کیا فٹبال ورلڈ کپ 2018ء کی فاتح ٹیم بیلجیئم ہوگی؟
میدانِ فٹبال کے بڑے بڑے سورما روس میں جاری عالمی فٹبال معرکے میں پسپائی کے بعد اپنے اپنے دیس کو لوٹ چکے ہیں۔ ورلڈ کپ سے باہر ہونے والی ٹیموں میں سرِ فہرست ٹیم اٹلی ہے جو 4 بار عالمی چیمپئن بھی رہ چکی ہے، جبکہ گزشتہ ورلڈ کپ میں تیسری پوزیشن حاصل کرنے والی ٹیم ہالینڈ بھی رواں فیفا ورلڈ کپ کے لیے ٹِک نہیں پائی۔
جہاں عالمی فٹبال کے منظرنامے میں اٹلی اور ہالینڈ کے سورما پسپا و رسوا ہوئے وہیں کچھ نئے سورماؤں نے فٹبال کے میدانوں میں مثالی کھیل پیش کیا اور قدرے کمزور سمجھے جانے والی ٹیمیں بھرپور تیاری کے ساتھ میدان میں اتریں جن کی شاندار کارکردگی ابتدائی گروپ مرحلے میں آپ نے دیکھ ہی لی ہوگی۔ لاطینی امریکہ سے تعلق رکھنے والی، میکسیکو کی دفاعی چیمپئن جرمنی اور کروشیا کی ارجنٹائن کے خلاف کارکردگی سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ فیفا ورلڈ کپ ٹرافی پر چند مخصوص ٹیموں کی اجارہ داری خطرے میں پڑچکی ہے۔
دفاعی چیمپئن جرمنی کو گروپ مرحلے سے باہر نکلتا دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں آئندہ کچھ دنوں میں اسپین، فرانس، برازیل، ارجنٹائن سمیت دیگر سابق عالمی چیمئنز ٹیمیں بھی گھر کو روانہ ہوسکتی ہیں جبکہ کوئی ایسی ٹیم ورلڈ کپ جیتنے کا اعزاز حاصل کرسکتی ہے جو اس سے قبل کبھی ورلڈ کپ کی فاتح نہیں رہی۔
پڑھیے: کہانی فٹبال ورلڈ کپ کے ابتدائی مرحلے کی
اس زمرے میں میکیسکو اور کروشیا کی کارکردگی تو اپنی جگہ مگر یورپ کے مختلف لیگ میچوں میں بہترین کارکردگی دکھانے والے ایڈن ہزارڈ، رومیلو لوکاکو، کیون ڈی بروین، تھیبو کوغتوا، جان ورٹن گھن، ڈریز مرٹنز جیسے کھلاڑیوں پر مشتمل بیلجیئم کی ٹیم صحیح معنوں میں ورلڈ کپ جیتنے کے لیے مطلوبہ صلاحیتوں سے بھرپور نظر آتی ہے۔
بیلجیئم کی ٹیم آج تک ورلڈ کپ کا فائنل کھیلنے کے اعزاز سے محروم رہی ہے۔ 1986ء میں میکسیکو میں منعقدہ ورلڈ کپ میں بیلجیئم نے اپنی اب تک کی بہترین کارکردگی پیش کی تھی اور سیمی فائنل میں ارجنٹائن کے ہاتھوں 0-2 سے شکست سے دوچار ہوئی تھی۔ بعد ازاں تیسری پوزیشن کے میچ میں فرانس کے ساتھ 2 کے مقابلے میں 4 گول سے شکست کے بعد 1986ء کے ورلڈ کپ میں چوتھی پوزیشن حاصل کی۔ 1990ء اور 1994ء کے ورلڈ کپ ٹورنامنٹس میں بیلجیئم کی ٹیم پری کوارٹر فائنل تک ہی پہنچ پائی تھی، 1990ء میں انگلش فٹبال ٹیم نے اضافی ہاف میں گول اسکور کر کے کوارٹر فائنل میں اپنی جگہ یقینی بنائی تھی جبکہ 1994ء میں جرمن ٹیم نے 2 کے مقابلے میں 3 گول سے شکست دے کر بیلجیئم کی ٹیم کو وطن واپس جانے پر مجبور کیا۔
1998ء کے ورلڈ کپ میں بیلجیئم کی قسمت خاصی مایوس کن رہی، اس ٹورنامنٹ میں ہالینڈ، میکسکو اور جنوبی کوریا سے گروپ میچز برابر کرنے کے بعد ٹیم بیلجیئم کو وطن لوٹنا پڑا تھا۔ جبکہ 2002ء کے ورلڈ کپ میں بھی قسمت کی دیوی زیادہ مہربان نہیں ہوئی انہیں پری کوارٹر فائنل مرحلے میں برازیل نے ریوالڈو اور رونالڈو کے گول کی مدد سے 0-2 سے ہرا کر عالمی فٹبال کے میلے سے باہر کردیا تھا۔ گزشتہ ورلڈ کپ میں بیلجیئم کی ٹیم 12 سال بعد ورلڈ کپ میں اپنی جگہ یقینی کرنے میں کامیاب ہو پائی تھی لیکن کوارٹر فائنل مرحلے میں ارجنٹائن سے 0-1 سے شکست کے بعد ورلڈ کپ سے باہر ہونا پڑا۔
رابرٹو مارٹنیز کو اگست 2016ء میں بیلجیئم ٹیم کا مینیجر و کوچ مقرر کیا گیا، جبکہ کوچنگ اسٹاف میں ورلڈ کپ 1998ء کے فاتح تھیئری ہینری کو معاون مینیجر کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔ رابرٹو مارٹینیز کی زیرِ نگرانی بیلجیئم ٹیم 13 میں سے 12 میچوں میں کامیابی حاصل کرچکی ہے جبکہ ایک میچ بھی برابری کے ساتھ اختتام پذیر ہوا تھا، یہ ٹیم فیفا کی عالمی درجہ بندی پر جرمنی، برازیل کے بعد تیسری نمبر پر موجود ہے۔
پڑھیے: فٹبال ورلڈ کپ کی تاریخ کے چند ہیروز اور ولنز
حالیہ ورلڈ کپ اسکواڈ میں تجربہ کار اور بلاصلاحیت کھلاڑی موجود ہیں جو اپنی صلاحیتوں کا لوہا مختلف یورپین فٹ بال لیگز میں منوا چکے ہیں۔ یہ کھلاڑی اپنے اندر موجود رفتار، پاسنگ، آپسی کیمسٹری، بے باک پن اور حاضر دماغی جیسی خصوصیات سے کسی بھی دفاعی لائن کو پست کرکے گول اسکور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جہاں ڈریز مرٹنز، ایڈن ہزارڈ، رومیلو لوکاکو اور کیون ڈی برائن پر مشتمل فارورڈ لائن گول اسکور کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں وہیں مڈ فیلڈ میں موجود وٹسل، کاراسکو ڈیمبلے، فلینی و دیگر کسی بھی حملے کو مؤثر اور کامیاب بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ مخالف ٹیم کے حملوں کو خطرناک صورت اختیار کرنے سے قبل ہی انہیں ناکام بنانے کی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔
بیلجیئم ٹیم کا دفاعی حصہ بھی باصلاحیت اور تجربہ کار کھلاڑیوں پر مشتمل ہے لیکن فارم اور انجری کے مسائل کے سبب بیلجیئم کے اسکواڈ میں شامل 7 میں سے 4 کھلاڑی گزشتہ لیگ سیزن 2017ء اور 2018ء میں اپنے اپنے کلب کی باقاعدہ نمائندگی سے محروم رہے۔ گزشتہ کلب سیزن میں دفاعی کھلاڑیوں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جس کے منفی اثرات ان کی کارکردگی پر بھی پڑسکتے ہیں، جیسے ہم نے دیکھا کہ تیونس جیسی کمزور ٹیم بھی بیلجیئم کے خلاف 2 گول اسکور کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔
انگلش پریمیئر لیگ کی چیمپئن مانچیسٹر سٹی کے کپتان ونسنٹ کومپنی انجری کے باعث صرف 17 میچ کھیل سکے ہیں۔ اسی طرح انگلش کلب ٹونٹہم ہوٹسپر سے تعلق رکھنے والے ٹوبی ایلڈر وی ریلڈ نے 14 میچوں میں حصہ لیا جس میں سے زیادہ تر میچ انہوں نے فروری 2018ء میں انجرڈ ہونے سے پہلے کھیلے تھے۔ اس کے علاوہ ہسپانوی کلب بارسلونا سے تعلق رکھنے والے 32 سالہ تھامس ورمیلن نے انجری کے باعث صرف 14 موقعوں پر بارسلونا کی نمائندگی کرنے میں کامیاب رہے۔
فرانسیسی فٹبال لیگ کے چیمپئن پیرس سینٹ جرمن سے تعلق رکھنے والے رائٹ بیک تھامس مونیئر نے اپنے کلب اسکواڈ میں تجربہ کار برازیلین رائٹ بیک ڈینی ایلوس کی شمولیت کے سبب 22 میچ ہی کھیل سکے۔ درائیک بویوٹا آج کل اسکاٹ لینڈ میں کیلٹک فٹبال کلب کا حصہ ہیں اور لیئینڈر ڈینڈونکر اپنی ملکی لیگ میں اینڈرلیکٹ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ان دونوں کا معیار غیر تسلی بخش ہے۔ یان ورٹونگن بیلجیئم کے اسکواڈ میں شامل واحد دفاعی کھلاڑی ہیں جنہوں نے انگلش پریمیئر لیگ جیسی صفِ اول کی یورپین لیگ میں اپنے کلب ٹوٹنہم ہوٹسپر کی جانب سے 38 میچوں میں سے 36 میچوں میں اپنے جوہر دکھائے۔
