رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے ملک روس میں میرے حوالے سے بڑا مقابلہ شروع ہونے کو ہے، جس کے دوران دنیا بھر کے شائقین کی توجہ، نظروں اور تبصروں کا مرکز فیفا ورلڈ کپ کے نام سے مشہور یہ مقابلے ہی ہوں گے-
میری شروعات
زمانے کو ٹھوکروں پر رکھنا، نہ صرف اردو زبان کے ایک مشہور محاورے کی ایک شکل ہی نہیں بلکہ مختلف تہذیبوں میں اس مقام کو حاصل کرنے کی ترغیب بھی دی گئی ہے- زمانے کو ٹھوکروں پر رکھنا تو خیر کسی کسی کو نصیب ہوا، پر زمانے کی جگہ جب انسان کے پیروں میں گیند یا اس سے ملتی جلتی کوئی بھی چیز آئی، تو اس گیند کو اپنی ٹھوکروں سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا، بہت دلچسپ اور طمانیت بخش لگنے لگا- پیروں کی ٹھوکر سے گیند یا گیند نما چیزوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پھینکنا، شاید زمانہ قدیم سے حضرت انسان کے پسندیدہ ترین مشغلوں میں شامل رہا ہے-
یہی وجہ ہے کہ مجھ سے ملتے جلتے کھیل قدیم مصری، یونانی اور رومن تہذیبوں میں کھیلے جانے کے اشارے ملے ہیں- اس حوالے سے یونان کے شہر ایتھنز کے ایک عجائب گھر میں موجود ایک برتن پر ایک یونانی لیجنڈ، میراڈونا کو مجھے یعنی فٹبال کو اپنی رانوں پر رکھے دکھایا گیا ہے-
اس کے علاوہ امریکا میں بھی مقامی آبادی ہزاروں سال پہلے مجھ سے ملتا جلتا کھیل کھیلا کرتی تھی-
فٹبال یا ساکر، جیسا کے آج کل مجھے پکارا جاتا ہے، ہمیشہ سے میرا نام نہیں- مجھ سے ملتے جلتے کھیل کا سب سے پہلا تذکرہ، چین میں ملتا ہے جس کے بارے میں تاریخ دان متفق ہیں-
اس کھیل کو 'تسو چو' کہا جاتا تھا اور ہان سلطنت کے عہد میں، تقریباً 300 قبل مسیح میں اس کھیل کو شاہی فوج کے سپاہی کھیلا کرتے تھے- اس کھیل میں میدان کے بیچ میں نصب 2 کھمبوں کے درمیان ایک جال باندھا جاتا تھا اور دونوں ٹیموں کے کھلاڑی مخالف سمتوں سے گیند کو اس جال سے گزارنے کی کوشش کرتے تھے-
اسی طرح، ایک ہزار قبل مسیح میں جاپان میں بھی مجھ سے ملتا جلتا ایک کھیل کھیلا جاتا تھا، جس میں 12 کھلاڑیوں پر مشتمل 2 ٹیمیں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتی تھیں- اس کھیل کو کیماری کے نام سے جانا جاتا تھا- جس میں کھلاڑی ایک نسبتاً محدود جگہ پر کھڑے رہ کر پیروں کی مدد سے بنا زمین پر لگے بال کو ایک دوسرے کو پاس کرتے تھے- آج بھی یہ کھیل جاپان کے مخصوص علاقوں میں کھیلا جاتا ہے-
یونان میں مجھ سے ملتے جلتے کھیل کا نام اپسکیروس Episkyros تھا، جس میں ایک میدان کے دونوں جانب لکیروں کے علاوہ بیچ میں بھی ایک لکیر ہوتی تھی- دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کی تعداد یکساں ہوتی تھی اور مخالف ٹیم کے سروں کے اوپر سے گیند کو ان کی جانب والی لکیر کے پیچھے پھینکنے کے بعد، حریف ٹیم کو لکیر کے پیچھے رکھنے کی کوسش کی جاتی تھی-
چند حوالے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ 50 قبل مسیح میں چین کے تسو چو اور جاپان کے کیماری کھلاڑیوں کے درمیان تاریخ کا پہلا فٹبال میچ (اگر آپ اسے فٹبال پکار سکیں) کھیلا گیا، تاہم ان دونوں ملکوں کے کھلاڑیوں کے درمیان 611 میں میچ ہونے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں-
سنہ 600 - 1600 کے دوران میکسیکو اور وسطی امریکا میں ربڑ کی دریافت کے بعد، وہاں رہنے والوں نے مجھ سے ملتا جلتا کھیل کھیلنا شروع کر دیا، جس میں ایک لمبی سی جگہ پر دونوں جانب دیوار میں نسب پتھر یا لکڑی کے رنگ کے درمیان سے گیند کو گزرنا ہوتا تھا-
مختلف براعظموں اور ملکوں میں کھیلے جانے والے مجھ سے ملتے جلتے یہ کھیل کھیلے جاتے رہے اور یہ سب میرے ارتقاء کے حوالے سے اہمیت رکھتے ہیں- تاہم، آج جب میں دنیا کا سب سے مقبول ترین کھیل تسلیم کیا جاتا ہوں، تو اس حوالے سے سب سے اہم نام انگلینڈ کا ہے، جہاں میری آمد ایک مشہور زمانہ واقعے کے بعد ہوئی، جس میں ڈنمارک کے ایک شہزادے کا سر قلم کرنے کے بعد، فوج نے اسے اپنی ٹھوکروں سے ایک دوسرے کی جانب اچھالا تھا-
بس جناب پھر تو کیا کہنے، انگلینڈ کے باسیوں کو تو ایک نیا کھیل مل گیا- اس مقصد کے لیے، ابتدا میں جانوروں کے پتے کو گیند کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا اور اس بات کے تاریخی شواہد موجود ہیں کہ 8ویں صدی کے دوران مشرقی انگلینڈ کی مقامی آبادی کے درمیان پہلا میچ کھیلا گیا-
یہ کھیل سپاہیوں میں اتنا مقبول ہوا کہ انہوں نے تیر اندازی کی مشقیں چھوڑ کر اس کھیل کو کھیلنا اور اس کے میچ دیکھنا شروع کر دیے-
اس وقت تک کھیل کو کھیلنے کے دوران بہت شور و غل بھی ہونے لگا اور اس کی شکایتیں جب شاہی دربار تک پہنچیں، تو ان شکایتوں اور اس بناء پر کہ سپاہی اس کھیل کی وجہ سے تیراندازی کی مشقوں میں حصہ لینے سے کترانے لگے تھے، اس کھیل پر بادشاہ کی جانب سے 14ویں صدی میں پہلی بار پابندی عائد کر دی گئی اور اسے کھیل کو کھیلنا قابل سزا جرم ٹھہرا- یہ پابندی کئی صدیوں تک اور مختلف بادشاہوں اور ملکاؤں کے عہد میں برقرار رہی-
تاہم، اس پابندی اور کھیل میں وحشی پن و تشدد کے بے شمار واقعات کے باوجود اس کی مقبولیت ختم نہ ہوئی، یہاں تک کہ سنہ 1605 میں دوبارہ قانونی طور پر اس کھیل کو کھیلنے کی اجازت دے دی گئی-
اسی عرصے میں کینیڈا اور الاسکا میں بسنے والے اسکیموز نے بھی گھاس پھوس اور اسی قسم کی دوسری چیزوں سے گیند کو بھر کر برف پر اقساقٹک (AQSAQTUK) نامی کھیل کھیلنا شروع کیا- اس کھیل میں 2 گولوں کے درمیان فاصلہ بعض اوقات میلوں کا ہوتا تھا اور پورے کے پورے گاؤں ایک دوسرے کے خلاف ہونے والے مقابلے میں حصہ لیا کرتے تھے-
قواعد اور قوانین
میرے حوالے سے قواعد و ضوابط بنانے کا سب سے پہلا سہرا، ایلٹن کالج انگلینڈ کو جاتا ہے، جہاں 1815 میں پہلی بار مجھے کھیلنے کے لیے رولز قوانین بنائے گئے- امریکا میں شمال مشرقی یونیورسٹیوں اور ہارورڈ، پرنسٹن، امہرسٹ اور براؤن کالجوں کے درمیان 1820 میں فٹبال مقابلے ہونا شروع ہو گئے تھے-
انگلینڈ کی کیمبرج یونیورسٹی میں مجھے کھیلنے کے قوانین پر 1848 میں نظر ثانی کی گئی اور انہیں کیمبرج رولز کے نام سے جانا جاتا ہے- انگلینڈ کے تمام اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں نے ان نظر ثانی شدہ قواعد و ضوابط کے مطابق اس کھیل کو کھیلنے پر اتفاق کیا-
تعلیمی اداروں میں اس کھیل کو رائج کرنے کے حوالے سے ایک کردار کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گا اور یہ یہ کردار یا شخصیت تھے رچرڈ ملکاسٹر، جو کہ 17ویں صدی کے دوران لندن کے 2 مشہور اسکولوں، مرچنٹ ٹیلرز اور سینٹ پال کے سربراہ تھے- وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اس کھیل کو کھیلنا، طالب علموں کے اندر اسپورٹس مین اسپرٹ جگانے، ان کی صحت بہتر بنانے، ٹیم ورک کا جذبہ پیدا کرنے اور دیگر حوالوں سے مفید جانا اور اس کو باقاعدہ غیر نصابی سرگرمیوں کا حصہ بنا دیا-
شاید یہی وجہ ہے کہ آج بھی انگلینڈ کے اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں فٹبال کو غیر نصابی سرگرمیوں میں ایک ممتاز مقام حاصل ہے-
یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ عام خیالات کے برعکس 19ویں صدی تک میں یعنی فٹبال، صرف امراء میں مقبول تھا- اور اسی وجہ سے مجھے کھیلنے کے قوانین کے حوالے سے ہمیشہ بڑے تعلیمی اداروں کے نام سامنے آتے ہیں- انگلینڈ کی ورکنگ کلاس میں اس کھیل کی مقبولیت 19ویں صدی کے اواخر میں بڑھی اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف انگلینڈ بلکہ دنیا بھر میں اس مقبولیت میں اضافہ ہی ہوتا گیا-
عروج کا سفر
19ویں صدی میں میری بڑھتی مقبولیت کے دور میں مجھے کھیلنے کے طریقوں اور ضابطوں کے حوالے سے مختلف اسکولوں اور کالجوں کے درمیان اختلاف سامنے آنا شروع ہو گئے- یاد رہے کہ اس زمانے میں زیادہ تر تعلیمی ادارے کھیلنے کے لیے دستیاب میدانوں کی مناسبت سے مجھے کھیلنے کے لیے قوانین بناتے تھے۔
مثال کے طور پر چارٹر ہاؤس، ویسٹ منسٹر، ایٹن اور ہارو جیسے اسکول مجھے کھیلنے کے لیے ایسے رولز پر عمل کرتے تھے جن میں جسمانی طاقت اور ہاتھوں کے استعمال کے بجائے، پیروں سے ڈربلنگ کرنے اور گیند کو کک مار کر آگے پہنچانے کی حوصلہ افزائی ہوتی تھی- دیکھا جائے تو ایسے ہی رولز آگے چل کر آج میرے نام سے وابستہ کھیل، فٹبال یا سوکر کے قوانین سے منسوب ہوئے۔
دوسری جانب، چیلٹنھم اور رگبی ایسے اسکول تھے جنھیں میری وہ طرز زیادہ پسند تھا جس میں طاقت کا استعمال، باڈی ٹیکل، گیند کو ہاتھ میں اٹھانا اور اسے لے کر بھاگنا بھی شامل تھا- یہ طرز آگے چل کر رگبی کے نام سے مشہور ہوئی۔
اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں نے مجھے ان دو طریقوں سے کھیلنا جاری رکھا اور ایلٹن رولز اور کیمبرج رولز کی طرح میری ایک قسم یا فارم رگبی کے لئے 1846 میں رگبی اسکول کی جانب سے رگبی رولز، اس مشہور واقعے کے بعد بنائے گئے جس میں ولیم ویب ایلس نامی کھلاڑی نے پہلی بار تماشائیوں اور حریف کھلاڑیوں کو حیران کرتے ہوئے گیند کو ہاتھوں سے اٹھایا اور بغل میں دبا کر دوڑنا شروع کر دیا- اس واقعے اور ان کے اس انداز کو موجودہ دور میں رگبی کے نام سے جانے جانے والے کھیل کے آغاز سے موسوم کیا جاتا ہے۔
انگلینڈ کے مختلف شہروں میں ورکنگ کلاس میں بھی یہ کھیل مقبول ہونا شروع ہو چکا تھا اور اٹھارویں صدی کے دوران اس کے مختلف کلبز بھی بننا شروع ہو چکے تھے- اب بھی کھیل کے دوران گیند کو ہاتھ لگانا منع نہیں تھا اور نہ ہی ایک دوسرے کو لاتیں مارنا- مختلف کلبز اور تعلیمی ادارے اپنی ترجیحات کے حساب سے اور اپنے پسندیدہ ضابطے اور قواعد کی مناسبت سے مجھے کھیلا کرتے تھے۔
اور پھر مجھے کھیلنے والے گیارہ ممتاز اسکولوں، کالجوں اور کلبوں کے نمائندوں کا ایک اجلاس 26 اکتوبر، 1863 میں فری میسنز ٹیورن میں منعقد ہوا تا کہ مجھے کھیلنے کے لئے ایک متفقہ ضابطہ بنایا جا سکے- یہ بات شاید حیران کن ہو کہ اس اجلاس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور کسی متفقہ فیصلے پر پہنچنے کے لئے اگلے تین ماہ کے دوران کل آٹھ اجلاس ہوئے۔
اسی دوران رگبی رولز کے حامیوں نے اس اجلاس سے واک آؤٹ کر دیا اور بالآخر دسمبر، 1863 کو ایسوسی ایشن فٹبال کا قیام عمل میں آیا اور اسی روز پہلی بار مجھے کھیلنے کے لئے جامع قواعد و ضابطے شائع کیے گئے۔
ان قوانین کو بنانے کے فوری بعد ان کے مطابق، پہلا فٹبال میچ 19 دسمبر، 1863 کو لندن میں بارنز فٹبال کلب اور رچمنڈ فٹبال کلب کے درمیان کھیلا گیا جس میں اس وقت کے چوٹی کے کھلاڑیوں نے حصہ لیا تاہم یہ میچ بنا کسی گول کے برابری پر ختم ہوا۔
اس تنظیم اور مجھے کھیلنے کے لئے متفقہ قانون کی تشکیل کے کے بعد میری ترقی کا سفر تو جیسے بجلی کی تیزی سے طے ہونا شروع ہو گیا- اس وقت تک برطانوی سیلرز، تاجروں اور سپاہیوں کی وجہ سے میری پہنچ بہت سے ملکوں تک ہو چکی تھی اور خاص طور پر بہت سے یورپی ملکوں میں تو ایف اے طرز کی تنظیمیں اور مجھے کھیلنے والے کلبز تیزی سے سامنے آنا شروع ہو گئے تھے۔
مجھے کھیلنے کے لئے بنائے جانے والے 1863 کے رولز کے بارے میں بھی آپ سے چند دلچسپ حقائق شئیر کرتا چلوں- سب سے اہم یہ کہ ان رولز کے مطابق، ہینڈلنگ یعنی گیند کو ہاتھ لگانے یا اسے پکڑنے کی اجازت تھی تاہم یہ اسی صورت میں ممکن تھا کہ کھلاڑی اچھلی ہوئی گیند کو کیچ کر لے اور پھر اسے اس کے بدلے فری کک مل جاتی تھی- 1869 میں قوانین میں ترمیم کے ساتھ ہی ہینڈلنگ کو کھیل میں ممنوع قرار دے دیا گیا۔
ان رولز میں دو گول پوسٹوں کے اوپر بار لگانے کا بھی کوئی ذکر موجود نہیں- اسی طرح شاید کم لوگوں کے علم میں یہ بات ہو کہ ان قوانین میں ریفری کا بھی کوئی ذکر نہیں- اس حوالے سے یہ دلیل سامنے آتی ہے کہ شرفاء سے کسی فاؤل کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی لہٰذا شریف لوگ (جنٹلمین) اسے بناء کسی جج یا ریفری کے کھیلتے تھے- دو ٹیموں کے درمیان میچ میں ریفری کی موجودگی کی شروعات 1891 سے ہوئی۔
قوانین بنانے کے چند سال بعد، 1872 میرے حوالے سے دنیا کے سب سے پہلے ٹورنامنٹ یعنی ایف اے کپ کا آغاز ہوا جبکہ اس وقت تک انگلینڈ میں ایف اے سے جڑے کلبز کی تعداد 50 تک پہنچ چکی تھی اور پھر 1888 میں باقاعدہ لیگ چیمپئن شپ کا آغاز ہوا۔
مجھے کھیلنے کے دوران استعمال ہونے والی زیادہ تر اصطلاحات فوج سے لی گئیں، اسی وجہ سے گول کرنے والے کو اٹیکر اور اسے بچانے والے کو ڈیفندر کھلاڑی کہا جاتا ہے- اسی طرح بیک لائن، ونگر اور اٹیک کی اصطلاحات ہیں۔
ایک اور دلچسپ امر یہ ہے کہ پہلے پہل کارنر مارتے وقت یہ بات ضروری نہیں تھی کہ کھلاڑی کونے سے گیند کو کک مارے بلکہ بہت سے ایسے واقعات بھی ہوئے جن میں کھلاڑیوں نے کارنر اسپاٹ سے گیند کو دربل (DRIBBLE) کرتے ہوئے گول کے قریب پہنچ کر ایسی جگہ سے گیند پر کک لگائی کہ گول کرنا ممکن ہو- 1913 میں قواعد میں ہونے والی تبدیلی کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوا۔
ایک اور دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ 1927 سے پہلے تک فری کک کے ذریعے گول کرنا ممکن نہیں تھا کیونکہ اس وقت کے قانون کے مطابق فری کک سے ماری گئی گیند اگر گول میں چلی بھی جاتی تھی تو اسے گول تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔
میری مقبولیت اور میرے میچوں میں تماشائیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے کلبز نے پروفیشنل کھلاڑیوں کو معاوضے کے عوض اپنے کلبز سے کھلانا شروع کر دیا- اس سلسلے کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک نسبتاً چھوٹے سے کلب ڈارون نے اس زمانے کی ناقابل تسخیر ٹیم، اولڈ ایٹونینز کو مسلسل دو میچوں تک جیت سے دور رکھا- کہا جاتا ہے کہ ڈارون کلب نے اس مقصد کے لئے دو کھلاڑیوں کو اپنی ٹیم میں کھلایا تھا جن کی مہارت اور تیزی کی وجہ سے ان دونوں میچوں میں حریف ٹیم مقابلہ جیتنے میں ناکام رہی۔
