ضلع دیر: خواتین پر ووٹ کی پابندی سے خواتین امیدواروں تک
پولنگ ڈے اور انتخابی نتائج کو ابھی دیر ہے مگر کچھ اپ سیٹ ہمیں پہلے ہی دیکھنے کو مل رہے ہیں، جی نہیں یہ اپ سیٹ کسی حلقے میں انتخابی نتیجے میں نظر نہیں آیا بلکہ خیبر پختونخوا کے انتخابی عمل میں دیکھنے کو ملا۔ خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ اپ سیٹ خوش آئند ہے۔
خیبر پختونخوا کے دور افتادہ اور پسماندہ ضلع اپر دیر میں جہاں کبھی خواتین ووٹ تک نہیں ڈال سکتی تھیں وہیں اسی ضلعے میں آج ایک خاتون زور و شور کے ساتھ اپنی انتخابی مہم چلا رہی ہے، بلاشبہ ہمارے ملک کو اس قسم کے مزید اپ سیٹ کی شدید ضرورت ہے۔
گاؤں اوشیرئی سے تعلق رکھنے والی ایک بزنس وومین اور پی ٹی آئی کی دیرینہ کارکن اور ٹکٹ ہولڈر 45 سالہ حمیدہ شاہد ہی وہی خاتون ہیں جنہوں نے انتخابی عمل میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور حلقہ پی کے 10 سے صوبائی نشست کی امید لیے اپنی انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔
حمیدہ شاہد نے ابتدائی تعلیم میونسپل اسکول حاجی آباد پشاور سے حاصل کی اور پھر شادی کے بعد ایف ایس سی تک تعلیم جاری رکھی۔ ان کے والد محمد جلیل ایک تعلیمی ادارے جمال اکیڈمی سمیت دیگر اہم کاروباری برانڈز کے مالک ہیں۔
پڑھیے: چارا، غرارہ، نعرہ ضروری ہیں!
حمیدہ شاہد نے 2012ء میں شوہر سے مشاوت کے بعد عملی سیاست میں قدم رکھا۔ وہ سیاسی عمل سے معاشرے میں پسی ہوئی عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے کی تمنا رکھتی ہیں۔
جہاں عورت کو انتخابات میں رائے دینے پر پابندی ہو اور جس معاشرے میں صدیوں سے زنگ آلود قدامت پرستانہ زنجیریں کو توڑنے کا کوئی تصور نہ کرسکے اسی علاقے اور اسی معاشرے میں حمیدہ شاہد کا انتخاب لڑنا امر عظیم ہے۔
حمیدہ شاہد کو الیکشن کمیشن کی جانب سے عورتوں کے لیے 5 فیصد کوٹے کو اپنے لیے خوش نصیبی سمجھتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان نے کافی جانچ پڑتال کرلینے کے بعد مجھے پارٹی ٹکٹ دیا اور میں اُن کے اعتماد پر پورا اُترنے کی کوشش کروں گی‘۔
بلاشبہ حمیدہ شاہد ایک پدرسری سماج میں انتخابی عمل میں حصہ لے رہی ہیں تاہم ان کے مطابق انہیں اب تک کوئی ایسا ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا جس کی وجہ سے انتخابی مہم میں دشواری پیش آئی ہو۔ ان کے مطابق علاقے کی اکثر آبادی پختونوں کی ہے جو خواتین کی بہت زیادہ عزت کرتے ہیں اور انتخابی مہم کے دوران ادب سے ملتے ہیں اور رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ عورتوں کے پاس سیاسی قیادت ہو تاکہ انہیں بااختیار بنایا جاسکے۔
وہ اپنی پارٹی کی قیادت اور عمران خان کی سیاسی سوچ اور فکر سے کافی متاثر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ عمران خان کی باتیں سن کر ہی وہ دبئی میں اپنا کروڑوں روپے کا کاروبار چھوڑ کر سیاسی میدان میں اتریں اور نیک نیتی کے ساتھ کرپٹ لوگوں سے مقابلہ کرنے کے لیے آئیں۔
خواتین کو بااختیار بنانے کا جذبہ لیے وہ جماعت اسلامی سمیت تمام سیاسی مخالفین کے حامی گھروں کا بھی رخ کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں جماعتِ اسلامی سمیت تمام پارٹیوں کے حامیوں کے گھروں میں الیکشن مہم کے لیے جاتی ہوں، میری ترجیح خواتین ووٹر ہیں، گھر میں بیٹھی خواتین بڑی غور سے میری بات سنتی ہیں۔ کسی نے ابھی تک میرے راستے میں حائل ہونے کی کوشش نہیں کی، خواتین کا الیکشن میں حصہ لینا کوئی گناہ نہیں ہے‘۔
پڑھیے: کراچی کی سیاست میں ایم ایم اے کی دوسری اننگز
