سینیٹرز کا کالعدم جماعتوں کے امیدواروں کے انتخاب لڑنے پر تشویش کااظہار
سینیٹ اراکین نے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں اور عوام کے تحفظ میں ناکامی پر ریاستی حکام پر تنقید کرتےہوئے کہا ہے کہ دہشت گرد نظریات کے حامل افراد کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دینے سے معاشرے کو نقصان پہنچے گا۔
سینیٹ اجلاس چیئرمین صادق سنجرانی کی سربراہی میں شروع ہوا تو مستونگ حملے کے باعث سینیٹ کی معمول کی تمام کارروائی کو معطل کردیا گیا اور اس افسوس ناک واقعے پر بحث کی گئی جہاں صوبائی اسمبلی کے امیدوار سمیت 145 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
سابق چیئرمین سینیٹ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ آئین کے تحت ہر شہری کا تحفظ کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے اور اس وقت ریاست نگران حکومت ہے اس لیے نگران حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر شہری کو تحفظ فراہم کرے۔
انھوں نے کہا کہ بدقسمتی کے ساتھ یہ نہیں ہوتا ہے حالانکہ قومی سلامتی کے تین اجلاس ہوئے ہیں اور تینوں اجلاس میں معیشت اور ویزا پالیسی پر بات چیت ہوئی لیکن کبھی امن و امان کی صورت حال پر بات چیت نہیں ہوئی۔
رضاربانی کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم اور فوجی سربراہان نیکٹا کی رپورٹ سے آگاہ ہوں گے کہ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو خطرہ ہے اس کے باوجود تینوں اجلاس میں معیشت پر بات ہوئی جبکہ سیاست دان اور سیاسی کارکن ریلو کٹوں کی طرح پڑے ہیں لیکن یہ اہم نہیں تھا۔
مزید پڑھیں:پشاور: اے این پی کی انتخابی مہم کے دوران دھماکا، ہارون بلور سمیت 20 جاں بحق
سابق چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ وزیر داخلہ آج ایوان میں موجود نہیں تو بلوچستان واقعے کا جواب کیا وزیر قانون دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان میں نیکٹا بننے کی بات کی گئی اور نیکٹا کی جانب سے 15 جون کو الیکشن کمیشن کو بریف کیا جاتا ہے کہ سیکیورٹی خدشات ہیں جس کے بعد سیکرٹری الیکشن کمیشن کے بیان کے بعد صوبوں کو ایک خط لکھ دیا گیا۔
انھوں نے حکومت کے عمل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی کارکنوں کی گرفتاری کے حکم پر عمل درآمد نظر آرہا ہے، اسپیکر قومی اسمبلی کے اوپر دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے میں تیزی ہے لیکن مستونگ واقعے پر خاموشی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہم کس نہج پر جارہے ہیں، وزیر داخلہ پھر کہیں گے کہ جن پر حملے ہوئے ان کے نام اس فہرست میں شامل نہیں تھے جن پر حملے کا خدشہ تھا، بدقسمتی سے کئی برسوں سے واقعات ہوتے رہے ہیں اور مذمتی قراردادیں پاس ہونے کے بعد ہم بھول جاتے ہیں۔
رہنما پی پی پی کا کہنا تھا کہ مستونگ واقعے کی جتنی مذمت کی جائے وہ ناکافی ہے، پورا ایوان بلوچستان کے محنت کش عوام کے ساتھ مشکل گھڑی میں ساتھ کھڑا ہے۔
انتخابات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پہلے بھی آئی جے آئی اور ایم ایم اے بنائی گئی اور اس بار ایک نئے نام سامنے آیا ہے اور کالعدم تنظیموں کو مین اسٹریم میں لایا جا رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ وزیر داخلہ بتائیں کہ کالعدم تنظیموں کو انتخاب لڑنے کی اجازت کیسے دی گئی، فیض آباد پر دھرنا دینے والی جماعت کے 150 قومی اسمبلی کے لیے امیدوار ہیں اسی طرح اللہ اکبر جماعت کے بھی امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
کالعدم تنظیموں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت پر تشویش کا اظہار کرتےہوئے انھوں نے کہا کہ ان میں سے 25 لوگ بھی اسمبلی آگئے تو اسمبلی کا کیا ماحول ہوگا لیکن ریاست آج بھی اسی طرز پر چل رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ریاست اپنی سوچ میں جب تک بنیادی تبدیلی نہیں لاتی اس وقت تک راہیں ایسی ہی رہیں گی لیکن انجنیئرڈ الیکشن وفاق کے لیے خطرے کی گھنٹی ہوں گے۔