ڈارون کلبز کے ان دو کھلاڑیوں کے نام تھے اسکوٹس جان لوو اور فرگس سوٹر اور یہی دونوں دنیا کے پہلے پروفیشنل فٹبالر کہلاتے ہیں- ان کے بعد کلبز میں پیشہ ورانہ کھلاڑیوں کو کھلانے کے رجحان میں اس حد تک اضافہ ہوا کہ ایف اے کو 1885 ہی میں پروفیشنلزم کو قانونی قرار دینا پڑا۔
میری مقبولیت دنیا میں ہر جانب پھیل رہی تھی اور مختلف ملکوں کی فٹبال تنظیموں کے لئے ایک بار پھر وہی مسئلہ سامنے آنے لگا کہ بین الاقوامی میچوں کو کن قواعد و ضوابط کے تحت کھیلا جائے- اس مسئلے کے حل کے لئے مئی 1904 میں 7 ملکوں کے نمائندے فرانس کے شہر پیرس میں جمع ہوئے اور فیڈریشن انٹرنیشنل دی فٹبال ایسوسی ایشن یعنی فیفا کا قیام ہوا۔
اس ابتدائی اجلاس میں شامل ہونے والے ملکوں میں فرانس، بیلجیئم، ڈنمارک، نیدرلینڈ، سوئٹزرلینڈ، اسپین اور سوئیڈن شامل تھے- حیرانی کی بات ہے کہ اس تاریخی اجلاس میں انگلینڈ نے شرکت نہیں کی تھی۔
فیفا کی مسلسل کوششوں کی وجہ سے بالآخر 1930 میں میرے نام پر تاریخ کا پہلا عالمی ٹورنامنٹ کھیلا گیا اور آج اس ٹورنامنٹ کے 21ویں ایڈیشن کا آغاز ہونے جا رہا ہے جسے ایک بار پھر دنیا بھر میں ریکارڈ تعداد میں شائقین برازیل کے اسٹیڈیمز میں اور ناظرین اپنی ٹیلی ویژن اسکرینز پر اگلے چند ہفتوں تک دیکھتے رہیں گے۔
شعیب بن جمیل کی یہ تحریر 2014 میں دو اقساط (قسط اول ، قسط دوم) میں شائع ہوئی تھی، جس کو معمولی ترمیم کے بعد دوبارہ شائع کیا گیا۔
فٹبال دنیا کا مقبول ترین کھیل ہے جسے دنیا کے تقریباً تمام ممالک ہی بین الاقوامی سطح پر کھیلتے ہیں۔ اس کھیل کے عالمی میلے کا انعقاد ہر 4 برس بعد کیا جاتا ہے، جس میں دنیا کی 6 کنفیڈریشنز کی ٹیمیں حصہ لیتی ہیں۔
ٹورنامنٹ میں حصہ لینے کے لیے تمام کنفیڈریشنز میں کولیفائینگ کپ منعقد کیے جاتے ہیں، جن میں فاتح اور رنرز اپ رہنے والی ٹیمیں فیفا ورلڈ کپ کے لیے کولیفائی کرلیتی ہیں۔ اس صورت میں جب فیفا نے ایک کنفیڈریشن سے 2 سے زائد ٹیموں کو ورلڈ کپ میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہو، تو پھر کولیفائینگ کپ میں مطلوبہ تعداد کی سرفہرست ٹیمیں ورلڈ کپ کے لیے کولیفائی کرتی ہیں۔ یعنی اگر ایشیا سے 4 ٹیموں کو فیفا ورلڈ کپ میں شامل ہونے کی اجازت دی گئی ہے تو پھر کنفیڈریشن کے کولیفائینگ ٹورنامنٹ میں فاتح، رنرز اپ، تیسرے اور چوتھے نمبر پر آنے والی ٹیمیں ورلڈ کپ کے لیے کولیفائی کریں گی، جبکہ 5 اور اس سے نیچے درجے کی ٹیمیں ناکام کہلائیں گی۔
فٹبال ورلڈ کپ کے انعقاد کا تصور فیفا کے صدر جولز ریمٹ نے پیش کیا تھا۔ فیفا ورلڈ کپ کی شروعات 1930 میں ہوتی ہے اور اس کی میزبانی کے لیے یوراگوئے کو چنا جاتا ہے، جو اپنی آزادی کی 100 سالہ تقریبات منا رہا تھا، اور اسی نے ایونٹ کے لیے ٹیموں کو دعوت دی اور ان کے اخرابات بھی برداشت کیے۔ اس ٹورنامنٹ کے لیے کولیفائینگ راؤںڈ نہیں کھیلا گیا، بلکہ ٹیموں نے یوراگوئے کی دعوت پر ایونٹ میں شرکت کی۔
اب تک 20 ورلڈ کپ 15 ممالک میں منعقد کیے جاچکے ہیں جن میں میکسیکو، فرانس، جرمنی، برازیل اور اٹلی ان ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے 2 مرتبہ ایونٹ کی میزبانی کے فرائض انجام دیے ہیں۔
برازیل کی ٹیم فیفا کے تمام ورلڈ کپ کھیلنے والی واحد ٹیم ہے، اور سب سے زیادہ مرتبہ ورلڈ کپ جیتنے کا ریکارڈ بھی برازیل کے ہی پاس ہے۔ جبکہ ورلڈ کپ کے سب سے زیادہ فائنل کھیلنے کا ریکارڈ جرمنی کے پاس ہے۔
یوراگوئے، اٹلی، ارجنٹینا، انگلیںڈ اور فرانس ان ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے اپنے ہی ملک میں ہونے والا ورلڈ کپ جیتا جبکہ سوئیڈن وہ واحد ٹیم ہے جو اپنے ملک میں ہونے والے ورلڈ کپ کے فائنل میں شکست کھا گئی تھی۔ جرمنی اور اسپین بھی ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیموں میں شامل ہیں۔
بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ فٹبال کے کھیل میں تبدیلیاں رونما ہوتی گئیں اور ان تبدیلیوں کو عالمی مقابلوں میں بھی نافذ کیا جاتا رہا۔ گزرتے وقت کے ساتھ فٹبال ورلڈ کپ میں ٹیموں کی تعداد اور ان کے فارمیٹ میں بھی تبدیلیاں رونما ہوتی گئیں۔
فٹبال کے عالمی مقابلوں کا جائزہ لینے کے لیے ان کے نام سے متعین ٹیب پر کلک کریں۔
دنیا میں سب سے زیادہ کھیلے جانے والے اور مقبول ترین کھیل فٹبال کی عالمی تنظیم جس کا نام (فرانسیسی زبان میں) فیڈریشن انٹرنیشنلے ڈی فٹبال ایسوسی ایشن (فیفا) ہے، کا قیام سال 1900 میں ہونے والے اولپکس میں فٹبال کی شمولیت کے بعد 1904 میں عمل میں آیا۔ جس کے بعد سے 1928 تک ہر چار سال ہونے والے اولمپکس میں طلائی تمغے کے لیے فٹبال کے مقابلے منعقد کیے جاتے تھے جن کے کامیاب انعقاد کے بعد فٹبال کی عالمی تنظیم نے اولمپک کے باہر فٹبال کے عالمی مقابلے کے انعقاد کا فیصلہ کیا جسے فیفا ورلڈ کپ کا نام دیا گیا۔
فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کے مختلف ممالک کے نام سامنے آئے تاہم یواگوئے 1930 میں برازیل سلطنت سے حاصل کی جانے والی آزادی کی 100 سالہ تقریبات منعقد کرنے جارہا تھا، اس کے لیے یوراگوئے حکومت نے فیفا سے ورلڈ کپ میزبانی کی درخواست کی جسے قبول کر لیا گیا جبکہ میزبانی کے امیدوار دیگر ممالک اس سے دستبرار ہوگئے۔
فٹبال کا پہلا عالمی کپ جولائی 1930 میں یوراگوئے میں کھیلا گیا تھا۔ یہ ٹورنامٹ صرف ایک شہر یعنی یوراگوئے کے دارالحکومت مونٹی ویڈیو میں تین مختلف میدانوں میں 13 سے 30 جولائی تک کھیلا گیا جس میں 3 کنفیڈریشنز سے کل 13 ٹیموں نے شرکت کی۔ ان ٹیموں نے کولیفائینگ راؤںڈ کے بجائے یوراگوئے کی درخواست پر ایونٹ میں شرکت کی۔ سفری اخراجات کی وجہ سے کئی ممالک نے ٹورنامنٹ میں شرکت سے معذرت کرلی تھی۔
فٹبال کا یہ پہلا ٹورنامنٹ راؤنڈ روبن کی بنیاد پر کھیلا گیا جہاں ٹیموں کو 3، 3، 3، اور 4 کے 4 گروپس میں تقسیم کیا گیا، جس میں میزبان ٹیم کے علاوہ ارجنٹائن، چلی، فرانس میکسکو، یوگوسلوایہ، برازیل، بولیویا، رومانیہ، امریکا، پیراگوئے، بیلجیئم اور پیرو نے شرکت کی۔
ایونٹ کا پہلا سیمی فائنل یوراگوئے اور یوگوسلاویہ کے درمیان کھیلا گیا جس میں یوراگوئے نے کامیابی حاصل کی جبکہ دوسرا سیمی فائنل ارجنٹائن اور امریکا کے درمیان کھیلا گیا جس میں ارجنٹائن نے کامیابی حاصل کی۔
فائنل میں دونوں ہی ٹیمیں لاتینی امریکا کی تھیں، اس لیے یہ ایونٹ کا فائنل مقامی تماشایوں کافی دلچسپ ہوگیا تھا، جہاں مہمان ٹیم نے ارجنٹائن کو با آسانی 2-4 سے شکست دے کر فیفا ورلڈ کپ کے افتتاحی ٹورنامنٹ کی فاتح کہلائی اور غور طلب بات یہ کہ ایونٹ کی میزبان ٹیم نے ہی پہلا ٹورنامنٹ اپنے نام کرلیا تھا۔
تیسرے نمبر کی پوزیشن کے لیے یو ایس اے اور یوگوسلاویہ کے درمیان میچ ہوا جس میں یو ایس اے کامیاب رہا۔ ٹورنامنٹ میں کل 18 مقابلے ہوئے جس میں 70 گول اسکور ہوئے تھے جبکہ سب سے زیادہ گول اسکور کرنے کا ریکارڈ ارجنٹائن کے گوئیلرمو اسٹیبل کا تھا جنہوں نے 8 گول اسکور کیے اور ٹیم کو ٹورنامنٹ کے فائنل میں پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ فائنل میں ارجنٹائن اور یوراگوئے کے اعتراض کی وجہ سے دونوں ہاف میں علیحدہ علیحدہ گیند کا استعمال کیا گیا تھا جو اپنے اپنے لیے دونوں ٹیموں نے خود منتخب کی تھی۔ پہلے ہاف میں ارجنٹائن کی ٹیم کی پسند کی فٹبال استعمال کی گئی جبکہ دوسرے ہاف میں یوراگوئے کی ٹیم کی پسند کی فٹبال استعمال کی گئی تھی۔
فیفا ورلڈ کپ 1930 کی فاتح ٹیم کو انعام میں جو ٹرافی دی گئی اس کا نام ٹورنامنٹ کی تجویز پیش کرنے والے فیفا کے تیسرے صدر جولز رمیٹ کے نام پر رکھا گیا تھا، یا یوں کہہ لیں گے فاتح ٹیم کو جولز ریمٹ ٹرافی دی گئی تھی۔
گولڈن بوٹ: گوئیلرمو اسٹیبل (ارجنٹائن)
پہلے عالمی کپ کے کامیاب انعقاد کے بعد 1934 کے ایونٹ کی میزبانی کے لیے صرف اٹلی اور سوئیڈن سامنے آئے، لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر سوئیڈن نے ایونٹ کی میزبانی کی دوڑ سے دستبراری کا اعلان کر دیا تھا جس کی وجہ سے اٹلی کو اس ایونٹ کی ذمہ داری سونپی گئی۔
1934 میں ہونا والا دوسرا فٹبال ورلڈ کپ مئی اور جون کے مہینے میں اٹلی کے 8 شہروں میں کھیلا گیا جس میں 4 کنفریڈیشنز میں سے 16 ٹیموں نے حصہ لیا۔ ان ٹیموں میں میزبان ٹیم کے ساتھ ساتھ ارجنٹائن، آسٹریا، بیلجیئم، برازیل، چیک سلواکیہ، مصر، فرانس، جرمنی، ہنگری، ہالینڈ، رومانیہ، اسپین، سوئیڈن، سوئیٹزرلینڈ، اور یو ایس اے شامل تھی۔ خیال رہے کہ شمالی امریکا کی ٹیم ریاست متحدہ ہائے امریکا (یو ایس اے) اور افریقہ سے مصر کے علاوہ ایونٹ میں شرکت کرنے والی دیگر تمام ٹیموں کا تعلق یورپ یا پھر جنوبی امریکا سے تھا۔
یہ ایونٹ ناک آؤٹ بنیاد پر کھیلا گیا جس کا مطلب ہے کہ ایونٹ میں ایک بھی میچ ہارنے والی ٹیم ایونٹ سے باہر ہوجاتی ہے، جبکہ جیتنے والی ٹیم فائنل کی دوڑ میں شامل ہوجاتی، تاہم فٹبال کے ضابطے کے مطابق اگر میچ برابر ہوجاتا تو یہی میچ اگلے روز دوبارہ کھیلا جاتا کیونکہ ایونٹ کے دوران پنالٹی شوٹ آؤٹ کا سلسلہ اس ایونٹ میں متعارف نہیں ہوا تھا۔
ورلڈکپ کے پہلے سیمی فائنل میں میزبان اٹلی کا آسٹریا سے اعصاب شکن مقابلہ ہوا جس میں میزبان ٹیم نے حریف کو 0-1 سے زیر کرکے فائنل میں اپنی جگہ بنائی، اس کے بعد دوسرے سیمی فائنل میں چیک سلواکیہ کا مقابلہ جرمنی سے ہوا جہاں جرمن ٹیم کو 1-3 سے شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کا مطلب تھا یہ ٹائٹل اب یورپ کے پاس چلا جائے گا۔
فائنل میں میزبان اٹلی نے اپنی ہوم کنڈیشنز کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے حریف ٹیم چیک سلواکیہ کو زیر کرنے کے لیے تابڑ توڑ حملے کیے لیکن، مہمان ٹیم نے بہتری دفاعی حکمت عملی اپناتے ہوئے میچ کو سنسنی خیز بنادیا اور میچ اپنے مقرر وقت میں 1-1 سے برابر رہا۔ بلآخر میچ کے اضافی وقت میں میزبان ٹیم نے ایک گول اسکور کرکے پہلی مرتبہ ورلڈ کپ جیتنے کا اعزاز اپنے نام کیا اور یہ تاریخ میں دوسری مرتبہ تھا کہ ایونٹ کی میزبان ٹیم نے ٹرافی اپنے نام کی۔ ادھر جرمنی کی ٹیم آسٹریا کو ہرا کر تیسرے نمبر پر رہی۔
دوسرے ورلڈ کپ میں 17 میچز کھیلے گئے جن میں 70 گول اسکور ہوئے لیکن سب سے زیادہ گول اسکور کرنے والے چیک سلواکیہ کے اولدریش نیدلے تھے جن کے اسکور کی تعداد 5 تھی۔
گولڈن بوٹ: اولدریش نیدلے (چیک سلواکیہ)
فیفا کا تیسرا ورلڈ کپ 1938 میں منعقد ہوا جس کی میزبانی بھی یورپ نے کی لیکن اس مرتبہ فٹبال ورلڈ کپ کی تجویز پیش کرنے والے فرانس نے میزبانی کے فرائض انجام دیے۔ جنوبی امریکی ٹیموں کا خیال تھا کہ ان کے برِاعظم میں یہ ٹورنامنٹ کھیلا جائے گا، لیکن امیدوں کے برعکس ایونٹ کا انعقاد فرانس میں ہوا، جس کی وجہ یہ تھی کہ ممبر ممالک نے امیدواروں کی فہرست میں موجود ارجنٹائن اور جرمنی کو ووٹ نہیں دیے، اور اس صورت میں فرانس کے حصے میں میزبانی آئی۔
ورلڈ کپ کی میزبانی سے ہونے والے اس تنازع کی وجہ سے جنوبی امریکا کے ملک ارجنٹائن اور یوراگوئے نے احتجاجاً ایونٹ میں شرکت سے انکار کردیا جبکہ اسپین نے اپنے ملک میں جاری خانہ جنگی کی وجہ سے ورلڈ کپ میں شرکت نہیں کی۔ ادھر دلچسپ بات یہ ہے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ میزبان ٹیم اور دفاعی چیمپیئن ہونے کی وجہ سے فرانس اور اٹلی کو کوالیفائینگ میچز کھیلے بغیر ورلڈ کپ میں شرکت کی اجازت ملی۔
فرانس اور اٹلی کے علاوہ اس ٹورنا منٹ میں ناروے، فرانس، بیلجیئم، برازیل، پولینڈ، چیک سلواکیہ، ہالینڈ، ہنگری، سوئیٹزرلینڈ، جرمنی، سوئیڈن، آسٹریا، کیوبا، رومانیہ، ڈچ ایسٹ انڈیز (موجودہ انڈونیشیا) شامل ہیں، جبکہ ٹورنامنٹ کے آغاز سے کچھ روز قبل آسٹریا نے ایونٹ میں شرکت سے معذرت کرلی تھی جس کے بعد ٹورنامنٹ میں شرکت کرنے والی ٹیموں کی تعداد 16 کے بجائے 15 رہ گئی تھی۔
یہ ایونٹ بھی ناک آؤٹ بنیاد پر کھیلا گیا تھا جہاں سوئیڈن کی ٹیم پہلے مرحلے کے میچ میں آسٹریا کے شرکت نہ کرنے کے باعث فاتح قرار پائی اور بغیر میچ کھیلے کوارٹر فائنل میں پہنچ گئی تھی۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ یہ دوسرا اور آخری ورلڈ کپ تھا جو صرف ناک آؤٹ بنیاد پر کھیلا گیا تھا۔ اس کے بعد کوئی بھی ٹورنامنٹ صرف ناک آؤٹ بنیاد پر نہیں کھیلا گیا بلکہ پہلے راؤنڈ رابن اور پھر ناک آوٹ مرحلہ کھیلا جاتا رہا ہے۔
یہ ایونٹ فرانس کے 10 شہروں میں کھیلا گیا جس کا پہلا سیمی فائنل مقابلہ دفاعی چیمپیئن اٹلی اور برازیل کے درمیان ہوا جس میں اٹلی کی ٹیم نے اپنی برتری ثابت کرتے ہوئے 1-2 سے فتح سمیٹی اور مسلسل دوسری مرتبہ فٹبال ورلڈ کپ کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔ ادھر دوسرے سیمی فائنل میں ہنگری اور سوئیڈن کا مقابلہ ہوا جس میں ہنگری کی ٹیم نے 1-5 کے واضح مارجن سے سوئیڈش ٹیم کو زیر کیا اور فائنل میں جگہ بنائی، علاوہ ازیں تیسری پوزیشن کے میچ میں برازیل نے سوئیڈن کو 2-4 سے ہرادیا۔
فائنل مقابلہ اٹلی اور ہنگری کے درمیان پیرس کے اولمپک اسٹیڈیم میں کھیلا گیا جس میں اٹلی نے حریف ٹیم کو 2-4 سے شکست دے کر نا صرف اپنے ٹائٹل کا کامیابی سے دفاع کیا بلکہ وہ فٹبال ورلڈکپ کی تاریخ میں مسلسل دوسری مرتبہ عالمی کپ جیتنے والی پہلی ٹیم بن گئی۔
ورلڈ کپ میں کُل 18 میچز کھیلے گئے اور 84 گول اسکور کیے گئے جس میں سب سے زیادہ گول برازیل کے لیونیڈاس نے کیے جن کی تعداد 7 تھی۔
بعدِ ازاں فٹبال ورلڈ کپ 1942 میں منعقد کیا جانا تھا لیکن دوسری جنگِ عظیم کی وجہ سے یہ ٹورنامنٹ منعقد نہیں کیا جا سکا، اس کے ساتھ ساتھ 1946 میں ہونے والا ورلڈ کپ بھی منسوخ ہوگیا جس کی وجہ سے اٹلی کی ٹیم 1950 میں ہونے والے ورلڈکپ تک کے لیے چیمپیئن رہی، اور تکنیکی بنیادوں پر فٹبال کی تاریخ میں 16 سال تک عالمی چیمپیئن رہنے والی دنیا کی واحد ٹیم بن گئی۔
گولڈن بوٹ: لیونیڈاس (برازیل)
