ملی مسلم لیگ کا ’اللہُ اکبر تحریک‘ کے تحت الیکشن لڑنے کا فیصلہ
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے ملی مسلم لیگ (ایم ایم ایل) کی رجسٹریشن کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد ایم ایم ایل نے ’اللہ‘ اکبر تحریک‘ (اے اے ٹی) کے پلیٹ فارم سے الیکشن 2018 لڑنے کا فیصلہ کرلیا۔
ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے ملی مسلم لیگ کے ترجمان تابش قیوم نے تصدیق کی کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے ان کی جماعت کی رجسٹریشن سے متعلق فیصلے کے بعد انتخابات میں شرکت کے لیے ان کے اُمیدوار اللہُ اکبر تحریک کے پلیٹ فارم کا استعمال کریں گے۔
ملی مسلم لیگ کے اُمیدواروں کی تعداد کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے بتایا کہ ملک بھر سے ان کے تقریبا 200 اُمیدوار الیکشن لڑیں گے، تاہم انہوں نے بتایا کہ یہ تعداد حتمی نہیں ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں ملی مسلم لیگ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے رجسٹریشن کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد پارٹی اُمیدواروں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
مزید پڑھیں: ملی مسلم لیگ کی رجسٹریشن سے متعلق درخواست ایک مرتبہ پھر مسترد
انتخابی حکمت عملی سوال کے جواب میں ان کا بتانا تھا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد جو صورت حال پیدا ہوئی ہے، اس میں ہمارے اُمیدواروں کو دباؤ کا سامنا ہے کیوں کہ ہمیں آخری وقت تک اُمید تھی کہ ہمیں رجسٹر کرلیا جائے گا۔
الیکشن 2018 کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں سے اتحاد کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ملی مسلم لیگ کے ترجمان نے بتایا کہ ان کی جماعت مسلم لیگ (ق)، مسلم لیگ فنکشنل اور دیگر جماعتوں سے اتحاد کے حوالے سے بات چیت کر رہی ہے۔
جب ملی مسلم لیگ کے ترجمان سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ مسلم لیگ (ن) سے بھی اتحاد کی خواہاں ہیں، تو تابش قیوم نے واضح کیا کہ مسلم لیگ (ن) سے اتحاد ممکن نہیں اور نہ ہی ان سے اتحاد کے حوالے سے کوئی منصوبہ زیر غور ہے، کیونکہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت الیکشن کمیشن میں ہماری رجسٹریشن کی مخالفت کرتی رہی ہے۔
خیال رہے کہ اللہُ اکبر تحریک الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے، جس کے قائد ڈاکٹر میاں احسان باری ہیں، ان کی جماعت کو انتخابات 2018 کے لیے ’کرسی‘ کا انتخابی نشان الاٹ کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا نے ملی مسلم لیگ، تحریک آزادیِ کشمیر کو دہشتگرد تنظیم قرار دے دیا
اے اے ٹی کا ایک دہائی قبل الیکشن کمیشن میں اندراج ہوا، جبکہ اس جماعت نے 2013 کے الیکشن میں ’گائے‘ کے انتخابی نشان کے تحت شرکت کی تھی۔
واضح رہے کہ ملی مسلم لیگ کو کالعدم جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ سعید کی پشت پناہی حاصل رہی ہے، جن پر 2008 کے ممبئی حملوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے جبکہ ان کے سر کی قمیت ایک کروڑ ڈالر (ایک ارب روپے) مقرر کی گئی تھی۔
3 اپریل 2018 کو امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے ملی مسلم لیگ (ایم ایم ایل) اور تحریک آزادیِ کشمیر (ٹی اے کے) کو کالعدم قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ مذکورہ تنظیمیں کالعدم لشکرِطیبہ کے ہی مختلف نام ہیں، جنہیں سیاسی پارٹی کے طور پر رجسٹر نہیں کرایا جا سکتا۔
ملی مسلم لیگ کی رجسٹریشن کا معاملہ
8 اگست 2017 کو کالعدم جماعت الدعوۃ نے نئی سیاسی جماعت ملی مسلم لیگ کے نام سے سیاسی میدان میں داخل ہونے کا اعلان کرتے ہوئے جماعت الدعوۃ سے منسلک رہنے والے سیف اللہ خالد کو اس پارٹی کا پہلا صدر منتخب کیا تھا۔
11 اکتوبر 2017 کو الیکشن کمیشن نے نئی سیاسی جماعت ملی مسلم لیگ کی رجسٹریشن کی درخواست مسترد کردی تھی، یہ فیصلہ وزارت داخلہ کی جانب سے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے جواب کے بعد کیا گیا تھا، جس میں انہوں نے ملی مسلم لیگ پر پابندی لگانے کی تجویز دی تھی۔
مزید پڑھیں: جماعت الدعوۃ کا ملی مسلم لیگ کے نام پر سیاست کا اعلان
یہ بھی یاد رہے کہ ملی مسلم لیگ کے کالعدم جماعت الدعوۃ سے منسلک ہونے پر الیکشن کمیشن نے رجسٹریشن کی درخواست منسوخ کی تھی، الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ ایم ایم ایل نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
8 مارچ 2018 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملی مسلم لیگ کی رجسٹریشن کی درخواست مسترد کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا جبکہ الیکشن کمیشن کو ملی مسلم لیگ کی درخواست کا ازسر نو جائزہ لینے کی ہدایت کی تھی۔
بعد ازاں 13 جون 2018 کو الیکشن کمیشن نے ملی مسلم لیگ (ایم ایم ایل) کی رجسٹریشن سے متعلق درخواست ایک مرتبہ پھر مسترد کردی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: وزارت داخلہ کی رپورٹ جھوٹ کا پلندہ ہے، ملی مسلم لیگ
جس کے بعد ملی مسلم لیگ نے وزارت داخلہ کی الیکشن کمیشن میں پیش کردہ رپورٹ کو جھوٹ کا پلندہ قراردیتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود پارٹی کی رجسٹریشن نہ کرنا انتہائی افسوسناک ہے۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ حکومتی حکام محض بیرونی آقاﺅں کی خوشنودی کے لیے غیر قانونی اور غیر آئینی حرکتوں کا ارتکاب کر رہے ہیں۔
ملی مسلم لیگ نے اعلان کیا تھا کہ الیکشن کمیشن کے حالیہ فیصلے کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیا جائے گا۔