وہ جماعتِ اسلامی کی جانب سے لوگوں کے درمیان پلاسٹک کے پائپ اور واٹر ٹینک تقسیم کی مخالفت کرتی ہیں اور وعدہ کرتی ہیں کہ اقتدار میں آنے پر اسٹیل پائپ کے ساتھ باقاعدہ پانی کی اسکیم کا آغاز کریں گی۔
خواتین کو بااختیار بنانا، تعلیم، ہیلتھ میں کام کرنا ان کی ترجیحات میں شامل ہے، وہ اپنے علاقے کو لاحق مسائل سے بھی بخوبی واقف نظر آئیں وہ کہتی ہیں کہ اپر دیر ایک دور دراز علاقہ ہے جہاں تعلیمی اداروں، صحت کے مراکز، دستکاری سینٹرز کی اشد ضرورت ہے۔
وہ لڑکیوں کی تعلیم کو لے کر بھی کافی سنجیدہ ہیں، وہ یوسی سطح پر گرلز اسکول بنانے کا عزم رکھتی ہیں اور وعدہ بھی کرتی ہیں۔
اپر دیر وہ علاقہ ہے جہاں ایک نشست پر 3 بار بلدیاتی ضمنی انتخابات ہوئے کیونکہ 2 دفعہ خواتین نے مقامی اُمیدواروں کے زبانی معاہدے کے تحت ووٹ نہیں ڈالا تھا جس پر الیکشن کمیشن نے دونوں الیکشن کالعدم قرار دیے تھے۔ بالآخر تیسری مرتبہ خواتین ووٹ ڈالنے گھروں سے نکلی تھیں۔
حمیدہ شاہد کہتی ہیں کہ انہوں نے آئندہ انتخابات میں خواتین پولنگ ایجنٹس کو تمام پولنگ اسٹیشنز پر مقرر کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اور خواتین کی جانب سے انہیں کافی اچھا رسپانس بھی مل رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میری طرح اپر دیر کی دیگر خواتین بھی عمران خان سے مطمئن ہیں اور اُمید ہے مہم میں میرے ساتھ دیگر خواتین بھی شامل ہوں گی اور گھر گھر جاکر عمران خان اور نئے پاکستان کا پیغام پہنچائیں گے‘۔
ان کے مطابق یہاں کی خواتین کا پہلا مطالبہ تعلیم، دوسرا پڑھی لکھی لڑکیوں کو روزگار کی فرامی ہے، جن کی ایک بڑی تعداد اپر دیر میں باعزت روزگار سے محروم ہے، وہ کہتی ہیں کہ دستکاری سینٹرز بھی یہاں کی خواتین کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
پڑھیے: الیکشن 2018ء: کیا سیاسی جماعتوں کے بیس کیمپ میں تبدیلی ہونیوالی ہے؟
یہاں کی خواتین اپنے گھروں کے معاشی بوجھ کا کسی حد تک سہارا بننا چاہتی ہیں، حمیدہ شاہد نے بتایا کہ یہاں کی خواتین کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ مردوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں تا کہ انہیں پیسوں کی خاطر گھر سے دور سعودی عرب یا دیگر خلیجی ممالک مزدوری کے لیے نہ جانا پڑے۔
اپر دیر کے مسائل پر بات کرتے ہوئے حمیدہ شاہد کہتی ہیں کہ بلاشبہ اپر دیر قدرتی حسن اور معدنیات سے مالا مال وادی ہے مگر یہاں ہسپتالوں کی حالت بہت خراب ہے، وہ وادئ میں صحت کی بہتر سہولیات دینے کا بھی وعدہ کرتی ہیں۔
مذہبی لوگوں کی جانب سے روا رویے پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اُن کے دادا محمد جان علاقے کے بہت بڑے عالم تھے اور علی گڑھ سے اُس دور میں اول نمبر کے ساتھ تعلیم مکمل کی تھی، علم کے پھیلاؤ میں ان کی خدمات نمایاں رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ علاقے لوگ ان کا اور ان کے خاندان کی بہت عزت اور احترام کرتے ہیں، وہ مزید کہتی ہیں کہ علماء کی رہنمائی کے ساتھ شریعت کے مطابق الیکشن میں حصہ لیں گی۔
حمیدہ شاہد سمجھتی ہیں کہ پی کے 10 اپر دیر کے نشست پر ان کا مقابلہ جماعت اسلامی کے محمد علی اور پی پی پی کے باچا صالح کے ساتھ ہے جبکہ کل 7 اُمیدوار میدان میں ہوں گے۔
تعلیم کی اہمیت اور افادیت پر بات نکلی تو انہوں نے پرعزم لہجے میں کہا کہ ’گھر میں تعلیم یافتہ خاتون ہو تو پورا گھر تعلیم یافتہ بن سکتا ہے لہٰذا منتخب ہوکر خواتین کی تعلیم پر پورا توجہ مرکوز کروں گی‘۔
پڑھیے: عمران و زرداری کو کوئی تو سمجھائے کہ نوکری من و سلویٰ نہیں!