فٹبال کے تیسرے عالمی میلے کے بعد چوتھا ورلڈ کپ شیڈول کے مطابق 1942 اور پانچواں 1946 میں منعقد ہونا تھا لیکن جدید انسانی تاریخ کی جنگِ عظم دوم کی وجہ سے فٹبال ورلڈکپ کا انعقاد ممکن نا ہوسکا اور پھر یہ ٹورنامنٹ 1950 میں کھیلا گیا جس میں برازیل کو ٹورنامنٹ کی میزبانی کے فرائض کی ذمہ داری دی گئی۔ یہ ایونٹ 1949 میں ہونا تھا تاہم اسے بعد میں 1950 میں شیڈول کردیا گیا۔
یہ ٹورنامنٹ فٹبال ورلڈ کپ کی تاریخ کا سب سے متنازع ٹورنامنٹ سمجا جاتا ہے، جہاں ایک یا 2 نہیں بلکہ کئی ٹیموں نے کوالیفائنگ مقابلے بھی کھیلنے سے انکار کردیا تھا، جس کی وجوہات اُس وقت حال ہی میں اختتام پذیر ہونے والی جنگِ عظیم دوم تھی جس نے کرہ ارض کا نقشہ تک تبدیل کردیا تھا، اور ہر گزرتے سال کے ساتھ ساتھ دنیا کے جغرافیہ اور بین الاقوامی تعلقات میں تبدیلیاں رونما ہورہی تھی۔
میزبان ملک ہونے کی وجہ سے برازیل نے ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کرلیا تھا، تاہم دفاعی چیمپیئن اٹلی کی ٹورنامنٹ میں شرکت مشکوک نظر آنے لگی کیونکہ ایونٹ سے ایک سال قبل ایک طیارہ حادثے میں اطالوی ٹیم کے تقریباً تمام ہی کھلاڑی ہلاک ہوگئے تھے۔ اس حادثے کے باجود اٹلی نے اپنی نئی اپنی ٹیم کو برازیل بھیجنے کا فیصلہ کیا، جس کے لیے انہوں نے ہوائی جہاز سے نہیں بلکہ سمندری جہاز سے سفر کرنا مناسب سمجھا۔
اس ٹونامنٹ میں دلچسپ بات یہ تھی کہ کئی ممالک نے اپنی ٹیمیں برازیل بھیجنے سے معذرت کرلی تھی، جس کی وجہ سے دیگر ٹیموں کو ٹورنامنٹ میں شمولیت کا موقع ملا جس میں بھارتی فٹبال ٹیم بھی شامل تھی، تاہم 2 سال قبل تقسیم ہند کی وجہ سے سہولیات میسر نہ آنے کے باعث انہیں ٹورنامنٹ سے دستبردار ہونا پڑا تھا۔
جرمنی اورجاپان پر فیفا نے کوالیفائینگ میچز کھیلنے پر پابندی عائد کردی تھی، جبکہ فن لینڈ نے کوالیفائینگ راؤنڈ سے قبل ہی دستبرداری کا اعلان کردیا تھا۔ 1934 کی فائنلسٹ چیک سلواکیہ اور 1938 کی فائنلسٹ ٹیم ہنگری سمیت سویت یونین نے عالمی میلے میں شرکت سے انکار کردیا تھا۔
ورلڈ کپ میں بولیویا، برازیل، چلی، انگلینڈ، بھارت، اٹلی، میکسیکو، پیراگوئے، اسکاٹ لینڈ، اسپین، سوئیڈن، سوئٹزرلینڈ، ترکی، یو ایس اے، یوراگوئے اور یوگوسلوایہ نے کوالیفائی کیا، تاہم بھارت، اسکاٹ لینڈ اور ترکی کی ٹیموں نے عالمی میلے سے قبل دستبرداری کا اعلان کردیا، اور اس کے بعد فرانس، پرتگال اور آئرلینڈ کو دعوت دی گئی جسے پرتگال اور آئرلینڈ نے شرکت سے معذرت کر لی جبکہ فرانس نے بھی بعد مالی مسائل کے سبب شرکت سے معذرت کر لی تھی۔
یہ ایونٹ صرف راؤنڈ روبن کی بنیاد پر کھیلا گیا یعنی کے اس ٹورنامنٹ میں کوئی فائنل یا سیمی فائنل مقابلہ نہیں تھا۔ 13 ٹیموں کو 4 علیحدہ علیحدہ گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا جہاں پہلے گروپ میں میزبان برازیل کے ساتھ یوگوسلاویہ، سوئٹرزلینڈ اور میکسیکو شامل تھے، دوسرے گروپ میں اسپین، انگلینڈ، امریکا اور چلی شامل تھے، تیسرے سوئیڈن، اٹلی، پیراگوئے جبکہ چوتھے گروپ میں صرف دوٹیمیں بولیوا اور یوراگوئے شامل تھے۔
چاروں گروپ کی ٹاپ ٹیموں یعنی برازیل (گروپ 1)، اسپین (گروپ 2)، سوئیڈن (گروپ 3) اور یوراگوئے (گروپ 4) نے فائنل مرحلے کے لیے کوالیفائی کیا جس میں 4 ٹیمیں مدِ مقابل تھیں اور گروپ میچز کے اختتام پر سرِ فہرست رہنے والی ٹیم ہی تیسرے ورلڈ کپ کی فاتح کہلانے والی تھی۔ لیکن محض ایک اتفاق سے گرپ کا آخری میچ ہی فائنل کی شکل اختیار کر گیا تھا۔
گروپ کے آخری میچ میں برازیل کو ٹورنامنٹ کا فاتح بننے کے لیے یوراگوئے کے ساتھ میچ کو کم سے کم برابر کرنا تھا، لیکن مہمان ٹیم کی بدقسمتی ایسی تھی کہ انہیں یوراگوئے سے 2-1 سے شکست ہوگئی، جس کے ساتھ ہی گروپ میں ٹاپ پوزیشن حاصل کرنے کی وجہ سے یوراگوئے ایونٹ کی فاتح قرار پائی۔ یوں عالمی کپ کا تاج ایک مرتبہ پھر یورپ سے واپس جنوبی امریکا چلا گیا۔ تیسری پوزیشن سوئیڈن اور چوتھی اسپین کے حصے میں آئی۔
ورلڈ کپ 1950 میں کُل 22 میچز کھیلے گئے جس میں 88 گول اسکور ہوئے، لیکن اس ٹورنامنٹ کے آخری میچ کی خاص بات یہ تھی کہ اسے ایک لاکھ 79 ہزار سے زائد تماشائیوں نے دیکھا، جو اب تک ایک میچ میں سب سے زیادہ شائقین کے اسٹیڈیم آنے کا ریکارڈ ہے۔ ایونٹ میں سب سے زیادہ گول برازیل کے آدمیر مارکس نے کیے جن کی تعداد 8 تھی۔
واضح رہے کہ فٹبال کے 4 ورلڈ کپ ہونے کے بعد بھی صرف اٹلی اور یوراگوئے ہی ورلڈ چیمپیئن بننے میں کامیاب ہوئے تھے۔
گولڈن بوٹ: آدمیر مارکس (برازیل)
جنوبی امریکا میں ہونے والے چوتھے فٹبال ورلڈ کپ، جس میں یوراگوئے نے پوائنٹس کی بنیاد پر ٹورنامنٹ اپنے نام کیا تھا، کے کامیاب انعقاد کے بعد اب پانچواں ورلڈ کپ 1954 میں یورپ میں کھیلا جانے والا تھا، اور اس ورلڈ کپ کی میزبانی کا فیصلہ بھی 1946 میں ہونے والے فیفا کے اسی اجلاس میں کرلیا گیا تھا جس میں 1950 کے ورلڈ کپ کی میزبانی کے لیے برازیل کو منتخب کیا گیا تھا۔
فٹبال کا پانچواں ورلڈکپ سوئیٹزرلینڈ کے 6 شہروں میں جون اور جولائی 1954 میں کھیلا گیا جس میں 4 کنفیڈریشنز کی 16 ٹیموں نے حصہ لیا۔ ان ٹیموں میں سوئیٹزرلینڈ بطور میزبان ٹیم اور یوراگوئے نے بطور دفاعی چیمپیئن پہلے ہی کوالیفائی کر لیا تھا، جبکہ دیگر 14 ٹیموں میں 11 ٹیموں نے یورپ سے(جن میں مصر، ترکی اور اسرائیل بھی شامل تھیں) کوالیفائی کیا جبکہ شمالی امریکا اور جنوبی امریکا سے ایک ایک ٹیم نے کوالیفائی کیا تھا، اس کے علاوہ ایک ٹیم ایشیا سے ٹورنامنٹ میں شرکت کے لیے اہل قرار پائی تھی۔
ایشیائی ٹیم جنوبی کوریا اور یورپ سے ترکی کا یہ پہلا ورلڈ کپ تھا، دونوں ٹیمیں بالترتیب دوبارہ 1986 اور 2002 کے ورلڈ کپ میں نظر آئیں۔ حیرت انگیز طور پر 1950 کے ورلڈ کپ میں تیسرے اور چوتھے نمبر پر رہنے والی ٹیمیں سوئیڈن اور اسپین 1954 کے ورلڈکپ کے لیے کوالیفائی بھی نہیں کر سکیں۔ خیال رہے کہ اسپین کو تین میچوں کی سیریز میں ترکی کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کی وجہ سے وہ ایونٹ کی دوڑ سے باہر ہوئی۔
اس ٹورنامنٹ کے لیے فیفا نے پابندی اٹھاتے ہوئے جرمنی اور جاپان کو کوالیفائی راؤنڈز میں حصہ لینے کی اجازت دے دی تھی، جس میں جاپان کی ٹیم کامیابی حاصل نہیں کرسکی لیکن 1949 میں جرمنی کے دولخت ہونے کے بعد مغربی جرمنی نے سار لینڈ (جنگِ عظیم دوم کے بعد فرانس کے زیرِ انتظام آنے والے جرمن باشندوں کا ملک) کے مقابلے میں کوالیفائی کرلیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ارجنٹائن نے مسلسل تیسری مرتبہ ورلڈکپ کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا۔
ورلڈ کپ کے لیے جن ٹیموں نے کوالیفائی کیا تھا ان میں سوئیٹزرلینڈ (میزبان)، یوراگوئے (دفاعی چیمپیئن)، آسٹریا، بیلجیئم، برازیل، چیک سلواکیہ، فرانس، انگلینڈ، ہنگری، اٹلی، جنوبی کوریا، میکسیکو، اسکاٹ لینڈ، ترکی، مغربی جرمنی اور یوگوسلاویہ شامل تھیں۔
یہ ورلڈکپ پہلے راؤنڈ رابن اور پھر ناک آؤٹ کی بنیاد پر کھیلا گیا تھا، راؤنڈ رابن مرحلے میں ٹیموں کو 4، 4 پر مشتمل چار گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا۔ یہ واحد اور منفرد موقع تھا جس میں ایک گروپ میں موجود ٹیموں کو بھی مزید دو کیٹیگری میں تقسیم کیا گیا تھا، جس میں ابتدائی 2 ٹیمیں سیڈڈ (Seeded) اور دیگر 2 ٹیمیں اَن سیڈڈ (Unseeded) تھیں۔
سیڈڈ ٹیموں میں آسٹریا، برازیل، فرانس، انگلینڈ، ہنگری، اٹلی، اسپین اور یوراگوئے شامل تھیں جنہیں فیفا نے عالمی رینکنگ کی بنیاد پر سیڈڈ کیٹیگری میں شامل کیا تھا، لیکن اسپین کی ترکی سے شکست کے بعد ترکی کو سیڈڈ کیٹیگری میں شامل کرلیا گیا۔ سیڈڈ ٹیم کو گروپ کی اَن سیڈڈ ٹیم کے خلاف گروپ میں ایک ایک میچ کھلنا تھا، دوسری اور تیسری نمبر کی ٹیم کے پوائنٹس برابر ہونے کی صورت میں دوسری پوزیشن کے لیے دونوں ٹیموں کے درمیان ایک پلے آف مقابلہ ہونا تھا۔
ایونٹ کے پہلے سیمی فائنل میں مغربی جرمنی اور آسٹریا کا مقابلہ ہوا جہاں جرمن ٹیم نے آسٹریا کو 1-6 سے با آسانی زیر کیا جبکہ دوسرا سیمی فائنل مقابلہ ایونٹ کی دو فیوریٹ ٹیموں ہنگری اور دفاعی چیمپیئن یوراگوئے کے درمیان ہوا جس میں ہنگری کی ٹیم نے 2-4 سے کامیابی سمیٹی۔ تاہم تیسری پوزیشن کے لیے ہونے والے میچ میں آسٹریا کامیاب رہا۔
فائنل مقابلے کے لیے امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ ہنگری کی 'گولڈن ٹیم' جو گزشتہ 32 میچز سے ناقابلِ شکست تھی، اس ایونٹ کو آسانی سے جیتنے میں کامیاب ہوجائے گی، کیونکہ ایونٹ کے گروپ اسٹیج کے میچ میں انہوں نے مغربی جرمنی کو 3-8 کے مارجن سے شکست دے کر اپنی برتری کو واضح کیا تھا۔
میچ سے قبل سوئیٹزرلینڈ کے شہر برن میں تیز بارش ہوئی، جو مغربی جرمنی کے لیے مثبت ثابت ہوئی کیونکہ جرمن ٹیم کے کپتان فرٹز والٹر کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ بارش میں بہترین کھیل کا مظاہرہ کرتے ہیں، تاہم جیسا امکان تھا ویسا ہی ہوا اور مغربی جرمنی نے اعصاب شکن مقابلے کے بعد ہنگری کی گولڈن ٹیم کو 2-3 سے شکست دے کر پہلی مرتبہ ورلڈکپ ٹائٹل اپنے نام کیا۔
ٹورنامنٹ میں ہنگری کی ٹیم نے کئی ریکارڈز اپنے نام کیے جن میں ایک ٹیم کی جانب سے کسی بھی ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ گول اسکور کرنے کا ریکارڈ بھی شامل ہے، ہنگری کی ٹیم کے کُل گول کی تعداد 27 تھی۔ اس کے علاوہ مغربی جرمنی کے پاس واحد ریکارڈ ہے کہ اس نے ورلڈ کپ میں اپنی کنفیڈریشن کے علاوہ کسی دوسرے کنفیڈریشن کی ٹیم سے میچ نہیں کھیلا اور فائنل جیتنے میں کامیاب ہوئی۔
ورلڈکپ 1954 میں اوسط 5.38 فی میچ کی اوسط سے کُل 140 گول اسکور ہوئے جو اوسط کے اعتبار سے سب سے زیادہ گول کا اب تک ریکارڈ ہے۔ ایونٹ میں ہنگری کے ساندور کوچیس نے سب سے زیارہ 11 گول اسکور کیے۔ اس کے علاوہ ورلڈ کپ کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس ٹورنامنٹ کو پہلی مرتبہ ٹیلی ویژن پر ٹیلی کاسٹ کیا گیا تھا۔
گولڈن بوٹ: ساندور کوچیس (ہنگری)
فیفا نے دنیا بھر میں اپنی جڑیں مضبوط کرلیں اور اس کے مداحوں میں اضافہ ہونے لگا کیونکہ اب میچز ٹیلی ویژن پر نشر ہونے لگے تھے، اور دنیا بھر کے فٹبال شائقین کو پھر ایک ورلڈکپ کا شدت سے انتظار تھا، یہ وہ زمانہ تھا جب جنگیں اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھیں، مغرب کی افریقہ اور ایشیا میں کالونی تقریباً ختم ہوگئیں تھی، اور دنیا میں اب زیادہ ممالک نمودار ہورہے تھے۔
فٹبال کے چھٹے ورلڈ کپ کی میزبانی کے لیے سوئیڈن، ارجنٹائن، چلی اور میکسیکو نے اپنی دلچسپی ظاہر کیا اور برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں فیفا کے اجلاس میں سوئیڈن کو بلا مقابلہ میزبانی کے لیے منتخب کر لیا گیا، اس طرح یہ مسلسل دوسری مرتبہ تھا کہ ورلڈ کپ یورپی ملک میں کھیلا جانے والا تھا۔
اسکینڈیون ملک سوئیڈن میں جون 1958 میں صرف 22 دن کے مختصر عرصے میں عالمی میلے کا انعقاد ہوا، اور تاریخ میں اسے اس لیے بھی یاد کیا جاتا ہے کیونکہ یہ عظیم برازیلین فٹبالر پیلے کا پہلا ورلڈ کپ تھا، اور یہیں سے برازیل کے فٹبال میں سنہری دور کی شروعات ہوئی۔
ورلڈکپ 1958 میں 16 ٹیموں نے کوالیفائی کیا جن میں میزبان ٹیم سوئیڈن اور دفاعی چیمپیئن مغربی جرمنی کے علاوہ انگلینڈ، ویلز، اسکاٹ لینڈ، شمالی آئرلینڈ، برازیل، ارجنٹائن، پیراگوئے، میکسیکو، آسٹریا، چیک سلواکیہ، فرانس، ہنگری، یوگوسلاویہ اور سویت یونین شامل تھیں۔
فیفا نے ورلڈ کپ کوالیفائینگ راؤنڈ کے ضوابط میں تبدیلیاں کردی تھیں جس کے مطابق کوئی بھی ٹیم بغیر میچ کھیلے فٹبال ورلڈ کپ میں کوالیفائی نہیں کر سکتی تھی، اور اسرائیل کے گروپ میں موجود ترکی، انڈونیشیا اور سوڈان کی ٹیم نے اسرائیل کے ساتھ کھیلنے سے انکار کردیا تھا، اسی وجہ سے اسے اپنے گروپ میں دوسرے نمبر پر رہنے والی ویلز سے ایک پلے آف میچ کھیلنا تھا۔ اس میچ میں ویلز کی ٹیم جیت کر ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔
ایونٹ میں شریک 16 ٹیموں کو 4، 4 کے چار گروپس میں تقسیم کیا گیا، جن میں سے ایک ٹیم مشرقی یورپ سے، ایک ٹیم مغربی یورپ سے، ایک ٹیم برطانیہ سے اور ایک ٹیم دیگر کنفیڈریشنز سے شامل کی گئی تھی۔
ورلڈ کپ میں گروپ مقابلوں میں پہلی اور دوسری پوزیشن کے لیے پوائنٹس برابر ہونے کی صورت میں پلے آف مقابلے کرائے گئے اور اگر پلے آف میچ بھی برابر رہا تو اس صورت میں گول کے اوسط کی بنیاد پر پہلی اور دوسری پوزیشن کی ٹیم کا فیصلہ کیا گیا، اور پہلی مرتبہ گول اوسط کو استعمال کرتے ہوئے ٹیموں کی پوزیشنز کا فیصلہ کیا گیا۔
ایونٹ میں سب سے بڑا نقصان گزشتہ ایونٹ کی فائنلسٹ ٹیم ہنگری کو ہوا جہاں ان کے اہم ترین کھلاڑی ہنگری میں کمیونیزم کے خلاف آنے والے انقلاب کے دوران ہنگامہ آرائی سے بچنے کے لیے ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے اور ایسے میں ٹیم کو صرف گزشتہ ایونٹ کے 3 ہی کھلاڑی میسر آسکے تھے۔
سیمی فائنل میں برازیل کا مقابلہ فرانس جبکہ میزبان سوئیڈن کا مقابلہ مغربی جرمنی سے ہوا، جہاں برازیل نے 2-5 سے کامیابی حاصل کی جبکہ میزبان ٹیم 1-3 سے کامیاب ہوکر فائنل میں پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔ تیسری پوزیشن کے میچ فرانس 6-3 سے جرمنی کے خلاف کامیاب رہا۔
اس ایونٹ کا فائنل مقابلہ عظیم فٹبالر پیلے کی وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے جنہوں نے ایونٹ میں یہ اپنا پہلا میچ کھیلا تھا اور کسی بھی ورلڈ کپ کے فائنل سب سے کم عمر ترین فٹبالر بننے، اسے جیتنے اور گول اسکور کرنے کا اعزاز حاصل کیا جو اب تک کا ایک ریکارڈ ہے۔ اس میچ میں پیلے نے 2 گول بھی اسکور کیے۔
اس کے علاوہ اس فائنل کو اس لیے بھی تاریخ میں یاد رکھا جاتا ہے کہ یہ وہ واحد فائنل مقابلہ ہے جس میں مہمان ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، کیونکہ 1950 کے ٹورنامنٹ میں فائنل مقابلہ نہیں ہوا، بلکہ اس ایونٹ کا فیصلہ گروپ فائنل کی صورت میں ہوا تھا جس میں برازیل کو شکست ہوئی تھی۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ پہلا موقع تھا جب ورلڈ کپ کا انعقاد یورپ میں ہوا لیکن کوئی بھی یورپی ملک اسے جیتنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔
ورلڈکپ 1958 میں کُل 126 گول اسکور ہوئے جس میں سب سے زیادہ گول فرانس کے جسٹ فاؤنٹین نے اسکور کیے جن کی تعداد 13 تھی جو ایک ایک ریکارڈ ہے۔
گولڈن بوٹ: جسٹ فونٹین (فرانس)
بہترین نوجوان کھلاڑی: پیلے (برازیل)
فٹبال ورلڈ کپ کا تاج برازیل نے سنبھال لیا تھا، اور وہ دور تھا جب برازیل نے اپنی حریف ٹیموں کو اپنی ہیبت میں جکڑ لیا تھا، خواہ لیگ ہو یا پھر کوئی دوستانہ بین الاقوامی میچ برازیل کے کھلاڑیوں کا سکہ چلتا تھا۔ ایسے میں ایک نام جو اب بھی فٹبال کا ذرا سا شوق رکھنے والوں کے ذہنوں میں موجود ہوگا وہ پیلے کا تھا نام جس کے تباہ کن اور برق رفتار کھیل نے برازیل کو تقریباً نا قابلِ شکست حریف بنادیا تھا۔
ورلڈ کپ 1962 کی میزبانی کے لیے تین ممالک کے درمیان سخت مقابلہ ہوا جن میں جنوبی امریکا سے چلی اور ارجنٹائن جبکہ یورپ سے مغربی جرمنی بھی اس دوڑ میں شامل تھا۔ چونکہ گزشتہ ورلڈ کپ یورپ میں منعقد ہوا تھا اس لیے اگلا ورلڈ کپ جنوبی امریکا میں منعقد ہونا تھا اور جرمنی میزبانی کی دوڑ سے دستبردار ہوگیا تھا۔
اس ٹورنامنٹ کے انعقاد سے 2 سال قبل جنوبی امریکی ملک چلی میں اب تک کی انسانی تاریخ کا سب تباہ کن زلزلہ ریکارڈ کیا گیا جس کی شدت ریکٹل اسکیل پر کم از کم 9.4 ریکارڈ کی گئی تھی، اس زلزلے نے چلی میں ہر طرف تباہی مچادی تھی جس میں 50 ہزار افراد ہلاک جبکہ 2 لاکھ سے زائد متاثر ہوئے تھے۔
چلی حکومت نے انفرااسٹرکچر کی تعمیر میں تیزی دکھاتے ہوئے تعمیراتی کام کا آغاز کردیا، لیکن پھر بھی ٹورنامنٹ کے انعقاد کے لیے دیگر ٹیموں کو منانا مشکل عمل تھا۔ چلی کے پڑوسی ملک ارجنٹائن میں بھی اس زلزلے کے اثرات واضح تھے لیکن کھیلوں کے مضبوط انفرا اسٹرکچر کی وجہ سے ورلڈ کپ کے انعقاد کی تیاری کر لی تھی۔ تاہم میزبانی کے لیے چلی اور ارجنٹائن میں ووٹنگ کا عمل ہوا تو اس میں چلی کامیاب رہا، اس طرح جنوبی امریکا کے ملک چلی کو فٹبال کے ساتویں ورلڈ کپ کی میزبانی کا اعزاز حاصل ہوا۔
فٹبال ورلڈ کپ مئی اور جون 1962 میں چلی کے 4 شہروں میں کھیلا گیا جس میں 16 ممالک نے شرکت کی، جن میں چلی (میزبان)، برازیل (دفاعی چیمپیئن)، ارجنٹائن، کولمبیا، یوراگوئے، میکسیکو، بلغاریہ، چیک سلوواکیہ، انگلینڈ، ہنگری، اٹلی، سویت یونین، اسپین، سوئٹزر لینڈ، مغربی جرمنی اور یوگوسلاویہ شامل تھیں۔
گزشتہ ایونٹ کی میزبان اور فائنلسٹ ٹیم سوئیڈن ورلڈ کپ میں کوالیفائی کرنے میں ناکام ہوگئی اور اس کے ساتھ ساتھ فرانس کی ٹیم بھی ایونٹ کا حصہ نہں تھی جبکہ آسٹریا نے ورلڈ کپ سے دستبرداری کا اعلان کردیا تھا۔
یہ ٹورنامنٹ پہلے راؤنڈ رابن اور پھر ناک آوٹ مرحلے کی بنیاد پر کھیلا گیا تھا۔ اس ٹورنامنٹ کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں ایک ایسا میچ کھیلا گیا تھا جسے تاریخ میں 'سانتیاگو کی جنگ' کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ مقابلہ (اس وقت تک) 2 مرتبہ کی عالمی چیمپیئن ٹیم اٹلی اور میزبانی چلی کے درمیان کھیلا گیا تھا جسے چلی نے 0-2 سے جیتا تھا۔
اس میچ کے دوران دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کا جھگڑا ہواگیا جس میں انہوں نے ایک دوسرے کو نہ صرف پیٹا بلکہ پولیس کو اس معاملے کو ختم کروانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا پڑا جبکہ اطالوی ٹیم کو پولیس کے ہی حصار میں میدان سے لے جایا گیا۔ میچ کے بعد اطالوی اخبارات میں چلی کے خلاف منفی پروپگینڈا شروع ہوگیا اور اسے دنیا کی سب سے بد ترین قوم قرار دیا جانے لگا، جبکہ چلی میں فٹبال کے ورلڈ کپ کے انعقاد کو بھی ایک بہت بڑی غلطی قرار دیا گیا، جسے چلی نے مسترد کردیا تھا۔
اس ورلڈ کپ میں زیادہ تر ٹیموں نے دفاعی حکمت عملی کا مظاہرہ کرنا شروع کیا اور اس کے بعد سے اب تک فٹبال میں اس تکنیک کو بھی زیادہ استعمال کیا جاتا ہے جس کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ 1962 میں ہونے والے ورلڈ کپ میں اوسط گول کی تعداد 2.78 تھی اور اس کے بعد سے آج تک دوبارہ کبھی بھی گول کی تعداد 3 سے زیادہ نہیں ہوئی۔
ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل میں دفاعی چیمپیئن برازیل کا مقابلہ میزبان چلی سے ہوا جس میں برازیل نے 2-4 سے کامیابی سمیٹی جبکہ دوسرا سیمی فائنل یوگوسلاویہ اور چیک سلواکیہ کے درمیان ہوا جس میں چیک سلواکیہ کی ٹیم 1-3 سے کامیاب رہی۔ تیسری پوزیشن کے میچ میں چلی نے یوگوسلاویہ کے خلاف 0-1 سے کامیابی حاصل کی۔
فائنل مقابلے میں برازیل نے عمدہ کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے چیک سلواکیہ کو 1-3 سے شکست دے کر اٹلی کے بعد اپنے ٹائٹل کا دفاع کرنے والی دنیا کی دوسری ٹیم بن گئی۔ ٹورنامنٹ میں 6 کھلاڑیوں نے 4، 4 گول اسکور کیے جن میں برازیل کے 2 جبکہ چلی، ہنگری، سویت یونین اور یوگوسلوایہ کے ایک ایک کھلاڑی شامل تھے۔
چلی نے ملک میں آئے زلزلے کے باوجود ورلڈ کپ 1962 کی میزبانی کے فرائض بخوبی انجام دیے، اگر چہ اٹلی کے ساتھ میچ میں بد نظمی دیکھنے میں تاہم دیگر ٹیموں کی جانب سے ایونٹ پر اطمینان کا اظہار کیا گیا۔
اب باری تھی 1966 کے ورلڈ کپ کی، جسے یورپ میں منعقد ہونا تھا اور اس سلسلے میں یورپ کے 3 ممالک اسپین، مغربی جرمنی اور انگلینڈ میزبانی کی دوڑ میں شامل تھے۔ فیفا کے اجلاس سے قبل اسپین نے میزبانی کی دوڑ سے دستبرداری کا اعلان کردیا تھا تاہم بعد میں صرف انگلینڈ اور مغربی جرمنی کے درمیان مقابلہ تھا۔
ایونٹ کی میزبانی کے لیے ہونے والی ووٹنگ میں مغربی جرمنی کے حق میں 27 ووٹ سامنے آئے لیکن اس کے مقابلے میں انگلستان کو 34 ووٹ ملے اور اس طرح فٹبال کا کھیل ورلڈکپ کی میزبانی کے لیے اپنی جائے پیدائش یعنی انگلینڈ پہنچ گیا۔
افریقی ممالک کی جانب سے بائیکاٹ کے بعد فیفا نے 10 یورپی ممالک، 4 جنوبی امریکی ممالک جبکہ ایک ایک وسطی اور شمالی امریکی ملک کو ایونٹ کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ گزشتہ ورلڈ کپ کا سیمی فائنل کھیلنے والی یوگوسلاویہ اور فائنل کھیلنے والی چیک سلواکیہ ایونٹ کا حصہ نہیں تھیں۔
ورلڈ کپ 1966 میں میزبانی انگلینڈ اور دفاعی چیمپیئن ٹیم برازیل کے علاوہ شمالی کوریا، میکسیکو، بلغاریہ، ارجنٹائن، برازیل، چلی، یوراگوئے، فرانس، ہنگری، اٹلی، پرتگال، سویت یونین، اسپین، سوئٹزرلینڈ، اور مغربی جرمنی نے کولیفائی کیا۔ یہ ٹورنامنٹ میں بھی 1962 کے طرز پر کھیلا گیا جہاں پہلے راؤنڈ رابن اور پھر ناک آؤٹ مرحلہ کھیلا گیا۔ ان ٹیموں کو 4، 4 کے چار گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا۔
ایونٹ کے پہلے سیمی فائنل میں میزبان انگلینڈ کا مقابلہ پہلی مرتبہ ایونٹ میں شرکت کرنے والی پرتگال سے ہوا جس میں میزبان ٹیم نے 1-2 سے کامیابی حاصل کی جبکہ دوسرے سیمی فائنل میں مغربی جرمنی اور سویت یونین کا مقابلہ تھا جس میں مغربی جرمنی کی ٹیم 1-2 سے کامیاب رہی۔ تاہم تیسری پوزیشن کے میچ میں پرتگال نے سویت یونین کو 1-2 سے شکست دی تھی۔
1966 کے ورلڈ کا فائنل تاریخی ویمبلے اسٹیڈیم میں فٹبال کی روایتی حریف ٹیموں کے مابین کھیلا گیا جسے دیکھنے کے لیے تقریباً 97 ہزار افراد اسٹیڈیم میں موجود تھے۔ میچ کے آغاز سے ہی دونوں ٹیموں نے محتاط کھیل کا مظاہرہ کیا اور مغربی جرمنی نے ابتداء میں ہی ایک گول کی برتری حاصل کرلی تھی جسے انگلینڈ کے سر جیفری ہرسٹ نے برابر کردیا۔
انگلینڈ نے میچ کے 78ویں منٹ میں 1-2 کی برتری حاصل کرلی تھی، تاہم مغربی جرمنی نے میچ کے آخری منٹ میں گول اسکور کرکے میچ برابر کردیا تھا۔ لیکن میچ کے ایکسٹرا وقت میں انگلینڈ کے سر جیفری ہرسٹ نے مزید 2 گول اسکور کرکے اپنی ہیٹرک مکمل کی اور انگلینڈ کو پہلی مرتبہ عالمی چیمپیئن بنادیا تھا۔
ورلڈ کپ 1966 میں کُل 89 گول اسکور ہوئے جس میں سے سب سے زیادہ گول پرتگال کے یوسیبیو نے کیے جن کی تعداد 9 تھی۔ ورلڈ کپ کی تاریخ میں پہلی اور اب تک واحد موقع تھا جب کسی کھلاڑی نے فائنل میں ہیٹرک کی تھی۔
پہلی مرتبہ عالمی کپ کا حصہ بننے والی ٹیم پرتگال نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور تیسری پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ شمالی کوریا نے بھی اس 1966 کے ورلڈ کپ میں پہلی مرتبہ کوالیفائی کیا اور اپنا واحد میچ گروپ اسٹیجز میں اٹلی جیسی ٹیم کے ساتھ جیتنے میں کامیاب ہوئی۔
ٹورنامنٹ کے آغاز سے قبل فٹبال کی تاریخ کا انوکھا اور بد ترین واقعہ رونما ہوا جہاں میوزیم میں رکھی جولز ریمٹ ٹرافی چوری ہوگئی، جسے بعد میں سراغ رساں کتے کی مدد سے تلاش کر لیا گیا تھا۔ تاہم یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ فٹبال ایسوسی ایشن (ایف اے) نے اس ٹرافی کی نقل تیار کر لی تھی، اور یہ منصوبہ بھی بنالیا تھا کہ اگر اصلی ٹرافی تلاش نہیں کی جاسکی تو یہ ٹرافی ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کو دی جائے گی۔
گولڈن بوٹ: یوسیبیو (پرتگال)
بہترین نوجوان کھلاڑی: فرینز بیکن باؤر
فٹبال کا نواں میلا 1970 میں میکسیکو میں سجا اور یہ پہلا موقع تھا جب ورلڈ کپ یورپ اور جنوبی امریکا سے باہر کھیلا گیا تھا۔ ایونٹ کی میزبانی کے لیے چار برِاعظم کے 6 ممالک نے اپنی خواہش کا اظہار کیا جن میں ارجنٹائن، آسٹریلیا، کولمبیا، جاپان، میکسیکو اور پیرو شامل تھے۔
جاپانی دارالحکومت ٹوکیو میں ہونے والے فیفا اجلاس کے دوران میزبان ملک کے لیے ووٹنگ ہوئی، تاہم ووٹنگ سے قبل آسٹریلیا، کولمبیا، جاپان اور پیرو نے میزبانی کی دوڑ سے دستبرداری کا اعلان کیا۔ اس طرح جنوبی امریکا کی ارجنٹائن اور شمالی امریکا کی میکسیکو کے درمیان ووٹنگ کا عمل ہوا جس میں میکسیکو کو واضح اکثریت حاصل ہوئی، یوں فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی پہلی مرتبہ شمالی امریکا کے حصے میں آئی۔
یہ ٹورنامنٹ مئی اور جون 1970 کو میکسیکو کے 5 شہروں میں کھیلا گیا جس میں میزبان میکسیکو، دفاعی چیمپیئن انگلینڈ سمیت اسرائیل، مراکش، ایل سلواڈور، پیرو، یوراگوئے، بیلجیئم، بلغاریہ، چیک سلواکیہ، برازیل، اٹلی، رومانیہ، سویت یونین، سویڈن اور مغربی جرمنی شامل تھیں۔
یہ واحد ٹورنامنٹ تھا جس میں ارجنٹائن کی ٹیم کولیفائی کرنے میں ناکام ہوگئی تھی، اس کے علاوہ جن ٹورنامنٹ میں ارجنٹائن کی ٹیم موجود نہیں تھی اس میں انہوں نے خود سے شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ورلڈ کپ 1970 میں فرانس اور ہنگری جیسی ٹیمیں بھی کولیفائی کرنے میں ناکام ہوگئی تھی، جبکہ گزشتہ ایونٹ کا سیمی فائنل کھیلنے والی پرتگال اور اسپین بھی ایونٹ کا حصہ نہیں تھیں۔ ادھر ایل سلواڈور، اسرائیل اور مراکش نے پہلی مرتبہ ایونٹ کے لیے کولیفائی کیا تھا۔
ایل سلواڈور نے ہنڈیورس کو کولیفائینگ مقابلے کے پلے آف میچ میں شکست دی تھی، اور یہ میچ ایل سلواڈور اور ہنڈیورس کے مابین جنگ کی وجہ بنا، اسی وجہ سے اس جنگ کا نام فٹبال جنگ اور '100 گھنٹے کی جنگ' رکھا گیا جو 4 دن تک جاری رہی اور اس میں دونوں فریقین کے تقریباً 3 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
یہ ٹورنامنٹ راؤنڈ رابن اور ناک آؤٹ بنیاد پر کھیلا گیا تھا، جس میں ٹیموں کو 4، 4 کے چار گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا۔ فیفا کے ضابطے کے مطابق ناک آؤٹ اسٹیچ پر میچ برابر ہونے کی صورت میں مزید وقت دیا جاتا، لیکن اس میں بھی میچ برابر ہوتا تو پھر فاتح ٹیم کا فیصلہ ٹاس کی مدد سے کیا جاتا جبکہ فائنل مقابلہ برابر ہونے کی صورت میں میچ دوبارہ منعقد کروایا جاتا۔
ایونٹ کے سیمی فائنل میں فٹبال کی اب تک کی تاریخ کی 4 فاتح ٹیمیں مدِ مقابل تھیں جہاں پہلا سیمی فائنل میچ برازیل اور یوراگوئے کے درمیان ہوا جس میں برازیل نے 1-3 سے کامیابی حاصل کیا جبکہ دوسرا میچ مغربی جرمنی اور اٹلی کے درمیان ہوا جس میں اٹلی نے 3-4 سے کامیابی حاصل کی۔ دونوں سیمی فائنل کی شکست خوردہ ٹیموں نے تیسری پوزیشن کے لیے میچ کھیلا جس میں مغربی جرمنی نے 1-0 سے کامیابی حاصل کی۔
فائنل مقابلہ انتہائی دلچسپ رہا جس میں عظیم فٹبالر پیلے نے ابتدا میں برازیل کو برتری دلاتے ہوئے جیت کی بنیاد رکھی اور مقرر وقت کے اختتام تک 1-4 سے اٹلی کو زیر کیا۔ فاتح ٹیم کو دی جانے والی 'جولز ریمٹ ٹرافی' کا یہ آخری ٹورنامنٹ تھا اور یہ ٹرافی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے برازیل کے پاس چلی گئی۔ بعدِ ازاں یہ ٹرافی ایک مرتبہ پھر چوری ہوگئی جس کا اب تک سراغ نہیں لگایا جاسکتا۔
ورلڈ کپ 1970 میں کُل 95 گول اسکور ہوئے اور سب سے زیادہ گول کرنے کا ریکارڈ مغربی جرمنی کے گرڈ مُلر کا ہے جنہوں نے 10 گول اسکور کیے۔
اس کے علاوہ یہ پہلا موقع تھا جب ورلڈ کپ کے دوران 'یلو کارڈ' اور 'ریڈ کارڈ' دکھانے کا قانون متعارف کرایا گیا تھا جو اب تک نافذ العمل ہے، تاہم اس سے قبل یہ فٹبال کے کھیل میں متعارف ہوچکا تھا لیکن اسے ورلڈ کپ میں استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ پہلی مرتبہ فٹبال ورلڈ کپ کے لیے ایڈی ڈاز کی ٹیلسٹار ارلاسٹ کی فٹبال استعمال کی گئی۔
گولڈن بوٹ: گرڈ مُلر (جرمنی)
بہترین نوجوان کھلاڑی: ٹوئیفیلو کوبیلاس (پیرو)
فیئرپلے ایوارڈ: پیرو
فٹبال ورلڈ کپ کا منزلیں طے کرنے کا سفر جاری تھا اور اب یہ ایک مرتبہ پھر یورپ پہنچ چکا تھا، میزبانی کے لیے مغربی جرمنی، اسپین، اٹلی اور ہالینڈ امید وار تھے، لیکن اٹلی اور ہالینڈ کے دستبرداری کے بعد اسپین نے 1982 کے ورلڈ کپ کی میزبانی کے لیے دستبرداری کا اعلان کردیا۔ یوں اس ٹورنامنٹ کی میزبانی مغربی جرمنی کے حصے میں آئی۔