پڑھیے: فٹبال کی کہانی، اسی کی زبانی
دفاعی لائن میں موجود کھلاڑیوں کے انجری اور فارم کے مسائل اپنی جگہ لیکن اس وقت بیلجیئم ٹیم میں مڈ فیلڈ اور فاروڈ لائن میں موجود کھلاڑی اپنے کیریئر کے عروج پر ہیں۔ مانچیسٹر سٹی کو انگلش پریمیئر لیگ 2018ء اور 2017ء کا فاتح بنانے میں کیون ڈی بروین نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
انہوں نے 37 لیگ میچوں میں سب سے زیادہ 16 گول اسسٹ کرنے کا اعزاز حاصل کیا ہے ساتھ ہی ساتھ 8 مرتبہ بال کو مخالف گول کی راہ دکھانے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔ جبکہ ورلڈ کپ میں 2 میچوں میں 4 گول داغنے والے، مانچسٹر یونائینڈ کے اسٹرائیکر رومیلو لوکاکو نے 34 میچوں میں 16 گول اور 7 گول اسسٹس کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اسی طرح ان کے اسٹرائکنگ پارٹنر ڈریز مرٹنز نے گزشتہ سیزن میں اطالوی کلب ناپولی کی نمائندگی کرتے ہوئے 18 گول اسکور کیے تھے۔
بیلجیئم کی ٹیم کے کپتان اور انگلش کلب چیلسی سے تعلق رکھنے والے ایڈن ہزارڈ نے پچھلے کلب سیزن میں 12 گول اسکور کیے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں کو 4 گول کرنے میں مدد فراہم کی۔ بیلجیئم کے اسکواڈ میں موجود انگلش کلب مانچسٹر یونائینڈ کے دفاعی نوعیت کے مِڈ فیلڈر فلینی بھی 16 میچوں میں 4 گول اسکور کرچکے ہیں۔ شاندار کارکردگی کا یہ سلسلہ اسی طرح برقرار رہا تو بیلجیئم کو ورلڈ کپ کا فاتح بننے سے شاید ہی کوئی ٹیم روک پائے گی۔
پڑھیے: ’میسی شاید فٹبال کھیلنا بھول گئے ہیں‘
بین الاقوامی سطح پر بھی ان کھلاڑیوں کی کارکردگی بھی کلب سطح کی طرح کافی متاثر کن ہے۔ گزشتہ 11 میچوں میں بیلجیئم کی جانب سے لوکاکو نے 17 گول اسکور کیے ہیں۔ ہزارڈ کی بین الاقوامی کارکردگی پر اگر نظر ڈالی جائے تو انہوں نے گزشتہ 21 میچوں میں 11 گول داغ کر اور 12 گول اسسٹ کرکے 23 گولز میں اپنا حصہ ڈالا۔
بیلجیئم کے 26 سالہ گول کیپر تِھیبو کوغتوا ماضی میں انگلش کلب چیلسی کی 35 مرتبہ نمائندگی کرچکے ہیں۔ ان کے خلاف 34 گول اسکور تو ہوئے لیکن انہوں نے 15 میچوں میں مخالف ٹیم کو ایک بھی گول اسکور کرنے نہیں دیا۔ رواں ورلڈ کپ میں بھی انہوں نے بیلجیئم کے خلاف پاناما اور انگلینڈ کو گول کرنے سے باز رکھا۔
اس ورلڈ کپ میں بیلجیئم نے گروپ مرحلے میں سب سے زیادہ 9 گول اسکور کیے جبکہ بیلجیئم کی ٹیم گروپ مرحلے کے 3 میچوں میں 53 مرتبہ مخالف گول پر حملہ کرچکی ہے، جس میں سے 22 حملے آن ٹارگیٹ رہے۔ بیلجیئم کا اٹیک مخالف ٹیم کو اپنے ہی اندر الجھائے رکھتا ہے، جس کے باعث مخالف ٹیم کو ان کے گول پر حملے کرنے کے مواقع کم ہی میسر آتے ہیں۔
بیلجیئم ٹیم سے ناک آوٹ مرحلے میں بھی اس طرز کے جارحانہ کھیل کی توقع کی جارہی ہے۔ اگر کیون ڈی بروین اسی طرح گول کرنے کے مواقع فارورڈ لائن میں موجود ایڈن ہزارڈ، ڈریز مرٹنز اور لوکاکو کے لیے پیدا کرتے رہے تو بیلجیئم سے پہلی بار ورلڈ کپ فاتح بننے کا خواب کوئی بھی نہیں چھین سکتا۔