حمیدہ شاہد کا حوصلہ اور ہمت دیدنی تھا، وہ اپنے حلقے کے مسائل نہ صرف گنوا رہی تھیں بلکہ اس کے ساتھ ان کا حل بھی بتا رہی تھیں، انہوں نے برملا یہ اظہار کیا کہ ماضی میں حکمرانوں نے پی کے 10 میں پسماندگی کو ختم کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدام نہیں کیے۔ وہ یہاں واقع وادئ کمراٹ میں سیاحت کو فروغ دینے کی خواہش بھی رکھتی ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خیبر پختونخوا میں اپر دیر، لوئر دیر اور انڈس کوہستان سمیت کئی علاقوں میں پہلی مرتبہ خواتین انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔
اپر دیر سے پی ٹی آئی کی شاہد حمید، لوئر دیر سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی صوبیہ خان اور انڈس لوئر کوہستان سے پی ٹی آئی کی سدرہ خالد انتخابی میدان میں اتری ہیں۔ ان تمام حلقوں میں خواتین کی پوزیشن کافی کمزور ہے جبکہ کوہستان کی سدرہ خالد کو مقامی لوگ جانتے بھی نہیں اور لوئر کوہستان میں ممکنہ طور پر سدرہ خالد کو الیکشن مہم سے روکنے کی بھی امکانات ہیں۔ سدرہ خالد نے پی کے 26 سے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رہنما و سابق ایم پی اے صوبیہ خان دیر لوئر کے علاقے رباط سے تعلق رکھتی ہیں اور این اے7 دیر لوئر سے انتخاب لڑنے کا مقصد خواتین کو حقوق دلوانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس دفعہ خواتین کو ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے نکلنا ہوگا اس سلسلے میں ہماری موبلائزیشن جاری ہے اور مسلم لیگ (ن) ہی دیر لوئر میں نشستیں حاصل کرے گی۔‘
حمیدہ شاہد کی طرح صوبیہ کے بھی حوصلے بلند ہیں، وہ چاہتی ہیں کہ خواتین اپنے ووٹ کی اہمیت کو جانیں اور اپنا مستقبل بہتر بنانے کے لیے اس کا استعمال کریں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں الیکشن کے سلسلے میں رکاوٹوں کا بھرپور مقابلہ کروں گی اور خواتین کے پاس گھر گھر جاکر انہیں ووٹ کی اہمیت بتاؤں گی‘۔
اپنے حلقے کے مسائل بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ، علاقے میں پینے کے صاف پانی کا سنگین مسئلہ ہے اور بعض علاقوں میں بجلی بھی نہیں ہے، جس کے لیے وہ پہلے بھی کام کرچکی ہیں اور آئندہ بھی منتخب ہوکر ان مسائل کاخاتمہ کریں گی۔ اُن کے والد سابق ایکسیئن ہیں اور سی این ڈبلیو کے محکمے میں خدمات سرانجام دی ہے۔
انہیں اپنی کامیابی پر مکمل بھروسہ ہے، ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام کے پاس ووٹ مانگنے جائیں گی اور کامیاب ہوکر دیر لوئر کی تعمیر و ترقی پر کام کریں گی۔