یہ ٹورنامنٹ 1974 میں جون اور جولائی میں مغربی جرمنی کے 9 شہروں میں کھیلا گیا جس میں مغربی برلن بھی شامل ہے جرمنی کے دولخت ہونے کے بعد بھی مغربی جرمنی کا ہی حصہ تھا۔ اس ایونٹ میں بھی 16 ٹیموں نے حصہ لیا جن میں پہلی اور آخری مرتبہ ایونٹ کا حصہ بننے والی مشرقی جرمنی کی ٹیم بھی شامل تھی۔
اس ایونٹ میں میزبان مغربی جرمنی کے علاوہ دفاعی چیمپیئن برازیل، مشرقی جرمنی، زائر (کانگو)، آسٹریلیا، ارجنٹائن، چلی، یوراگوئے، ہیٹی، بلغاریہ، اٹلی، ہالینڈ، پولینڈ، اسکاٹ لینڈ، سوئیڈن اور یوگوسلاویہ نے کولیفائی کیا تھا۔
یہ ٹورنامنٹ ڈبل راؤنڈ رابن کی بنیاد پر کھیلا گیا تھا، جس کے مطابق ابتداء میں 16 ٹیموں کو 4، 4 کے چار گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا لیکن ان گروپس میں سرِ فہرست 2 ٹیمیں اگلے دو مخالف گروپس کے لیے کولیفائی کر گئیں۔
گروپ 1 سے مشرقی اور مغربی جرمنی، گروپ 2 سے برازیل اور یوگوسلاویہ، گروپ 3 سے ہالینڈ اور سوئیڈن جبکہ گروپ 4 سے ارجنٹائن اور پولینڈ نے اگلے مرحلے میں بالترتیب گروپ اے اور گرپ بی کے لیے کولیفائی کیا۔
گروپ اے سے ہالینڈ نے اپنے تمام میچز جیت کر ٹاپ کیا جبکہ گروپ بی سے مغربی جرمنی نے اپنے تمام میچز جیت کر ٹاپ کیا، اور دونوں ٹیموں نے فائنل کے لیے کولیفائی کرلیا۔
علاوہ ازیں گروپ اے سے برازیل اور گروپ بی سے پولینڈ کی ٹیم دوسرے نمبر پر رہی اور دونوں ٹیموں کے درمیان تیسرے اور چوتھے نمبر کے لیے میچ ہوا، جس میں پولینڈ نے دفاعی چیمپیئن کو بولسلا لاٹو کے گول کی مدد سے شکست دے دی تھی۔
ہالینڈ اور مغربی جرمنی کے درمیان عالمی تاج سجانے کا مقابلہ میونخ میں ہوا جس میں ہالینڈ کے نیسکینس نے پنالٹی اسٹروک کی مدد سے اپنی ٹیم کو میچ کے دوسرے ہی منٹ میں کامیابی سے ہمکنار کیا تھا۔ میچ کے 25ویں منٹ میں میزبان مغربی جرمنی کے بریٹنر نے پنالٹی اسٹروک پر ہی میچ 1-1 سے برابر کردیا۔
پہلے ہاف کے اختتام سے چند لمحات قبل 43ویں منٹ میں گریڈہارڈ مُلر نے گول اسکور کرکے اپنی ٹیم کو 1-2 کی برتری دلادی جو فیصلہ کن ثابت ہوئی اور مغربی جرمنی دوسری مرتبہ ورلڈ چیمپیئن بن گیا تھا۔ مغربی جرمنی نے اپنا ابتدائی میچ ہارنے کے بعد ایونٹ میں کامیابی حاصل کی۔
ایونٹ میں کُل 97 گول اسکور ہوئے لیکن سب سے زیادہ گول پولینڈ کے گرزیگروز لاٹو نے اسکور کیے جن کی تعداد 7 تھی۔
ٹورنامنٹ کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ اس ایونٹ میں گزشتہ ورلڈ کپ میں فاتح ٹیم کو دی جانے والی جولز ریمٹ ٹرافی کی مدت پوری ہونے کے بعد نئی ٹرافی متعارف کرائی گئی جس کا نام 'فیفا ورلڈ کپ ٹرافی' تھا، اور وہی مغربی جرمنی کو دی گئی، اور آج تک ورلڈ کپ میں یہی ٹرفی فاتح ٹیم کو دی جاتی ہے۔
اس ایونٹ میں پہلی مرتبہ کسی کھلاڑی کو ریڈ کارڈ دکھا کر گراؤنڈ سے باہر کیا گیا، حالانکہ یلو کارڈ اور ریڈ کارڈ کا قانون گزشتہ ایونٹ میں متعارف ہوچکا تھا لیکن کسی کو اس کے ذریعے باہر نہیں بھیجا گیا تھا۔ چلی کے کارلوس کاسزیلی کو مغربی جرمنی کے خلاف پہلے راؤنڈ کے میچ میں ریڈ کارڈ دکھایا گیا تھا۔
گولڈن بوٹ: گرزیگروز لاٹو (پولینڈ)
بہترین نوجوان کھلاڑی: ویلادزلف مودا (پولینڈ)
فٹبال کے کھیل کے قوانین میں تبدیلیاں رونما ہوتی جارہی تھیں اور ساتھ ہی نئے قوانین بھی متعارف کرائے جارہے تھے، ان قوانین کو ہر گزرتے ورلڈ کپ کے ساتھ ایونٹ میں لاگو بھی کیا جا رہا تھا۔
فٹبال ورلڈ کپ 1978 کی میزبانی کے لیے اب جنوبی امریکا تیار تھا جہاں کولمبیا اور ارجنٹائن کے ساتھ شمالی امریکی ملک میکسیکو بھی امیدواروں کی فہرست میں شامل تھا۔ 1970 کی میزبانی حاصل کرنے میں کامیاب ہونے کے بعد میکسیکو 1978 کی میزبانی سے دستبردار ہوگیا، جبکہ کولمبیا کے بھی میزبانی کی دوڑ سے دستبرداری کے اعلان کے بعد متفقہ طور پر ارجنٹائن کو میزبانی کا اعزاز حاصل ہوا۔
ورلڈ کپ کے آغاز سے قبل ہی اس ایونٹ کا لوگو (Logo) ارجنٹائن میں ہی ایک متنازع حیثیت اختیار کرگیا جہاں ورلڈ کپ کے آغاز سے 2 سال قبل ملک میں آنے والی فوجی حکومت بغاوت کے بعد قائم ہونے والی فوجی حکومت نے ورلڈ کپ کے لوگو کو ختم کرنے یا پھر تبدیل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
فٹبال ورلڈ کپ 1978 کا لوگو ارجنٹائن کے عظیم لیڈر جون پیرون کے سلامی دینے کے انداز کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بنایا گیا تھا، تاہم فوج نے جون پیرون کے انتقال کے بعد ملک کا اقتدار سنبھالنے والی ان کی اہلیہ کا ہی تختہ الٹا تھا۔
یہ ٹورنامنٹ جون 1978 میں ارجنٹائن کے 5 شہروں میں کھیلا گیا جس میں 16 ٹیموں نے شرکت کی۔ ان میں دفاعی چیمپیئن مغربی جرمنی، میزبان ٹیم ارجنٹائن کے علاوہ میکسیکو برازیل، پیرو، آسٹریا، فرانس، ہنگری، اٹلی، ہالینڈ، پولینڈ، اسکاٹ لینڈ، اسپین، سوئیڈن، ایران اور تیونس کی ٹیمیں شامل تھیں۔
گزشتہ ورلڈ کپ کی طرح یہ ٹورنامنٹ بھی ڈبل راؤنڈ رابن، اور پھر ناک آؤٹ بنیاد پر کھیلا گیا، جس میں ابتدائی مرحلے میں 4، 4 کے چار گرپس میں ٹیموں کو تقسیم کیا گیا، اور ان گروپ کی ہر پہلی اور دوسرے نمبر کی ٹیم کو علیحدہ علیحدہ مزید دو گروپ، ایک اے اور ایک بی میں تقسیم کیا گیا۔
گروپ اے میں ہالینڈ، اٹلی، مغربی جرمنی اور آسٹریا پہنچیں، جبکہ گروپ بی کے لیے ارجنٹائن، برازیل، پولینڈ اور پیرو شامل تھیں۔
گزشتہ ورلڈ کپ کی طرح اس ٹورنامنٹ میں بھی گروپ اے اور گروپ بی میں سے ایک ایک ٹاپ ٹیم بالترتیب ہالینڈ اور ارجنٹائن نے فائنل کے لیے کولیفائی کیا جبکہ گروپ اے اور بی میں دوسرے نمبر رہنے والی ٹیموں بالترتیب اٹلی اور برازیل نے تیسرے اور چوتھے نمبر کے لیے میچ کھیلا، جس میں برازیل نے 2-1 سے اٹلی کو زیر کیا۔
ورلڈ کپ 1978 کا فائنل میزبان ارجنٹائن اور ہالینڈ کے درمیان بیونس آئرس میں ہوا، جہاں گزشتہ ورلڈ کپ کی طرح اعصاب شکن مقابلہ دیکھنے میں آیا۔ میزبان ٹیم نے ابتدا میچ کے 38ویں منٹ میں برتری حاصل کرلی تھی، لیکن ہالینڈ نے بھی ہمت نہیں ہاری اور میچ کے آخری لمحات میں 82ویں منٹ میں گول اسکور کرکے مقابلہ 1-1 سے برابر کردیا۔
اب میچ کا فیصلہ اضافی وقت میں ہونا تھا جس کے لیے دونوں ٹیمیں تیار تھیں، تاہم ارجنٹائن نے اضافی وقت میں یکے بعد دیگرے 2 گول اسکور کرکے 1-3 سے فتح سمیٹی، جس کے ساتھ اس نے فٹبال کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ورلڈ چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کیا، جبکہ ہالینڈ کی ٹیم مسلسل دوسری مرتبہ ورلڈ کپ کا فائنل ہارنے والی دنیا کی پہلی ٹیم بن گئی۔
یہ آخری ورلڈ کپ تھا جس میں 16 ٹیموں نے کولیفائی کیا تھا، کیونکہ اس کے بعد کے ایونٹ میں فیفا نے ورلڈ کپ میں ٹیموں کی تعداد کو 16 سے بڑھا کر 24 کردیا تھا۔
ورلڈ کپ کے دوران کُل 105 گول اسکور ہوئے جن میں سب سے زیادہ گول ارجنٹائن کے لیے ماریو کیمپس نے اسکور کیے جن کی تعداد 6 تھی۔
اس ایونٹ کو ایک متنازع میچ کی وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے جو دوسرے راؤنڈ کے گروپ بی میں پیرو اور ارجنٹائن کے مابین کھیلا گیا تھا، کیونکہ ارجنٹائن اور برازیل کا گروپ میچ 0-0 سے برابر رہا تھا، اور اب میزبان ٹیم کو فائنل میں پہنچنے کے لیے پیرو کے ساتھ میچ میں 4 گول کے مارجن سے فتح حاصل کرنے تھی۔
ارجنٹائن اور پیرو کے درمیان میچ میں پیرو نے ابتدا میں ارجنٹائن کے گول پوسٹ پر حملے کیے لیکن کامیاب نہیں ہوسکے، تاہم ارجنٹائن نے پہلے ہاف کے اختتام تک 0-2 کی برتری حاصل کرلی تھی۔ دوسرے ہاف کے آغاز میں ہی مزید دو گول اسکور کرکے اپنی برتری کو 0-4 کردیا تھا جس کی ارجنٹائن کو ضرورت تھی، تاہم خیال کیا جاتا ہے پیرو نے میچ کے دوسرے ہاف میں اپنے گول کرنے کے مواقع ضائع کیے، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ارجنٹائن نے مزید 2 گول اسکور کرکے پیرو کو 0-6 سے شکست دے دی تھی۔
اس حوالے سے تاریخ دان لکھتے ہیں کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ارجنٹائن فائنل میں پہنچے بیونس آئرس کے آمر نے میچ میں مداخلت کی تھی، جبکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ارجنٹائن نے ایک ڈیل کے تحت پیرو کے شہریوں کے بینک اکاؤنٹس بحال کر دیے تھے اور انہیں اناج کی ایک بہت بڑی کھیپ بھیجی تھی۔ ایک وجہ کولمبیا کے ایک ڈرگ ڈیلر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ پیرو کے کھلاڑیوں نے رشوت وصول کرلی تھی۔ اس کے علاوہ پیرو کے ایک بائیں بازو کے سیاست دان نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ ارجنٹائن میں موجود 13 مفرور مجرموں کی واپسی کے لیے لیما نے بیونس آئرس سے ڈیل کی تھی۔ تاہم یہ الزامات صرف اخبارات، ٹی وی چینلز اور تاریخ کی کتابوں کا حصہ بن گئے لیکن ان کے بارے میں آج تک کبھی بھی ثبوت سامنے نہیں آسکے۔
گولڈن بوٹ: ماریو کیمپس (ارجنٹائن)
بہترین نوجوان کھلاڑی: انٹونیو کابرینی (اٹلی)
گزشتہ تمام ورلڈ کپ میں ٹیموں کی تعداد 16 ہوا کرتی تھی تاہم فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا نے ورلڈ کپ میں ٹیموں کی تعداد کو بڑھانے کا فیصلہ کیا تاکہ زیادہ سے زیادہ مملک کو ایونٹ میں شامل ہونے کا موقع ملے اور اسی فیصلے کے پیشِ نظر ورلڈ کپ میں شرکت کرنے والی ٹیموں کی تعداد کو 24 کردیا گیا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب تعداد کو باضابطہ طور پر بڑھایا گیا۔
ورلڈکپ 1982 کی میزبانی کے لیے اسپین، جرمنی اور اٹلی مضبوط امید وار تھے، تاہم جب اٹلی نے میزبانی کی دوڑ سے دستبرداری کا اعلان کیا تو مقابلہ مغربی جرمنی اور اسپین کے درمیان تھا، تاہم اسپین کی جانب سے مغربی جرمنی کے لیے 1974 کے ورلڈ کپ کی میزبانی کی دوڑ سے دستبرار ہونے کی صورت میں مغربی جرمنی نے 1982 ورلڈ کپ کی دوڑ سے دستبرداری کا اعلان کیا اور یوں ہسپانوی سرزمین ایونٹ کی میزبانی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔
یہ ٹورنامنٹ جون اور جولائی 1982 کو اسپین کے 14 شہروں کے 17 اسٹیڈیمز میں کھیلا گیا جو کسی بھی عالمی کپ میں کسی ایک ملک میں سب سے زیادہ مقامات کا استعمال ہونے کا ریکارڈ ہے، اس سے قبل یا بعد میں کبھی بھی ایک ملک میں اتنے اسٹیڈیمز میں میچز نہیں کھیلے گئے۔
فیفا کی جانب سے ورلڈ کپ میں ٹیموں کی تعداد کو بڑھانے کے فیصلے کے بعد اب 1982 ورلڈ کپ میں 6 کنفیڈریشنز کی 24 ٹیموں نے شرکت کی۔ جس میں پہلی مرتبہ ورلڈ کپ کھیلنے والی نیوزی لینڈ، کویت، ہنڈیورس، الجزائر اور کیمرون کی ٹیم شامل تھیں۔
ورلڈ کپ میں اسپین (میزبان)، ارجنٹائن (دفاعی چیمیئن)، ایل سلواڈور، برازیل، نیوزی لینڈ، چلی، کویت، پیرو، ہنڈیورس، الجزائر آسٹریا، بیلجیئم، چیک سلواکیہ، انگلینڈ، فرانس، ہنگری، اٹلی، شمالی آئرلینڈ، پولینڈ، اسکاٹ لینڈ، سویت یونین، مغربی جرمنی، یوگوسلاویہ اور کیمرون شامل تھیں۔
یہ ٹورنامنٹ ڈبل راؤنڈ رابن کی بنیاد پر کھیلا گیا جس میں ٹیموں کی تعداد بڑھ جانے کی وجہ سے فارمیٹ میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں۔ ابتدائی طور پر ان ٹیموں کو 4، 4 کے 6 گروپس میں تقسیم کیا گیا، جس کے بعد ان گروپس میں پہلے اور دوسرے نمبر پر رہنے والی ٹیم کو 3، 3 کے 4 گروپس میں تقسیم کیا گیا۔ اس طرح پہلے مرحلے کی 12 ٹیموں کو ناک آؤٹ مرحلے کے بجائے دوسرے مرحلے میں بھی راؤنڈ رابن میں ایک دوسر سے مقابلہ کرنا تھا۔
پہلے مرحلے کے گروپ 1 تا 6 تھے جبکہ دوسرے راؤنڈ میں ان کا نام اے، بی، سی اور ڈی رکھا گیا تھا۔ پہلے تمام گروپس کی پہلے نمبر کی ٹیم کو گروپ اے اور بی میں شامل کیا گیا جبکہ دوسرے نمبر پر آنے والی ٹیموں کو دوسر مرحلے میں گروپ سی اور ڈی میں شامل کیا گیا۔
گروپ 1 اور 3 کی فاتح ٹیم کو گروپ اے میں ڈالا گیا اور ان ہی گروپ کی دوسرے نمبر پر رہنے والی ٹیم کو گروپ سی میں ڈالا گیا۔ اسی طرح گروپ 2 اور 4 کی فاتح ٹیم کو گروپ بی میں رکھا گیا جبکہ انہی گروپ کی دوسرے نمبر کی ٹیم کو گروپ ڈی میں رکھا گیا۔
گروپ 5 کی فاتح ٹیم کو گروپ ڈی میں اور اس گروپ کی رنر اپ ٹیم کو گروپ بی میں رکھا گیا۔ اسی طرح گرپ 6 کی فاتح ٹیم کو گروپ سی اور دوسرے نمبر پر رہنے والی ٹیم کو گروپ اے میں رکھا گیا۔
مذکورہ ٹیموں کو دوسرے مرحلے میں اس طرح تقسیم کیا گیا تھا پہلے راؤنڈ میں مقابلہ کرنے والی ٹیمیں ایک دوسرے کے سامنے دوبارہ سیمی فائنل میں آجائیں تاکہ وہ ایک دوسرے کے سامنے فائنل میں مدِ مقابل نہ آسکیں۔
دونوں مراحل سے گزر کر ناک آؤٹ مرحلے میں پہنچنے والی ٹیموں میں پولینڈ اور اٹلی پہلے سیمی فائنل میں ایک دوسرے کے مدِ مقابل تھیں جس میں اٹلی کی ٹیم 0-2 سے کامیاب ہوئی جبکہ دوسرے سیمی فائنل مغربی جرمنی اور فرانس کا مقابلہ ہوا۔
فرانس اور مغربی جرمنی کے درمیان ہونے والا یہ مقابلہ ایک تاریخی میچ تھا جس میں فٹبال ورلڈ کپ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ میچ کا فیصلہ پنالٹی شوٹ آؤٹ پر ہوا۔ 1982 ورلڈ کپ کا دوسرا سیمی فائنل 3-3 گول سے برابر رہا اور اس کا فیصلہ پنالٹی شوٹ آؤٹ پر ہوا جس میں مغربی جرمنی نے 4-5 سے کامیابی حاصل کی۔
تیسری پوزیشن کے لیے کھیلے گئے میچ میں پولینڈ نے فرانس کو 3-2 سے شکست دے دی تھی۔
ورلڈ کپ 1982 کا فائنل مقابلہ مغربی جرمنی اور اٹلی کے درمیان میڈریڈ میں ہوا۔ پہلے ہاف کے اختتام تک مقابلہ بغیر کسی گول کے برابر رہا ، تاہم دوسے ہاف میں میچ کی صورت یکسر تبدیل ہوگئی اور اطالوی ٹیم نے جارحانہ کھیل کا مظاہرہ کرت ہوئے 81ویں منٹ تک وقفے وقفے سے 3 گول داغ دیے۔
ادھر مغربی جرمنی بھی 83ویں منٹ میں گول اسکور کرنے میں کامیاب ہوئی تاہم مقابلہ 1-3 سے اٹلی کے نام رہا اور اس کے ساتھ ہی اٹلی تیسرے مرتبہ فٹبال کا عالمی چیمپیئن بن گیا تھا۔
ٹورنامنٹ میں 52 میچز کھیلے گئے جس میں 146 گول اسکور ہوئے، تام ان کی اوسط 2.81 فیصد رہی۔ ایونٹ میں سب سے زیادہ گول اٹلی کے پاؤلو روسی نے اسکور کیے جن کی تعداد 6 تھی۔
اس ٹورنامنٹ کو بھی کچھ ریکارڈز اور منفرد مقابلوں کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا۔ اس ٹورنامنٹ میں اٹلی کی ٹیم نے پہلے راؤنڈ میں 3 میچ کھیلے اور ان میں سے انہیں ایک میں بھی فتح نہیں ملی، تاہم تینوں مقابلے برابر ہونے اور کیمرون سے ایک گول بہتر ہونے کی وجہ سے اٹلی کی ٹیم اگلے راؤنڈ کے لیے کولیفائی کر گئی۔
اس ورلڈ کپ میں تمام کنفیڈریشن کی کی ٹیموں نے شرکت کی جو 2006 کے ورلڈکپ تک ایک ہی مرتبہ ہوا تھا۔ اٹلی کے کپتان اور گول کیپر ڈینو زوف نے 40 سال کی عمر میں فائنل جیتنے کا اعزاز حاصل کرنے والے عمر رسیدہ کھلاڑی قرار پائے، جو اب تک کا ایک ریکارڈ ہے۔
ورلڈ کپ 1982 میں بھی ایک متنازع میچ ہوا جو پہلے مرحلے کے گروپ اسٹیج کا تھا، یہ میچ مغربی جرمنی اور آسٹریا کے مابین کھیلا گیا تھا۔ اپنا پہلا ورلڈ کپ کھیلنے والی ٹیم الجزائر، کو اگلے مرحلے میں پہنچنے کے لیے میچ کے ڈرا ہونے یا پھر آسٹریا کی فتح درکار تھی، جبکہ مغربی جرمنی کو الگے مرحلے میں پہنچنے کے لیے جیت درکار تھی، تاہم اگر مغربی جرمنی بڑے مارجن سے فاتح ہوتا تو الجزائر اگلے مرحلے کے لیے کولیفائی کر جاتی، اور اگر مارجن کم ہوتا تو جرمنی کے ساتھ آسٹریا کی ٹیم بھی اگلے مرحلے کے لیے کولیفائی کرجاتی۔ میچ کے ابتدا میں ہی مغربی جرمنی نے گول اسکور کرکے 0-1 کی برتری حاصل کر لی تھی، تاہم اس کے بعد جرمن ٹیم اور آسٹرین ٹیم نے مبینہ طور پر گول اسکور کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
میچ کی صورتحال کے پیشِ نظر گراؤنڈ میں موجود شائقین نے 'آؤٹ، آؤٹ' کے نعرے بلند کیے، جبکہ الجزائر کے شائقین نے کھلاڑیوں پر احتججاً بینک نوٹس پھینکنے شروع کردیے۔ اس کے علاوہ اس میچ میں منفی کھیل پیش کرنے کی وجہ سے دونوں ممالک کے شائقین کی جانب سے بھی اپنی اپنی ٹیموں کو جانبدار کھیل پیش کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا اور ایک جرمن شائق نے اپنی ٹیم کا جھنڈا بھی نظرِ آتش کردیا تھا۔
یاد رہے کہ گروپ کے ابتدائی میچ میں الجزائر نے مغربی جرمنی کو شکست دے کر ورلڈکپ کی تاریخ ایک بہت بڑا اپ سیٹ کردیا تھا۔
گولڈن شو: پاؤلو روسی (اٹلی)
گولڈن بال: پاؤلو روسی (اٹلی)
بہترین نوجوان کھلاڑی: مانوئل اموروس (فرانس)
اقوامِ متحدہ کی جانب سے سال 1986 کو امن کے سال کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا، جبکہ اس ہی سال فٹبال عالمی میلا منعقد کیا جانا تھا، لہٰذا ٹورنامنٹ کے ایڈورٹائزنگ بورڈز پر فیفا اور اقوامِ متحدہ کے لوگو کے ساتھ ساتھ یہ عبارت درج تھی 'فٹبال برائے امن – سالِ امن'۔ اس کے علاوہ ایک غیر رسمی نقطہ نظر بھی قبول کیا گیا جو 'دنیا ایک گیند کے ذریعے متحد ہوگئی'۔
گزشتہ ورلڈ کپ یورپ میں ہونے کے بعد اب اگلے ورلڈ کپ کا انعقاد جنوبی امریکا میں منعقد ہونا تھا اور اس ایونٹ کی میزبانی کے لیے فیفا کی ایگزیکٹو کمیٹی نے جنوبی امریکی ملک کولمبیا کو ورلڈ کپ 1986 کی میزبانی سونپنے کا فیصلہ کیا۔ کولمبیا نے ورلڈ کپ کی تیاریوں میں اپنا سرمایہ خرچ کردیا تھا، لیکن وہ مالی مسائل کی وجہ سے عالمی میلا منعقد کروانے کا اہل نہیں تھا اسی لیے اس نے 1982 کے ایونٹ کی میزبانی چھوڑنے کا اعلان کیا۔
کولمبیا کے دستبردار ہونے کے بعد فیفا کے پاس ایونٹ کی میزبانی کے لیے کسی ایسے ملک کی تلاش تھی جہاں پہلے بھی ورلڈ کپ منعقد کیا گیا ہو یا پھر وہ مالی اعتبار سے اس ایونٹ کی میزبانی کے تمام تقاصے بھی پورا کرے، لہٰذا ایسی صورت میں فیفا ہنگامی بنیادوں پر ایونٹ کی میزبانی کے لیے بولی کا اعلان کیا۔
فیفا کے اس اعلان کے بعد شمالی امریکی ممالک کینیڈا، میکسیکو اور امریکا نے اپنی دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے رائے شماری کا حصہ بن گئے، فیفا کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں امریکا اور کینیڈا کو ووٹ حاصل نہیں ہوئے تاہم میکسیکو کو متفقہ طور پر ایونٹ کی میزبانی کے لیے منتخب کرلیا گیا۔
ورلڈ کپ کے انعقاد سے ایک سال قبل میکسیکو میں ایک زلزلہ آیا جس کے بعد یہاں بھی ٹورنامنٹ کے انعقاد کا معاملہ خطرے سے دوچار ہونے لگا، تاہم سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ میکسیکو ابھی بھی ورلڈ کپ منعقد کرانے کا اہل تھا۔ اس فیصلے کے ساتھ ہی میکسیکو دوسری مرتبہ ورلڈ کپ کی میزبانی کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا۔
ورلڈ کپ مئی اور جون 1986 میں میکسیکو کے 9 شہروں کے 12 اسٹیڈیمز میں کھیلا گیا تھا۔ اس میں اوشیانو کنفیڈریشن کے علاوہ تمام کنفیڈریشنز کی ٹیموں نے شرکت کی تھی۔
ایونٹ میں میزبان میکسیکو، دفاعی چیمپیئن اٹلی، عراق، جنوبی کوریا، الجزائر، مراکش، کینیڈا، ارجنٹائن، برازیل، یوراگوئے، پیراگوئے، بیلجیئم، بلغاریہ، ڈنمارک، انگلینڈ، فرانس، ہنگری، شمالی آئر لینڈ، پولینڈ، پرتگال، اسکاٹ لینڈ، سویت یونین، اسپین وار مغربی جرمنی شامل ہیں۔
اس ٹورنامنٹ میں پہلے راؤنڈ رابن مرحلہ اور پھر اس کے بعد ناک آؤٹ یا راؤنڈ آف 16 مرحلہ تھا اور اس کے بعد کوارٹر فائنل پھر سیمی فائنل اور پھر فائنل تھا۔ ٹیموں کو 4، 4 کے 6 گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا، جہاں ہر گروپ کی ابتدائی 2 بہترین ٹیموں نے اگلے مرحلے کے کولیفائی کیا جبکہ ایونٹ کے لیے فیفا کے ضابطے کے مطابق تمام 6 گروپس میں سے بہتر گول کے فرق کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہنے والی 6 میں سے 4 ٹیموں نے اگلے مرحلے کے لیے کولیفائی کیا۔
ارجنٹائن، فرانس، مغربی جرمنی اور بیلجیئم نے سیمی فائنل کے لیے کولیفائی کیا اور پہلے سیمی فائنل میں فرانس اور مغربی جرمنی مدِ مقابل تھے جس میں جرمن ٹیم نے 0-2 کامیابی سمیٹی جبکہ دوسرے سیمی فائنل میں ارجنٹائن نے بھی 0-2 سے کامیابی حاصل کی۔
مغربی جرمنی اور ارجنٹائن کے درمیان فائنل میکسیکو سٹی میں کھیلا گیا جہاں ڈیاگو میراڈونا کی ٹیم نے ٹائٹل کی جانب پیش قدم کرتے ہوئے میچ کے 23ویں منٹ میں گول داغ کر اپنی جیت کی بنیاد رکھی۔ 55ویں منٹ میں ارجنٹائن کے ایک اور گول نے حریف ٹیم پر برتری کو 0-2 کردیا۔ تاہم مغربی جرمنی کی ٹیم نے کچھ مزاحمت دکھائی اور 10 منٹ کے وقفے سے 2 گول اسکور کرکے اسکور 2-2 سے برابر کردیا۔ میچ کے 83ویں منٹ میں ارجنٹائن نے تیسرا اور میچ کا فیصلہ کن گول اسکور کرکے میچ اپنے نام کیا اور دوسری مرتبہ ورلڈ چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کیا۔
تیسری پوزیشن کے میچ کے لیے فرانس اور بیلجیئم مدِ مقابل تھے جس میں فرانسیسی ٹیم نے 4-2 سے کامیابی حاصل کی۔
اس ٹورنامنٹ میں سب سے 132 گول اسکور ہوئے اور سب سے زیادہ گول اسکور کرنے والے کھلاڑی انگلینڈ کے گیری لائینکر ہیں جنہوں نے ٹورنامنٹ میں 6 گول اسکور کیے۔
اس ٹورنامنٹ کو فٹبال کی تاریخ کے سب سے دلچسپ اور اپنی نوعیت کے واحد واقع کی وجہ سے بھی یاد رکھا جاتا ہے جس میں دنیائے فٹبال کے عظیم ترین فٹبالرز میں سے ایک ارجنٹائن کے ڈیاگو میراڈونا نے انگلینڈ کے خلاف میچ میں ہاتھ سے گول (ہینڈ آف گاڈ) اسکور کیا اور اسی میچ میں گزشتہ صدی کا سب سے بہترین گول (گول آف دی سینچری) اسکور کیا تھا۔ ہاتھ سے گول اسکور کرنے کے حوالے سے میراڈونا نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ 'گول کرنے میں تھوڑا سا میراڈونا کا سر اور تھوڑا خدا کا ہاتھ شامل تھا'، اسی وجہ سے اس مشہور گول کو ہینڈ آف گاڈ کہا جاتا ہے۔
گولڈن شو: گیری لائینکر (انگلینڈ)
گولڈن بال: ڈیاگو میراڈونا (ارجنٹائن)
بہترین نوجوان کھلاڑی: اینزو اسکیفو (بیلجیئم)
فیفا فیئرپلے ایوارڈ: برازیل
تقریباً دنیا کی تمام ممالک کی ٹیمیں فٹبال کے کھیل میں اپنی بین الاقوامی ٹیمیں رکھتی تھیں اور جبکہ 1990 کے عالمی میلے کی کولیفکیشن کے لیے بھی تقریباً 100 سے زائد ٹیموں کے درمیان مقابلہ ہوا۔
ورلڈ کپ 1990 کی میزبانی کے لیے یورپ کی 9 ٹیموں نے دلچسپی کا اظہار کیا جن میں یورپ سے آسٹریا، فرانس، انگلینڈ، یونان، مغربی جرمنی، یوگوسلاویہ، سویت یونین اور اٹلی جبکہ ایشیا سے ایران نے اپنی دلچسپی کا اظہار کیا۔
آسٹریا، فرانس، انگلینڈ، یونان، مغربی جرمنی، یوگوسلاویہ اور ایران نے ایونٹ کی میزبانی سے دستبرداری کا اعلان کیا جس سے واضح تھا کہ ایونٹ کی میزبانی سویت یونین یا اٹلی کی صورت میں یورپ کے پاس ہی جانی تھی۔ تاہم ووٹنگ کے دوران اٹلی کو 11 جبکہ سویت یونین کو 5 ووٹ ملے اور اس کے ساتھ ہی میکسیکو کے بعد اٹلی 2 مرتبہ فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کرنے والا دوسرا ملک بن گیا۔
ورلڈ کپ جون اور جولائی 1990 میں اٹلی کے 12 شہروں میں کھیلا گیا جس میں دنیا کی 5 کنفیڈریشنز میں سے 24 ممالک نے حصہ لیا۔ ان ٹیموں میں اٹلی (میزبان)، ارجنٹائن (دفاعی چیمپیئن)، ایشیا سے جنوبی کوریا اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای)، افریقہ سے مصر اور کیمرون، شمالی اور وسطی امریکا سے کوسٹاریکا اور یو ایس اے، جنوبی امریکا سے برازیل، کولمبیا اور یوراگوئے جبکہ یورپ سے آسٹریا، بیلجیئم، چیک سلواکیہ، انگلینڈ، ہالینڈ، جمہوریہ آئرلینڈ، رومانیہ، اسکاٹ لینڈ، سویت یونین، اسپین، سوئیڈن، مغربی جرمنی اور یوگوسلاویہ شامل تھیں۔
اس ورلڈ کپ کا فارمیٹ 1986 کے ورلڈ کپ جیسا تھا، جہاں پہلے راؤنڈ رابن مرحلہ اور پھر اس کے بعد ناک آؤٹ یا راؤنڈ آف 16 مرحلہ تھا۔ ٹیموں کو 4، 4 کے 6 گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا، جہاں ہر گروپ کی ابتدائی 2 بہترین ٹیموں نے اگلے مرحلے کے کولیفائی کیا جبکہ ایونٹ کے لیے فیفا کے ضابطے کے مطابق تمام 6 گروپس میں سے بہتر گول کے فرق کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہنے والی 6 میں سے 4 ٹیموں نے اگلے مرحلے کے لیے کولیفائی کیا۔
اس ٹورنامنٹ کو گول اسکور کرنے کے حوالے سے فٹبال کی تاریخ کا غریب ترین ٹورنامنٹ کہا جاتا ہے کیونکہ اس ایونٹ میں 2.21 کی اوسط سے 52 میچز میں 115 گول اسکور ہوئے جبکہ ریڈ کارڈ کے ذریعے کُل 16 کھلاڑیوں کو ٹورنامنٹ کے دوران میچ سے باہر کیا گیا جو اس وقت تک کا ایک ریکارڈ تھا۔
کھیل کو مثبت بنانے اور کسی بھی منفی رجحان سے بچانے کے لیے پہلی مرتبہ 'فئیرپلے فلیگ' متعارف کرایا گیا۔ تاہم اس ٹورنامنٹ میں ٹیموں کی دفاعی حکمتِ عملی کی وجہ سے گول اوسط کم رہی اور اس کی سب سے بڑی وجہ آئرلینڈ اور ارجنٹائن کی ٹیمیں تھیں جنہوں نے دفاعی حکمتِ علی کے تحت کم سے کم گول اسکور کرسکے۔ ارجنٹائن نے سب سے کم گول اسکور کرکے فائنل کھیلنے والی ٹیم ہونے کا اعزاز حاصل کیا، ان کے گول کی تعداد 5 تھی۔
اس ٹورنامنٹ کے دوران 8 میچز ایسے تھے جن کا فیصلہ اضافی وقت میں ہوا جبکہ 4 میچوں کے فیصلے پنالٹی شوٹ آؤٹ پر ہوئے جو ایک ریکارڈ تھا۔ ایونٹ میں پہلی مرتبہ شرکت کرنے والی افریقی ٹیم کیمرون نے دنیا کو اس وقت حیران کردیا جب انہوں نے دفاعی چیمپیئن ارجنٹائن کو پہلے ہی میچ میں شکست دی تھی اور رومانیہ اور سویت یونین جیسی مضبوط ٹیمیں گروپ میں ہونے کے باوجود گروپ کی فاتح ٹیم بننے میں کامیاب ہوئی۔ کیمرون نے راؤنڈ آف 16 میں کولمبیا کو شکست دے کر کوارٹر فائنل کے لیے کولیفائی کیا تھا جہاں اسے سنسنی خیز مقابلے کے بعد انگلینڈ سے شکست ہوئی تھی۔
کولمبیا کے بعد افریقی ٹیم سینیگال (2002) اور گھانا (2010) نے بھی کوارٹر فائنل کے لیے کولیفائی کیا۔ تاہم کیمرون کی اس بہترین کارکدگی کی بدولت فیفا نے اگلے ورلڈ کپ میں کم از کم ایک افریقی ملک کے لیے جگہ مختص کرنے کا فیصلہ کیا۔
ارجنٹائن اور اٹلی پہلے سیمی فائنل میں مغربی جرمنی اور انگلینڈ دوسرے سیمی فائنل میں ایک دوسرے کے مدِ مقابل تھے اور دونوں ہی میچ 1-1 سے برابر رہے اور ان کا فیصلہ پنالٹی شوٹ آؤٹ پر ہوا جہاں ارجنٹائن اور مغربی جرمنی نے 3-4 سے کامیابی حاصل کرکے فائنل میں جگہ بنائی۔ تاہم تیسری پوزیشن کے لیے کھیلے گئے میچ میں میزبان اٹلی نے انگلینڈ کو 2-1 سے شکست دی تھی۔
ایونٹ کا فائنل مقابلہ اٹلی کے دارالحکومت روم میں کھیلا گیا، میچ انتہائی دلچسپ رہا کیونکہ اس مقابلے میں کوئی بھی ٹیم میچ کے آخری لمحات تک اسکور کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی تھی۔ میچ کے 65ویں منٹ میں ارجنٹائن کے کھلاڑی کو ریڈ کارڈ کے ذریعے بار بھیج دیا گیا تھا۔ اس میچ کا واحد گول 85ویں منٹ میں اسکور ہوا جب ریفری نے پنالٹی ایریا میں فاؤل کرنے پر جرمن ٹیم کو پنالٹی دے دی تھی جس کا اندریاس بریہیم نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اپنی ٹیم کو تیسری مرتبہ عالمی چیمپیئن بنادیا۔
ارجنٹائن کی ٹیم فائن مقابلے میں اپنے ٹائٹل کا دفاع کرنے میں ناکام ہونے والی پہلی ٹیم بن گئی جبکہ مغربی جرمنی کی ٹیم مسلسل 3 مرتبہ فائنل کھیلنے والی پہلی ٹیم بن گئی جہاں اسے 1982 کے ورلڈ کپ میں اٹلی اور 1986 کے ورلڈ کپ میں ارجنٹائن سے ہی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ ارجنٹائن اور مغربی جرمنی مسلسل دوسری مرتبہ فائنل میں ایک دوسرے کے مدِ مقابل تھے۔
ورلڈ کپ میں سب سے 115 گول اسکور ہوئے تاہم افرادی طور پر سب سے زیادہ گول اسکور کرنے کا اعزاز اٹلی کے سالواتوره اسکیلاچی کا ہے جنہوں نے ٹورنامنٹ میں 6 گول کیے۔
گزشتہ ورلڈ کپ یورپ میں منعقد ہوا تھا جس کے بعد اس کی میزبانی کے فرائض شمالی یا جنوبی امریکی ممالک میں سے کسی ایک نے کرنی تھی، تاہم فیفا ورلڈ کپ 1994 کے لیے جنوبی امریکا سے چلی اور برازیل جبکہ شمالی امریکا سے یو ایس اے نے اپنی دلچسپی کا اظہار کیا لیکن ان کے ساتھ ساتھ افریقی ملک مراکش نے بھی اپنی دلچسپی کا اظہار کیا اور ایونٹ کی میزبانی کے لیے امیدوار کے طور پر سامنے آیا۔
چلی کی دستبرداری کے بعد یو ایس اے، برازیل اور مراکش کے درمیان مقابلہ تھا جہاں یو ایس اے کو ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں 10 ووٹ ملے اور اس کے ساتھ ہی تاریخ میں پہلی مرتبہ یو ایس اے کو 1994 ورلڈ کپ کی میزبانی کے لیے منتخب کرلیا گیا۔ امریکا میں ہونے والے یہ ورلڈ کپ تاریخ کے سب سے منافع بخش ٹورنامنٹ تھا۔
یہ ٹورنامنٹ 1994 میں جون اور جولائی میں 9 امریکی شہروں میں کھیلا گیا جس میں 5 کنفیڈریشنز میں سے 24 ٹیموں نے شرکت کی تھی، جبکہ گزشتہ ورلڈ کپ میں کیمرون کی شاندار کارکردگی کی وجہ سے افریقہ سے پہلی مرتبہ 3 ٹیموں کو ورلڈ کپ میں شامل کیا گیا۔ اس کے علاوہ سویت یونین نے بھی ورلڈ کپ کے لیے کولیفائی کر لیا تھا، تاہم اس نے ٹورنامنٹ میں روس کی حیثیت سے شرکت کی تھی۔
مغربی اور شمالی جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے بعد مغربی جرمنی کی ٹیم 'جرمنی' کے نام سے ایونٹ میں شامل ہوئی۔ علاوہ ازیں 1938 کے ورلڈ کپ کے بعد سے یہ پہلا موقع تھا جب برطانیہ سے کوئی بھی ٹیم (اسکاٹ لینڈ، انگلینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ) ورلڈ کپ کے لیے کولیفائی نہیں کرپائی تھی۔ جبکہ دفاعی چیمپیئن ٹیم کو بھی ایونٹ میں شرکت کے لیے کولیفائی راؤنڈ میں حصہ لینا تھا۔
ٹورنامنٹ کے لیے یو ایس اے (میزبان) کے علاوہ ایشیا سے سعودی عرب، جنوبی کوریا، افریقا سے کیمرون، مراکش اور نائیجیریا، شمالی امریکا سے میکسیکو، جنوبی امریکا سے ارجنٹائن، برازیل، بولیویا اور کولمبیا جبکہ یورپ سے جرمنی، بیلجیئم، بلغاریہ، یونان، اٹلی، ہالینڈ، ناروے، جمہوریہ آئرلینڈ، رومانیہ، روس، اسپین، سوئیڈن اور سوئیٹزرلینڈ نے کولیفائی کیا۔
اس ورلڈ کپ کا فارمیٹ 1986 اور 1990 کے ورلڈ کپ جیسا تھا، جہاں پہلے راؤنڈ رابن مرحلہ اور پھر اس کے بعد ناک آؤٹ یا راؤنڈ آف 16 مرحلہ تھا۔ ٹیموں کو 4، 4 کے 6 گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا، جہاں ہر گروپ کی ابتدائی 2 بہترین ٹیموں نے اگلے مرحلے کے کولیفائی کیا جبکہ ایونٹ کے لیے فیفا کے ضابطے کے مطابق تمام 6 گروپس میں سے بہتر گول کے فرق کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہنے والی 6 میں سے 4 ٹیموں نے اگلے مرحلے کے لیے کولیفائی کیا۔ خیال رہے کہ یہ آخری ٹورنامنٹ تھا جس میں 24 ٹیموں نے کولیفائی کیا تھا کیونکہ فیفا نے ورلڈ کپ میں ٹیموں کی تعداد کو بڑھا کر 32 کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
پورے ٹورنامنٹ میں 141 گول اسکور ہوئے جس میں سب سے زیادہ گول بلغاریہ کے ہرسٹو اسٹوئیکو اور روس کے اولیگ سالینکو نے کیے جن کی تعداد 6 تھی۔ اولیگ سالینکو کے پاس ایک ہی میچ میں 5 گول اسکور کرنے کا منفرد ریکارڈ بھی ہے جو انہوں نے گروپ اسٹیج میں کیمرون کے خلاف میچ میں بنایا تھا۔
گزشتہ ورلڈ کپ میں ٹیموں کی جانب سے دفاعی حکمتِ عملی کو اپنا کر وقت کو ضائع کرنے کی تکنیک کی وجہ سے ٹورنامنٹ کی تاریخ میں گول اوسط سب کم رہی۔ فیفا نے 1994 میں ہونے والے ورلڈ کپ سے قبل 'بیک پاس' کا ضابطہ متعارف کرایا تھا، جس کے مطابق کسی ٹیم کا کھلاڑی اگر اپنے ہی گول کیپر کو واپس پاس دے گا تو اس صورت میں گول کیپر کو اپنی ٹانگ کی ہی مدد سے گیند کو واپس کھلاڑی کو دینا ہوگا، تاہم اگر گول کیپر نے پنالٹی ایریا میں بیک پاس کو ہاتھ سے روکا یا پکڑا تو اس صورت میں حریف ٹیم کو پنالٹی دے دی جائے گی۔
برازیل نے اپنی جیت اپنے ملک سے تعلق رکھنے والے فارمولا ون ڈرائیور اور عالمی چیمپیئن ایئرٹن سینا کے نام کر دی تھی جو حال ہی میں ریس کے دوران حادثے کا شکار ہوکر ہلاک ہوگئے تھے۔
1994 کا ٹورنامنٹ ارجنٹائن کے عظیم فٹبالر ڈیاگو میراڈونا کا آخری ورلڈ کپ تھا، انہوں نے ایونٹ کے ابتدائی 2 میچز میں حصہ لیا تاہم ان کا ممنوعہ ادویات کا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد انہیں ٹورنامنٹ سے باہر کردیا گیا، اور یوں میراڈونا کے عظیم کیریئر کا بھی اختتام ہوگیا۔
ٹورنامنٹ کے پہلے سیمی فائنل میں سوئیڈن اور برازیل مدِ مقابل تھے جہاں برازیل نے 0-1 سے کامیابی حاصل کی جبکہ دوسرا سیمی فائنل اٹلی اور بلغاریہ کے درمیان ہوا جس میں بلغاریہ کی ٹیم کو اٹلی کے ہاتھوں 1-2 سے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔
تیسری پوزیشن کے لیے سوئیڈن اور بلغاریہ کا مقابلہ تھا جس میں سوئیڈش ٹیم نے بلغاریہ کو 4-0 سے شکست دے دی تھی۔
فائنل میچ برازیل اور اٹلی کے مابین پساڈینا میں کھیلا گیا جو مقررہ وقت اور پھر اضافی وقت میں بھی بغیر کسی گول کے برابر رہا۔ تاہم تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی فائنل مقابلے کا فیصلہ پنالٹی شوٹ آؤٹ پر کیا گیا جس میں برازیل اس اعصاب شکن پنالٹی شوٹ آؤٹ کو 2-3 سے جیت کر چوتھی مرتبہ فٹبال کا عالمی چیمپیئن بن گیا تھا۔
اس ٹورنامنٹ میں کولمبیا کے آندرس اسکوبار سے اون گول (اپنے گول پوسٹ میں گیند پہنچا کر حریف ٹیم کا گول کردینا) ہوگیا تھا، تاہم اس ایونٹ کے بعد انہیں نامعلوم افراد نے کولمبیا میں ہی قتل کردیا گیا تھا۔
فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا نے اب ورلڈ کپ کے لیے ٹیموں کی تعداد کو 24 سے بڑھا کر 32 کردیا تھا، جس کی وجہ سے زیادہ ٹیموں کو کولیفائینگ راؤنڈ کے ذریعے ایونٹ میں شرکت کا موقع ملا اور اسی کے پیش نظر دنیا کے 174 ممالک کی ٹیموں نے کولیفائیگ میچوں میں شرکت کی۔
گزشتہ ایونٹ برِاعظم امریکا میں ہوا جس کی وجہ سے اب ورلڈ کپ 1998 یورپ میں منعقد ہونا تھا، اس کے لیے یورپ سے انگلینڈ، فرانس، اور سوئیٹزرلینڈ جبکہ افریقہ سے مراکش بھی میزبانی کی دوڑ میں شامل ہوگئے۔ ووٹنگ سے قبل انگلینڈ نے 1996 میں یورو کپ کی میزبانی حاصل کرنے کی وجہ سے دستبرداری کا اعلان کیا جبکہ سوئیٹزرلینڈ فیفا کے ضوابط پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے دستبرداری کا اعلان کیا تاہم مراکش اور فرانس کے درمیان میزبانی حاصل کرنے کا مقابلہ تھا جس میں فرانس 12 ووٹ لے کر دوسری مرتبہ ایونٹ کی میزبانی کا اعزاز حاصل کیا۔
چنک بلیزر نے ایف بی آئی اور سوئز حکام کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ انہیں اور فیفا ایگزیکٹو کمیٹی کے دیگر ممبران کو 1998 اور 2010 کے ورلڈ کپ کی میزبانی حاصل کرنے کے لیے بھاری رشوت دی گئی تھی۔
ورلڈ کپ 1998 جون اور جولائی میں فرانس کے 10 شہروں میں کھیلا گیا جس میں دنیا کی 5 کنفیڈریشنز کی 32 ٹیموں نے شرکت کی اور ٹورنامنٹ میں کُل 64 میچز کھیلے گئے۔
ٹیموں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ فرانس (میزبان) اور برازیل (دفاعی چیمپیئن) کے علاوہ ایشیا سے ایران، جاپان، جنوبی کوریا اور سعودی عرب، افریقہ سے کیمرون، جنوبی افریقہ، نائیجیریا، تیونس اور مراکش، جنوبی امریکا سے ارجنٹائن، چلی، کولمبیا اور پیراگوئے، شمالی و وسطی امریکا سے جمیکا، میکسیکو اور امریکا جبکہ یورپ سے آسٹریا، بیلجیئم، بلغاریہ، کروشیا، ڈنمارک، انگلینڈ، جرمنی، ہالینڈ، اٹلی، ناروے، رومانیہ، اسکاٹ لینڈ، اسپین اور یوگوسلاویہ نے ورلڈ کپ کے لیے کولیفائی کیا۔
اس ٹورنامنٹ کے دوران نئی ٹینالوجی متعارف کرائی گئی اور متبادل کھلاڑیوں کے اعلان کے لیے کارڈ بورڈ کے بجائے الیکٹرنک بورڈ کا استعمال کیا گیا۔
ورلڈ کپ 1998 میں ٹورنامنٹ کا فارمیٹ تبدیل کردیا گیا پہلے راؤنڈ رابن اور پھر اس کے بعد ناک آؤٹ مرحلہ تھا، یہ فارمیٹ اب تک رائج ہے جہاں ٹیموں کی تعداد میں اضافے کے بعد انہیں 4، 4 کے 8 گروپ میں تقسیم کیا گیا جنہیں اے سے ایچ تک کا نام دیا گیا۔ اپنے گروپ میں سرِ فہرست دو ٹیمیں اگلے راؤنڈ کے لیے کولیفائی کرگئیں اور راؤنڈ آف 16 میں پہنچ گئیں (اس راؤنڈ کو دوسرے معنوں میں پری کوارٹر فائنل بھی کہتے ہیں) جبکہ 2،2 ایونٹ سے باہر ہوگئیں۔ پری کوارٹر فائنل کے بعد کوارٹر فائنل پھر سیمی فائنل اور پھر فائنل تھا۔
ایونٹ کے دوران جنوبی امریکا اور یورپی ٹیمیں مکمل طور غالب رہی اور کوارٹر فائنل میں کسی دوسرے کنفیڈریشن کی ٹیم کولیفائی نہیں کر سکی۔ ایونٹ کا پہلا سیمی فائنل برازیل اور ہالینڈ کے درمیان ہوا جو مقرر وقت تک 1-1 گول سے برابر رہا اور سیمی فائنل کا فیصلہ پنالٹی شوٹ آؤٹ پر ہوا جس میں دفاعی چیمپیئن نے 2-4 سے کامیابی حاصل کی۔ دوسرے سیمی فائنل میں میزبان فرانس اور پہلی مرتبہ ورلڈ کپ میں حصہ لینے والی کروشیا کے درمیان ہوا جس میں کروشیا کو فرانس کے ہاتھوں 1-2 سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
تیسری پوزیشن کے لیے کھیلے گئے میچ میں کروشیا نے ہالینڈ کو 2-1 سے شکست دی تھی۔
ٹورنامنٹ کا فائنل سینیٹ ڈینس میں ہوا جہاں میزبان فرانس پورے کھیل کے دوران چھائی رہی اور اس نے دفاعی چیمپیئن کو جوابی حملہ کرنے کا موقع نہیں دیا اور میچ یکطرفہ مقابلے کے بعد 0-3 سے اپنے نام کیا۔
اب تک فائنل میں کسی بھی ٹیم کا سب سے زیادہ گول کے فرق سے جیت کا ریکارڈ ہے۔ اس کے علاوہ برازیل کو ورلڈ کپ مقابلوں میں گول کے فرق کے اعتبار سے سب سے بڑی شکست تھی، تاہم اس شکست کا ریکارڈ 2014 کے ورلڈ کپ میں مزید بہتر ہوگیا تھا جب سیمی فائنل میں جرمنی نے 7-1 سے برازیل کو شکست دی تھی۔
ورلڈ کپ 1998 میں 171 گول اسکور ہوئے جس میں سب سے زیادہ گول کروشیا کے ڈاور شوکر نے اسکور کیے جن کی تعداد 6 تھی۔
گولڈن شو: ڈاور شوکر (کروشیا)
گولڈن بال: رونالڈو (برازیل)
بہترین نوجوان کھلاڑی: مائیکل اون (انگلینڈ)
یاسشن ایوارڈ: فابین بارتیز (فرانس)
فیفا فیئرپلے ایوارڈ: فرانس اور انگلینڈ
سب سے زیادہ تفریحی ٹیم: فرانس
فیفا کا 17واں ورلڈکپ یورپ کے بعد کسی امریکی ملک میں منعقد ہونا تھا جس کے لیے امیدواروں میں میکسیکو شامل تھا، لیکن اس دوڑ میں جنوبی کوریا اور جاپان بھی شامل تھے۔ بعدِ ازاں میزبانی کی ووٹنگ سے کچھ عرصے جاپان اور جنوبی کوریا نے اعلان کیا تھا کہ وہ اس ٹورنامنٹ کی میزبانی مشترکہ طور پر کریں گے اور ووٹنگ میں حصہ لیں گے۔ ووٹنگ میں میکسیکو کی جگہ جنوبی کوریا اور جاپان کو میزبانی کے لیے چن لیا گیا۔
یہ پہلا اور واحد موقع تھا جب ورلڈ کپ کی میزبانی 2 ممالک نے مشترکہ طور پر کی تھی، تاہم دونوں ممالک کے درمیان زیادہ فاصلے اور مسابقت کی وجہ سے تنظیمی اور سفری مسائل پیدا ہوئے تھے۔ بعدِ ازاں فیفا کا کہنا تھا کہ مذکورہ مسائل کی وجہ سے اب دوبارہ کسی بھی ورلڈ کپ کا انعقاد مشترکہ طور پر 2 یا زائد ممالک میں نہیں ہوگا اور نہ ہی دو یا زائد ممالک مشترکہ طور پر بولی کا حصہ بھی نہیں بنیں گے۔
اس سے قبل جاپان نے کبھی بھی ورلڈکپ کے لیے کولیفائی نہیں کیا تھا، اور ورلڈ کپ کی میزبانی کی وجہ سے جاپان کو کولیفائینگ میچز کھیلے بغیر ہی ورلڈکپ میں شرکت کا موقع مل گیا۔ خیال رہے کہ 2022 کا ورلڈ کپ قطر میں منعقد ہوگا، تاہم اس کی وجہ سے کولیفائنگ راؤنڈ کھیلے بغیر قطر کو ورلڈ کپ میں شرکت کا موقع مل گیا۔
ورلڈ کپ 2002 کے لیے 199 ٹیموں نے کولیفائینگ راؤنڈ میں شرکت کی جس میں سے 30 ٹیموں نے کولیفائی کیا، جہاں جاپان اور جنوبی کوریا نے بطور میزبان ممالک کی حیثیت سے ایونٹ میں کولیفائی کیا۔ دیگر ممالک میں ایشیا سے چین اور سعودی عرب، افریقہ سے کیمرون، نائیجیریا، سینیگال، جنوبی افریقہ اور تیونس، شمالی و وسطی امریکا سے کوسٹا ریکا، میکسیکو اور امریکا، جنوبی امریکا سے ارجنٹائن، برازیل، ایکواڈور، پیراگوئے اور یوراگوئے جبکہ یورپ سے فرانس، بیلجیئم، کروشیا، ڈنمارک، انگلینڈ، جرمنی، اٹلی، پولینڈ، پرتگال، جمہوریہ آئرلینڈ، روس، سلوانیہ، اسپین، سوئیڈن اور ترکی نے کولیفائی کیا۔
یہ ٹورنامنٹ مئی اور جون 2002 میں جاپان اور جنوبی کوریا کے مشترکہ طور پر 20 شہروں میں کھیلا گیا۔ ٹورنامنٹ میں ریفری کی وجہ سے جنوبی کوریا کے اٹلی اور اسپین کے ساتھ میچز کو متنازع ترین میچز میں سے ایک قرار دیا گیا۔ ادھر سابق ہسپانوی فٹبالر نے جنوبی کوریا کے خلاف ہونے والے میچ کو 'اسپین کے حق پر حملہ' سے تشبیہ دیا۔ ان دونوں میچز میں ریفری کے فرائض انجام دینے والے آفیشلز کو بعد میں مجرمانہ کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ورلڈ کپ 2002 کا فارمیٹ 1998 کے ٹورنامنٹ جیسا تھا، جہاں پہلے راؤنڈ رابن اور پھر اس کے بعد ناک آؤٹ مرحلہ تھا، یہ فارمیٹ اب تک رائج ہے جہاں ٹیموں کی تعداد میں اضافے کے بعد انہیں 4، 4 کے 8 گروپ میں تقسیم کیا گیا جنہیں اے سے ایچ تک کا نام دیا گیا۔ اپنے گروپ میں سرِ فہرست دو ٹیمیں اگلے راؤنڈ کے لیے کولیفائی کرگئیں اور راؤنڈ آف 16 میں پہنچ گئیں (اس راؤنڈ کو دوسرے معنوں میں پری کوارٹر فائنل بھی کہتے ہیں) جبکہ 2،2 ایونٹ سے باہر ہوگئیں۔ پری کوارٹر فائنل کے بعد کوارٹر فائنل پھر سیمی فائنل اور پھر فائنل تھا۔
حیرت انگیز طور پر جنوبی کوریا اور ترکی نے جرمنی اور برازیل کے ساتھ سیمی فائنل کے لیے کولیفائی کیا جہاں جنوبی کوریا کو جرمنی نے اور ترکی کو برازیل نے 0-1 گول سے شکت دے کر فائنل کے لیے کولیفائی کیا۔
تیسری پوزیشن کے میچ میں ترکی نے کامیابی حاصل کی اور میزبان جنوبی کوریا کو 3-2 سے شکست دے کر تیسری پوزیشن حاصل کی۔
فائنل میچ جاپان کے شہر یوکوہاما میں کھیلا گیا جس میں اسٹار سے سجی برازی کو فیوریٹ قرار دیا جارہا تھا۔ امیدوں کے مطابق برازیل کی ٹیم میچ میں چھائی رہی اور عظیم فٹبالر رونالڈو نے میچ کے دوسرے ہاف میں 2 گول اسکور کرکے برازیل کو ریکارڈ 5ویں مرتبہ فٹبال کا عالمی چیمپیئن بنادیا۔ یہ برازیل کا مسلسل تیسرا اور اب تک کا آخری فائنل تھا، اس کے بعد سے لے کر اب تک برازیل کی ٹیم فائنل میں پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔
اس ٹورنامنٹ میں 161 گول اسکور ہوئے جس میں سب سے زیادہ برازیل کے رونالڈو نے اسکور کیے جن کی تعداد 8 تھی۔
گولڈن شو: رونالڈو (برازیل)
گولڈن بال: اولیور کان (جرمنی)
بہترین نوجوان کھلاڑی: لندن ڈونون (یو ایس اے)
یاسشن ایوارڈ: اولیور کان (جرمنی)
فیفا فیئرپلے ایوارڈ: بیلجیئم
سب سے زیادہ تفریحی ٹیم: جنوبی کوریا
فٹبال ورلڈکپ 2002 کا انعقاد یورپ سے باہر ہونے کے بعد اب 2006 کا عالمی میلا یورپ میں سجنا تھا تاہم اس کی میزبانی کے لیے جنوبی امریکا سے برازیل، یورپ سے انگلینڈ اور جرمنی جبکہ افریقہ سے مراکش اور جنوبی افریقہ دلچپسی کا اظہار کیا اور ووٹنگ میں حصہ لیا۔ برازیل نے ووٹنگ کے عمل سے تین روز قبل میزبانی سے دستبرداری کا اعلان کردیا تھا جس کے بعد ایونٹ کی میزبانی کے لیے دیگر چار ممالک کے درمیان مقابلہ تھا۔ جرمنی کو جنوبی افریقہ کے مقابلے میں ایک ووٹ کے فرق سے میزبانی دے دی گئی۔