رضاربانی نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کو قدم، قدم پر روکا جاتا ہے، ہم نے امیدواروں پر پارٹی چھوڑنے کے لیے دبأو ڈالنے والوں کے نام بھی دیے ہیں، شکارپور اور سکھر سے بھی پیغامات آرہے ہیں لیکن الیکشن کمیشن سویا ہوا ہے کیونکہ وہاں الیکشن کمیشن کے پر جلتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہم نے مطالبہ کیا ہے کہ جو نام دیے گئے ہیں وزیر دفاع اس کا جواب دیں، صاف و شفاف انتخابات کے علاوہ دیگر راستے تباہ کن ہوں گے۔
'ترجیحات کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے'
پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیٹر پرویز رشید نے بھی اسی طرح کے جذبات کااظہا کرتے ہوئے کہا کہ فورتھ جوڈیشل میں شامل افراد کو انتخاب لڑنے کی اجازت دینے سے ملک میں پرامن مہم چلانے کی توقع نہ رکھی جائے بلکہ اس دن سے خوف زدہ ہوں جس دن وہ لوگ اس ایوان میں موجود ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ 10 ہزار پولیس والے صرف اس ڈیوٹی پر مامور تھے کہ ایک شخص کو کیسے گرفتار کرنا ہے حالانکہ وہ شخص جو خود اپنی بیٹی کے ساتھ گرفتاری دینے آیا تھا لیکن پشاور اور مستونگ واقعے کہ ذمہ دار دن دندناتے پھر رہے ہیں۔
پرویز رشید کا کہنا تھا کہ 16 ہزار سیاسی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا جن میں سے 99 فیصد کارکنان کا تعلق مسلم لیگ ن ہے۔
انھوں نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ریاست کی کی ترجیحات کیا ہیں؟، ریاست نے یہ طے کر لیا ہے کس کو کچلنا ہے اور کس کو طاقت ور کرنا ہے لیکن ان ترجیحات کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
لیگی سینیٹر نے کہا کہ ہمارے دشمنوں کو خودکش جیکٹ پہننے والا شخص کہاں سے میسر ہو رہا ہے اور اس نظریے کی پرورش کس نے کی ہے، ان لوگوں کو ایوانوں میں لانے کی پالیسی کیا نواز شریف یا بینظیر نے بنائی تھی۔
انھوں نے کہا کہ اس ایوان کو بتایا جاتا کہ پالیسی کس نے بنائی، بہت ہوگیا، بہت لہو بہہ گیا، خدا کے لیے اپنے انداز فکر کو بدلو، ریاست اپنی بنیادی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہی ہے حالانکہ سوشل کنٹریکٹ پر شہری نے مکمل عملدرآمد کیا ہے، 4 مرتبہ ملک میں مارشل لا نافذ کیا گیا اور ریاست نے شہریوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔
سیکیورٹی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کوئی شہری گھر میں بیٹھ کر بھی محفوظ ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا، شاید ریاست کی ترجیحات کچھ اور ہیں، عوام کے مفادات کہیں اور ہیں۔
سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ مستونگ واقعے کی بعض چینلز نے رات 11 بجے تک کوئی کوریج نہیں کی۔
سینیٹر اشوک کمار نے وفاقی وزیر داخلہ پر کڑی تنقید کی اورکہا کہ وزیر داخلہ کو کبھی کسی صوبے میں جاتے ہوئے نہیں دیکھا انھیں چاروں صوبوں کے وزرا داخلہ کا بھی پتہ نہیں ہوگا اور انھوں نے کبھی کسی صوبے کے چیف سیکرٹری سے ملاقات بھی نہیں کی، ایسا وزیر داخلہ ہماری کیا حفاظت کرے گا۔
‘خودکش حملہ آور کو پکڑا کیوں نہیں جاتا’
سنیٹر کبیرشاہی کا کہنا تھا کہ مستونگ واقعہ تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ ہے جس میں جاں بحق 213 افراد کو دفنایا جا چکا ہے جبکہ 158 زخمی ہیں۔
میڈیا کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میڈیا فروخت ہو چکا ہے، پارٹیوں میں بک چکا ہے۔
انھوں نے کہا کہ 213 افراد کی شناخت ہو چکی ہے اور بعض لاشوں کی شناخت بھی نہیں ہوئی، اطلاع دی گئی ہے کہ چار خودکش حملہ آور خضدار اور قلات میں داخل ہو چکے ہیں، اگر خودکش حملہ آور کے داخل ہونے کا علم ہے تو انھین پکڑا کیوں نہیں جاتا۔
تبصرے (1) بند ہیں