا تھا جب یہ حلقہ این اے 189 کراچی وسطی-3 تھا، اور وہ 1434 ووٹ حاصل کر پائے تھے۔ حق پرست گروپ کے بینر تلے انتخاب لڑنے والے ایم کیو ایم کے امیدوار حسن مثنیٰ علوی نے 1 لاکھ 5 ہزار 323 ووٹ حاصل کر کے یہ انتخاب جیتا تھا۔
این اے 253 کی 80 فیصد سے زائد آبادی اردو بولنے والوں پر مشتمل ہے جبکہ باقی آبادی پنجابی، پختون، سرائیکی اور سندھی ہے۔ چنانچہ یہ ایم کیو ایم کا مضبوط حلقہ ہے جہاں اس نے اپنی جیت برقرار رکھی ہے، بھلے ہی 2002 میں فتح کے مارجن کم تھے۔ مگر اس دفعہ کئی ایسے عوامل ہیں جن کا این اے 253 میں پولنگ پر اثر پڑے گا۔
سیاسی مبصر اور سینیئر صحافی علی ارقم کے مطابق چوں کہ یہ ایم کیو ایم کا گڑھ ہے، اس لیے یہ دیکھنا ہوگا کہ یہاں پر ایم کیو ایم لندن کی جانب سے انتخابات کے بائیکاٹ کا کوئی خاص اثر پڑے گا یا نہیں۔
ارقم کے مطابق مصطفیٰ کمال، جن کا سیاسی بیانیہ اردو بولنے والوں کی شناخت کے گرد گھومتا ہے مگر ایم کیو ایم کے بانی کا مخالف ہے، انہوں نے انتخاب لڑنے کے لیے ایسا حلقہ چنا ہے جو کہ ہمیشہ سے ایم کیو ایم کا وفادار رہا ہے، اس لیے یہاں پر مقابلہ درحقیقت اردو بولنے والوں کے دو دھڑوں کے درمیان ہوگا، جبکہ ایک دھڑا ایم کیو ایم لندن کی بائیکاٹ اپیل کے نتیجے میں پولنگ سے اجتناب کرے گا۔
ارقم کہتے ہیں کہ "پی ٹی آئی کو بھی انہی ووٹروں کی حمایت پر انحصار کرنا پڑے گا جنہوں نے روایتی طور پر پتنگ کو ووٹ دیا ہے۔ اب آپ اس میں ایم کیو ایم لندن کی بائیکاٹ اپیل شامل کریں، تو یہ ایم کیو ایم پاکستان کو چھوڑ کر تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ایک مشکل بساط ہے۔"
علی ارقم کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم نے سابق ایم پی اے اور ٹاؤن ناظم اسامہ قادری کو یہاں سے کھڑا کر کے ایک اچھی چال چلی ہے۔
سیاسی تجزیہ نگار اور سینیئر صحافی عبدالجبار ناصر سمجھتے ہیں کہ کمال قادری کے خلاف اچھا مقابلہ کر سکیں گے مگر انہیں نہیں لگتا کہ بائیکاٹ کی اپیل سے کوئی زیادہ فرق پڑے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ "اگر ایم کیو ایم لندن سے وفادار ووٹروں کے کچھ حصے نے بائیکاٹ کر بھی دیا، تب بھی ماضی کے ایم کیو ایم ووٹروں کی ایک بڑی تعداد ہوگی جو کہ کوئی نمائندہ نہ چننے کے بجائے ایم کیو ایم پاکستان کا نمائندہ چننے کو ترجیح دیں گے۔" ناصر کے مطابق اس حلقے میں اسامہ قادری کو ایم کیو ایم کے روایتی ووٹ بینک کا فائدہ ہوگا۔
این اے 253 بنیادی طور پر ایک متوسط اور زیریں متوسط طبقے پر مشتمل حلقہ ہے جس میں نیو کراچی سب ڈویژن کے علاقے ہیں۔ اس میں نیو کراچی ٹاؤن شامل ہے مگر سیکٹر 11 ایف، 11 جی، 11 ڈی، اور 11 جے، اور گودھرا کے علاقے شامل نہیں ہیں۔
یہاں پر رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 4 لاکھ 4 ہزار 53 ہے جس میں 2 لاکھ 30 ہزار 826 مرد ووٹر، جبکہ 1 لاکھ 73 ہزار 227 خواتین ووٹر ہیں۔ 2018 کے عام انتخابات کے لیے یہاں 268 پولنگ اسٹیشن اور 945 پولنگ بوتھ قائم کیے گئے ہیں۔
یہ رپورٹ ڈان اخبار میں 15 جولائی 2018 کو شائع ہوئی.