ہر ورلڈکپ کی میزبانی کے دوران کسی نا کسی تنازعات ابھرتے رہے تاہم اس ورلڈکپ کی میزبانی کی ووٹنگ کے حوالے سے تنازع اس وقت سامنے آیا جب نیوزی لینڈ کی جانب سے فیفا کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر چارلی ڈیمپسے کو مبینہ طور پر ایک کال موصول ہوئی جس میں ان سے کہا گیا کہ وہ جرمنی کو ووٹ دیں، تاہم اگر وہ یہ ووٹ جنوبی افریقہ کے حق میں دے دیتے تو دونوں ممالک کے ووٹ برابر ہوجاتے، اس صورت میں میزبانی دینے کا فیصلہ فیفا کے صدر کو کرنا ہوتا، اور امکان ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس وقت کے فیفا کے صدر سیپ بلاٹر جنوبی افریقہ کے حق میں ووٹ دے دیتے۔
ورلڈکپ 2006 جون اور جولائی کے مہینے میں جرمنی کے 12 شہروں میں کھیلا گیا جس میں دنیا کی تمام 6 کنفیڈریشنز میں سے میزبان ملک کے علاوہ 31 ممالک نے کولیفائی کیا۔
اس ٹورنامنٹ کے لیے دنیا بھر کی 198 ٹیموں نے کولیفائینگ راونڈ میں شرکت کی جن میں سے میزبان جرمنی کے علاوہ ایشیا سے ایران، جاپان، جنوبی کوریا اور سعودی عرب، افریقہ سے انگولا، گھانا، آئیوری کورسٹ، ٹوگو اور تیونس، شمالی و وسطی افریقہ سے کوسٹا ریکا، میکسیکو، ٹرینیداد اینڈ ٹوباگو اور یو ایس اے، جنوبی امریکا سے ارجنٹائن، ایکواڈور، برازیل اور پیراگوئے، اوشیانو سے آسٹریلیا جبکہ یورپ سے کروشیا، جمہوریہ چیک، فرانس، انگلینڈ، اٹلی، ہالینڈ، پولینڈ، سربیا اینڈ مونٹی نیگرو، پرتگال، اسپین، سوئیڈن، سوئیٹزرلینڈ اور یوکرائن نے ورلڈ کپ کے لیے کولیفائی کیا۔ فیفا نے اس مرتبہ دفاعی چیمپیئن ٹیم کو الگے ورلڈکپ کے لیے جگہ نہیں دی بلکہ اسے کولیفائینگ راؤنڈ کھیلنا تھا۔
ورلڈ کپ 2006 کا فارمیٹ 1998 کے ٹورنامنٹ جیسا تھا، جہاں پہلے راؤنڈ رابن اور پھر اس کے بعد ناک آؤٹ مرحلہ تھا، یہ فارمیٹ اب تک رائج ہے جہاں ٹیموں کی تعداد میں اضافے کے بعد انہیں 4، 4 کے 8 گروپ میں تقسیم کیا گیا جنہیں اے سے ایچ تک کا نام دیا گیا۔ اپنے گروپ میں سرِ فہرست دو ٹیمیں اگلے راؤنڈ کے لیے کولیفائی کرگئیں اور راؤنڈ آف 16 میں پہنچ گئیں (اس راؤنڈ کو دوسرے معنوں میں پری کوارٹر فائنل بھی کہتے ہیں) جبکہ 2،2 ایونٹ سے باہر ہوگئیں۔ پری کوارٹر فائنل کے بعد کوارٹر فائنل پھر سیمی فائنل اور پھر فائنل تھا۔
اس ٹونامنٹ میں سیمی فائنل میں پہنچنے والی تمام ٹیموں کا تعلق یورپ سے تھا۔ پہلے سیمی فائنل میں میزبان جرمنی اور اٹلی مدِ مقابل تھے جس میں اٹلی نے میزبان ٹیم کو 0-2 سے شکست دی جبکہ دوسرے سیمی فائنل میں پرتگال کا مقابلہ فرانس سے ہوا جس میں فرانس نے 0-1 سے کامیابی حاصل کرکے فائنل میں جگہ بنائی۔
تیسری پوزیشن کے لیے میزبان جرمنی اور پرتگال کے درمیان مقابلہ ہوا جس میں میزبان ٹیم نے 3-1 سے باآسانی کامیابی سمیٹی۔
جرمنی کے شہر میونخ میں ورلڈکپ 2006 کا فائنل منعقد ہوا جس میں دونوں ٹیموں نے ابتدائی 20 منٹ کے اندر ہی میچ 1-1 گول سے برابر کردیا تھا۔ تاہم دفاعی حکمتِ عملی کی وجہ سے دونوں ٹیمیں گول اسکور کرنے میں ناکام ہوگئیں۔ میچ کا فیصلہ پنالٹی شوٹ آوٹ پر ہوا جس میں اٹلی نے 3-5 سے کامیابی حاصل کی۔
فٹبال کی تاریخ میں دوسری مرتبہ فائنل کا فیصلہ پنالٹی شوٹ آؤٹ پر ہوا، اور دونوں ہی مرتبہ اس میں اٹلی کی ٹیم شامل تھی۔ 1994 کے ورلڈ کپ کے فائنل میں اٹلی کو برازیل سے 2-3 سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اس ایونٹ کا یاد گار لمحہ فائنل میں فرانسیسی کپتان زین الدین زیڈان اور اطالوی کھلاڑی میٹارازی کی لڑائی تھی جس میں زیڈان نے انہیں سینے پر ٹکر ماردی تھی۔ اس واقع پر ریفری نے زیڈان کو میدان سے باہر کردیا تھا۔
ٹورنامنٹ میں کُل 147 گول اسکور ہوئے جن میں سب سے زیادہ گول اسکور کرنے کا ریکارڈ جرمنی کے میروسلاو کلوزه کا ہے جنہوں نے 5 گول اسکور کیے۔
اس ٹورنامنٹ میں 345 یلو کارڈز اور 28 ریڈ کارڈز کھلاڑیوں کو دکھائے گئے جو اس وقت تک سب سے زیادہ تھے، جبکہ پرتگال اور ہالینڈ کے درمیان ہونے والے میچ میں 16 یلو اور 4 ریڈ کارڈ دکھائے گئے جو ورلڈ کپ کی تاریخ کا ایک ریکارڈ ہے۔
گولڈن شو: میروسلاو کلوزه (جرمنی)
گولڈن بال: زین الدین زیڈان (فرانس)
بہترین نوجوان کھلاڑی: لوکاس پولوڈوسکی (جرمنی)
یاسشن ایوارڈ: جیانلوئجی بوفن (اٹلی)
فیفا فیئرپلے ایوارڈ: اسپین، برازیل
سب سے زیادہ تفریحی ٹیم: پرتگال
ورلڈ کپ کی میزبانی کے حوالے سامنے آتے تنازعات کی وجہ سے فیفا نے اب ورلڈ کپ کو تمام برِاعظموں میں ترتیب کے ساتھ منعقد کروانے کا فیصلہ کیا اور یورپ اور جنوبی و شمالی امریکا کی برتری کو میزبانی کے حوالے ختم کردیا۔ فیفا نے نئی پالیسی کا اطلاق کرتے ہوئے اس کی شروعات برِاعظم افریقہ سے کرنے کا فیصلہ کیا۔
ورلڈکپ 2010 کی میزبانی کے لیے مصر، مراکش، جنوبی افریقہ، نائیجیریا نے اپنی دلچسپی ظاہر کی جبکہ لیبیا اور تیونس نے بھی مشترکہ طور پر میزبانی کی دوڑ میں شامل ہوگئے۔ چونکہ فیفا نے مشترکہ طور پر ایونٹ کی میزبانی کے لیے بولی میں شامل ہونے کا ضابطہ ختم کردیا تھا، اس لیے تیونس اور لیبیا نے میزبانی کی دوڑ سے دستبردار ہوگئے تھے۔
ووٹنگ کے دوران جنوبی افریقہ کو 14 جبکہ مراکش کو 10 ووٹ ملے لیکن مصر کو ایک بھی ووٹ نہیں مل سکا، یوں جنوبی افریقہ برِاعظم افریقہ میں تاریخی فیفا ورلڈکپ کی میزبانی کرنے والا پہلا ملک بن گیا۔
علاوہ ازیں یہ خبریں سامنے آئیں کہ ورلڈکپ 2010 کی میزبانی کے لیے فیفا کی ایگزیکٹیو کمیٹی میں جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے ممبران نے جنوبی افریقہ کو میزبانی کے لیے ووٹ دینے پر کمیٹی کے دیگر ممبرا اور اس وقت فیفا کے نائب صدر جیک وارنر کو ایک کروڑ ڈالر کی رشوت دی تھی۔
فیفا کے ایگریکٹیو کمیٹی کے سابق ممبر چنک بلیزر نے ایف بی آئی اور سوئز حکام کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ انہیں اور فیفا ایگزیکٹو کمیٹی کے دیگر ممبران کو 1998 اور 2010 کے ورلڈ کپ کی میزبانی حاصل کرنے کے لیے بھاری رشوت دی گئی تھی۔
ورلڈکپ 2010 جون اور جولائی کے مہینے میں جنوبی افریقہ کے 9 شہروں میں کھیلا گیا تھا۔ اس ٹورنامنٹ میں شرکت کے لیے فیفا کے 208 رکن ممالک میں سے 204 نے کولیفائینگ راؤنڈ میں شرکت کی لیکن دنیا کی تمام 6 کنفیڈریشنز میں سے میزبان ملک کے علاوہ 31 ممالک نے کولیفائی کیا۔
ورلڈ کپ 2010 کا فارمیٹ 1998 کے ٹورنامنٹ جیسا تھا، جہاں پہلے راؤنڈ رابن اور پھر اس کے بعد ناک آؤٹ مرحلہ تھا، یہ فارمیٹ اب تک رائج ہے جہاں ٹیموں کی تعداد میں اضافے کے بعد انہیں 4، 4 کے 8 گروپ میں تقسیم کیا گیا جنہیں اے سے ایچ تک کا نام دیا گیا۔ اپنے گروپ میں سرِ فہرست دو ٹیمیں اگلے راؤنڈ کے لیے کولیفائی کرگئیں اور راؤنڈ آف 16 میں پہنچ گئیں (اس راؤنڈ کو دوسرے معنوں میں پری کوارٹر فائنل بھی کہتے ہیں) جبکہ 2،2 ایونٹ سے باہر ہوگئیں۔ پری کوارٹر فائنل کے بعد کوارٹر فائنل پھر سیمی فائنل اور پھر فائنل تھا۔
ورلڈ کپ 2010 میں گزشتہ ورلڈ کپ کی طرح دفاعی چیمپیئن ٹیم کو براہِ راست انٹری نہیں دی گئی اور اسے بھی کولیفائنگ میچز کھلینے تھے لہٰذا میزبان جنوبی افریقہ کے علاوہ ایشیا سے آسٹریلیا، جاپان، شمالی کوریا اور جنوبی کوریا، افریقہ سے الجزائر، کیمرون، گھانا، آئیوری کوسٹ اور نائیجیریا، شمالی و وسطی امریکا سے میکسیکو، ہنڈیورس اور امریکا، جنوبی امریکا سے ارجنٹائن، برازیل، چلی، یوراگوئے اور پیراگوئے، اوشیانا سے نیوزی لینڈ جبکہ یورپ سے اسپین، ڈنمارک، انگلینڈ، فرانس، جرمنی، یونان، اٹلی، ہالینڈ، پرتگال، سربیا، سلواکیہ، سلووینیہ اور سوئیٹزرلینڈ نے ورلڈ کپ کے لیے کولیفائی کیا۔
ورلڈ کپ کے پہلے سیمی فائنل میں یوراگوئے کا مقابلہ ہالینڈ سے ہوا جہاں ڈچ ٹیم نے 2-3 سے مقابلہ اپنے نام کیا جبکہ دوسرا سیمی فائنل جرمنی وار اسپین کے درمیان ہوا جس میں ہسپانوی ٹیم نے 0-1 سے کامیاب ہوکر پہلی مرتبہ فیفا ورلڈ کپ فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔
تیسری پوزیشن کے لیے جرمنی اور یوراگوئے کے درمیان میچ کھیلا گیا جس میں جرمنی نے یوراگوئے کو 3-2 سے شکست دی اور گزشتہ ایونٹ کی طرح ایک مرتبہ پھر تیسری پوزیشن حاصل کی۔
فائنل مقابلہ ہالینڈ اور اسپین نے درمیان جوہانسبرگ میں ہوا۔ میچ کے ابتدائی لمحات سے ہی دونوں ممالک کی ٹیموں نے ایک دوسرے کے خلاف گول کرنے کی بھرپور کوششیں کیں لیکن دونوں ہی ناکام رہیں۔ مقررہ وقت تک میچ 0-0 سے برابر رہا، تاہم میچ اضافی وقت میں چلا گیا جس میں اسپین کے آندریس انیئسٹا نے 116ویں منٹ میں گول اسکور کرکے اپنی ٹیم کو فتح دلائی۔
اس ورلڈ کپ میں 145 گول اسکور ہوئے، جبکہ سب سے زیادہ گول اسکور کرنے کا ریکارڈ مشترکہ طور پر ڈیاگو فورلان (یوراگوئے)، تھومس مُلر (جرمنی)، ڈیوڈ ویلا (اسپن) اور ویسلے اسنائیڈر (ہالینڈ) کا ہے جنہوں نے 5، 5 گول اسکور کیے۔
اس ٹورنامنٹ میں 2 بھائیوں ژرومه بواتنگ اور کیون پرنس بواتنگ بالترتیب جرمنی اور گھانا کا حصہ تھے اور دونوں بھائیوں نے ایک دوسرے کے خلاف میچ میں شرکت کی تھی۔ اس ٹورنامنٹ میں ہنڈیورس کے اسکواڈ میں 3 بھائی بھی شامل تھے، جو ورلڈکپ کی تاریخ کا ایک منفرد ریکارڈ ہے۔
اور یہ پہلی مرتبہ تھا کہ مسلسل 2 ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کا تعلق ایک ہی کنفیڈریشن سے ہے۔
گولڈن شو: ڈیاگو فورلان (یوراگوئے)
گولڈن بال: تھومس مُلر (جرمنی)
بہترین نوجوان کھلاڑی: تھومس مُلر (جرمنی)
گولڈن گلو: آئیکر کیسیلاس (اسپین)
فیفا فیئرپلے ایوارڈ: اسپین
فیفا نے اپنی پالیسی کو برقرار رکھتے ہوئے اگلا ورلڈ کپ جنوبی امریکا میں منعقد کروانا تھا جس کے لیے ابتدائی طور پر جنوبی امریکی کنفیڈریشن کے زیادہ تر ممالک نے اپنی دلچسپی کا اظہار کیا، تاہم بولی کے قریب آتے ہی ارجنٹائن، کولمبیا، چلی سمیت دیگر ممالک نے دستبرداری کا اعلان کردیا جبکہ وینیزیولا کو فیفا نے اس عمل میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اس طرح برازیل باضابطہ طور پر میزبانی کی بولی کا حصہ بننے والا واحد ملک تھا جو بلامقابلہ میزبانی کے لیے منتخب کرلیا گیا۔
ٹورنامنٹ میں پہلی مرتبہ گول لائن ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا جس کی مدد سے کسی ایسے گول کی تشخیص کی جاسکتی تھی جو بظاہر گول نظر نہیں آتا۔ اس ٹیکنالوجی نے فرانس اور ہنڈیورس کے درمیان ہونے والے میچ میں فرانسیسی ٹیم کی جانب سے کیے گئے گول کو اس ٹیکنالوجی کی مدد سے دیکھا گیا اور فرانسیسی ٹیم کو گول ایوارڈ کیا گیا۔
اسی طرح فری کِک کے لیے جگہ کو متعین کرنے کے لیے نشان لگانے کا ضابطہ بھی متعارف کروایا گیا تاکہ کوئی بھی کھلاڑی اپنی آسانی کے لیے اپنی مرضی کے زاویے پر گیند نہ رکھ سکے۔
ورلڈ کپ کے دوران ہاف ٹائم کے علاوہ کولنگ بریک بھی متعارف کرایا جس کا مقصد گرم موسم میں کھلاڑیوں آرام کا وقت دینا تھا، تاہم اگر میچ کے دوران درجہ حرارت 32 ڈگری سینٹی گریڈ سے اپر ہوتا تو اس میں دونوں ہاف کے 30ویں منٹ میں ایک کولنگ بریک بھی لیا جاتا۔
ورلڈکپ 2014 جون اور جولائی کے مہینے میں جنوبی افریقہ کے 9 شہروں میں کھیلا گیا تھا۔ اس ٹورنامنٹ میں شرکت کے لیے فیفا کے 208 رکن ممالک میں سے 204 نے کولیفائینگ راؤنڈ میں شرکت کی لیکن دنیا کی تمام 6 کنفیڈریشنز میں سے میزبان ملک کے علاوہ 31 ممالک نے کولیفائی کیا۔
ورلڈ کپ 2014 کا فارمیٹ 1998 کے ٹورنامنٹ جیسا تھا، جہاں پہلے راؤنڈ رابن اور پھر اس کے بعد ناک آؤٹ مرحلہ تھا، یہ فارمیٹ اب تک رائج ہے جہاں ٹیموں کی تعداد میں اضافے کے بعد انہیں 4، 4 کے 8 گروپ میں تقسیم کیا گیا جنہیں اے سے ایچ تک کا نام دیا گیا۔ اپنے گروپ میں سرِ فہرست دو ٹیمیں اگلے راؤنڈ کے لیے کولیفائی کرگئیں اور راؤنڈ آف 16 میں پہنچ گئیں (اس راؤنڈ کو دوسرے معنوں میں پری کوارٹر فائنل بھی کہتے ہیں) جبکہ 2،2 ایونٹ سے باہر ہوگئیں۔ پری کوارٹر فائنل کے بعد کوارٹر فائنل پھر سیمی فائنل اور پھر فائنل تھا۔
ایونٹ کا پہلا سیمی فائنل میزبان برازیل اور جرمنی کے درمیان ہوا، اس میچ میں انتہائی رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے کیونکہ مقامی شائقین اپنی ٹیم کی جیت کے لیے پُر امید تھے لیکن انہیں جرمن ٹیم 1-7 سے تاریخی شکست سے دو چار کرکے ان کی امیدوں پر یکسر پانی پھیر دیا تھا۔ برازیل کا واحد گول بھی 90ویں منٹ میں آسکر نے اسکور کیا تھا۔ گول کے فرق سے یہ ورلڈ کپ میں برازیل کی بد ترین شکست تھی۔
دوسرے سیمی فائنل میں جنوبی امریکی ٹیم ارجنٹائن کا مقابلہ گزشتہ ورلڈ کپ کی فائنلسٹ ہالینڈ سے ہوا جو اپنے مقررہ وقت تک بغیر کسی گول کے برابر رہا۔ تاہم اس میچ کا فیصلہ پنالٹی شوٹ آوٹ پر ہوا جس میں ارجنٹائن نے 2-4 سے کامیابی حاصل کی اور ورلڈ کپ کا فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔
تیسری پوزیشن کے میچ میں ہالینڈ نے میزبان برازیل کو 3-0 سے شکست دے دی تھی۔
جرمنی اور ارجنٹینا کے درمیان یہ تیسرا ورلڈ کپ فائنل تھا اور دونوں ہی ٹیمیں ایک ایک مرتبہ فائنل جیتنے میں کامیاب ہوئی تھیں، تاہم ورلڈ کپ 2014 میں یہ امید ظاہر کی جارہی تھی کہ ارجنٹائن اپنے روایتی کھیل کے پیشِ نظر اس ٹورنامنٹ کو جیتنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ دونوں ٹیمیں دفاعی حکمتِ عملی اپناتے ہوئے میچ کے مقررہ وقت میں کوئی بھی گول اسکور کرنے میں ناکام ہوگئی، تاہم میچ کے اضافی وقت میں جرمنی کے ماریو گوتسه نے گول کرکے اپنی ٹیم کو چوتھی مرتبہ عالمی چیمپیئن بنادیا۔
ٹورنامنٹ میں کُل 171 گول اسکور کیے گئے جن میں سب سے زیادہ گول کولمبیا کے جیمز رودریگاس نے اسکور کیے جن کی تعداد 6 تھی۔
دفاعی چیمپیئن اسپین کی ٹیم پہلے ہی راؤنڈ میں ایونٹ سے باہر ہوگئی اور اٹلی (1950 اور 2010)، برازیل (1966) اور فرانس (2002) کے بعد ایونٹ سے پہلے ہی مرحلے میں باہر ہونے والی چوتھی ٹیم بن گئی۔