پاکستان میں معذور افراد کی فلاح و بہبود کا قانون ہی موجود نہیں
اسلام آباد: بین الاقوامی سطح پر پاکستان اس بات کا پابند ہے کہ اپنے معذور شہریوں کو سہولیات کی فراہمی یقینی بنائے، لیکن اس کے باوجود ملک میں معذور افراد کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی جامع قانون موجود نہیں۔
پوٹھوہار مینٹل ہیلتھ ایسوسی ایشن (پی ایم ایچ اے) کی جانب سے ایک رپورٹ جاری کی گئی ہے جس کا عنوان ہے ’معذوری کو آئین کے دائرہ کار میں لایا جائے‘، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معذور افراد کی تعریف اور اس حوالے سے موجود مواد میں ہمیشہ سے تضاد موجود ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ معذور افراد کو سیاست میں حصہ لینے کا حق نہیں دیا جاتا، بہت کم معذور افراد سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کرتے ہیں اور ان میں سے اہم منصب حاصل کرنے والے افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ انتخابات میں حصہ لینے والوں کی تو شاید ہی کوئی مثال مل سکے۔
یہ بھی پڑھیں: معذوروں کے مسائل اور ان کے حل کا عالمی منصوبہ
مذکورہ رپورٹ میں اس امر کی ضرورت پر زور دیا گیا کہ معذور افراد کی بہتری کے لیے ایک جامع قانون بنایا جائے تاکہ وہ معاشرے کے کارآمد فرد ثابت ہوسکیں اور زندگی کے تمام شعبہ جات میں مکمل طور پر شامل ہو سکیں۔
رپورٹ کے مطابق طویل عرصے سے یہ بات مشاہدے میں ہے کہ معذور افراد کے ووٹ ڈالنے کی شرح خاصی کم ہے جبکہ ان کی جانب سے کسی سیاسی عمل میں شرکت بھی عام طور پر دیکھنے میں نہیں آتی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اب 1981 میں منظور کیے گئے ایک آرڈیننس کے علاوہ اس سلسلے میں کوئی جامع قانون سازی نہیں کی گئی جبکہ 1981 کا قانون زیادہ تر نوکریوں کے حوالے سے ہے، تاہم اس حوالے سے کوئی ایسا قانون موجود نہیں جو دیگر مسائل کا احاطہ کرتا ہو۔
ایسے جامع قانون کی عدم موجودگی کے باعث جسمانی عوارض کے حامل افراد کے لیے استعمال ہونے والی باقاعدہ اصطلاح میں تضاد پایا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں: میں معذور ہوں تو کیا ہوا، ووٹ میرا بھی حق ہے
اس حوالے سے میسر عوامی اعداد وشمار محدود ہیں، 1998 کی مردم شماری کے مطابق ملک کی 2.38 سے 2.5 فیصد آبادی معذور افراد پر مشتمل تھی، اگر اسی تعداد کو مدنظر رکھا جائے تو اب ملک کی 20 کروڑ آبادی میں 47 لاکھ افراد معذور افراد پر مشتمل ہونے چاہیے۔
لیکن 2017 کی مردم شماری کے مطابق صورتحال اس سے مختلف ہے اور معذور افراد کی تعداد کم ہوکر ایک اعشاریہ 6 فیصد یعنی 32 لاکھ رہ گئی ہے، جس کے باعث رپورٹ میں مذکورہ اعداد و شمار پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک ایسے فرد کی رجسٹریشن، جو کسی جسمانی عارضے کا شکار ہو، ایک طویل مرحلہ ہے، جس کے لیے مذکورہ فرد کو شہر کے سرکاری ہسپتال میں پہنچ کر معذوری اور رہائش کی تصدیقی دستاویزات فراہم کرنی ہوں گی اور جانچ پڑتال کے بورڈ کے سامنے پیش ہونا ہوگا، جہاں سے اسے معذوری کا سرٹیفکیٹ فراہم کیا جائے گا، جس کی بنیاد پر اس کا ووٹ رجسٹرڈ کیا جائے گا۔
اس سلسلہ وار عمل کے باعث معذور افراد کی انتخابی عمل میں شمولیت نہ ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مردم شماری میں معذور افراد کو بھی شمار کریں
اس حوالے سے رپورٹ میں تجاویز پیش کی گئیں ہیں کہ اگر معذور افراد کی فلاح و بہبود کے لیے ایک جامع قانون تشکیل دے دیا جائے تو دیگر شعبہ ہائے زندگی میں ان کی شمولیت میں واضح اضافہ ہوسکتا ہے۔
رپورٹ کی تقریب رونمائی میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی کے جنرل سیکریٹری فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ معذور افراد کو قومی دھارے میں لانے کے لیے مناسب اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ کی جانب سے اٹھائے جانے والے مناسب سیاسی اور آئینی اقدامات کے سبب قبائلی علاقوں میں رہنے والے افراد اور مخنث افراد کو قومی دھارے کا حصہ بنایا جاچکا ہے۔
مزید پڑھیں: مجھے ’معذور‘ ہونے کی اتنی بڑی سزا کیوں دی جارہی ہے؟
فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ موجودہ قانون صرف ملازمتوں کے بارے میں ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سلسلے میں نئے سرے سے مربوط قانون سازی کی جائے، ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے لیے سیاسی عزم فیصلہ کن عنصر ثابت ہوسکتا ہے، چناچہ پاکستان پیپلز پارٹی معذور افراد کو اپنے منشور کا حصہ بنائے گی اور دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی اس پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔
تقریب سے پی ایم ایچ اے کے صدر ذوالقرنین اصغر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کوئی جامع قانون نہ ہونے کا مطلب کسی باقاعدہ دستاویز کی عدم موجودگی ہے جس سے معذور افراد کے حقوق کا تحفظ یقینی ہوسکے۔
انہوں نے اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ 2017 کی مردم شماری میں معذور افراد کی تعداد میں کیسے کمی آسکتی ہے جبکہ ملک کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ خبر 11 جون 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی