لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے وعدوں اور دعوؤں میں کتنی حقیقت کتنا فسانہ؟
نواز شریف نے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے وعدے پر اپنی انتخابی مہم کی بنیاد رکھی اور مسلم لیگ (ن) کی حالیہ انتخابی مہم میں بھرپور طریقے سے اس چیز کا اعادہ کیا جائے گا کہ یہ وعدہ پورا کیا جاچکا ہے۔
تصور یہ تھا کہ مارچ 2013ء میں بے مثال سطح کو چھونے والی لوڈشیڈنگ کے مسئلے پر انتخابی مہم چلائی جائے اور پھر انتخابات میں کامیابی کے بعد چینی معاونت سے جس قدر ممکن ہوسکے بجلی گھر لگائے جائیں۔ اس سے پہلے کہ وہ وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھاتے، انہوں نے چین کے وزیرِاعظم لی کی چیانگ سے 23 مئی کو ملاقات کی (انہوں نے حلف 5 جون کو اٹھایا تھا)۔
میٹنگ کے بعد اعلامیہ جاری کیا گیا کہ دونوں ممالک ’اسٹریٹجک شراکت داری مضبوط کرنے، اقتصادی روابط کو وسعت دینے اور عوام کے عوام سے تعلقات بڑھانے‘ کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی اعلان کیا گیا تھا کہ چینی وزیرِاعظم نے اس وقت منتخب وزیرِاعظم کو چین کا دورہ کرنے کی دعوت دی تھی۔
یہ دورہ نواز شریف کے حلف اٹھانے کے ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں وقوع پذیر ہوا۔ یہ پہلی مرتبہ تھا جب ہم نے دونوں ممالک کے درمیان کسی 'اقتصادی راہداری' کا سنا تھا جس کے ساتھ ایک 'طویل مدتی منصوبے' پر کام کیا جا رہا تھا۔ نومبر 2014ء میں نواز شریف کے چین کے دوسرے سرکاری دورے کے دوران ان کے اور ژی جن پنگ کے درمیان یادداشت پر دستخط ہوئے جن میں ان تمام توانائی کے منصوبوں کی نشاندہی کی گئی تھی جن میں چین نے سرمایہ کاری کرنی تھی۔
مزید پڑھیے: کراچی میں بڑھتی لوڈشیڈنگ، مسئلہ آخر کون حل کرے گا؟
یہ اس منصوبے کے متوازی تھا جو ایک سال پہلے شروع کیا گیا تھا، اور ان منصوبوں کو 'ارلی ہارویسٹ پراجیکٹس' یعنی جلد مکمل ہونے والے منصوبے قرار دیا گیا۔ اس فہرست میں کوئلے، ایل این جی، شمسی اور پن بجلی کے منصوبوں کی ایک قطار شامل تھی جن میں چین نے ’مارکیٹ اصولوں کی پاسداری‘ کرتے ہوئے سرمایہ کاری کرنی تھی تاکہ پاکستان کی بجلی کی طلب و رسد میں موجود خلیج کو پُر کیا جاسکے۔
یہاں سے آگے منصوبہ یہ تھا کہ ان ارلی ہارویسٹ منصوبوں پر فوری کام کرتے ہوئے انہیں اگلے انتخابات سے قبل مکمل کیا جائے اور پھر عوام کے سامنے جاکر کہا جائے کہ ’کیا میں نے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ نہیں کیا تھا؟ دیکھو، میں نے وعدہ پورا کیا۔ اب مجھے ایک مرتبہ پھر ووٹ دیں تاکہ میں بھوک، غربت اور بے روزگاری کو ختم کروں‘ وغیرہ وغیرہ۔
یہی وجہ ہے کہ ارلی ہارویسٹ منصوبوں کو اس قدر تیز رفتاری سے مکمل کیا گیا ہے۔ اگر انہیں مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ان کی وجہ سے ملکی سسٹم میں 10 ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداواری صلاحیت کا اضافہ ہوا ہے جو کہ ایک ہی وقت میں ملک کی بجلی کی پیداواری صلاحیت میں سب سے بڑا اضافہ ہے۔ سب کچھ منصوبے کے مطابق جا رہا تھا۔ کراچی میں 2 ایل این جی ٹرمینلز کا منصوبہ بھی تیار کیا گیا تاکہ پنجاب میں زیرِ تکمیل 3 ایل این جی پلانٹس کے لیے ایندھن فراہم کیا جائے۔ صرف میگاواٹس میں اضافہ نہیں بلکہ پیداواری لاگت بھی کم کی جانی تھی۔
مگر پاناما نے اس پورے منصوبے میں رکاوٹ ڈال دی۔ اس کی وجہ سے نواز شریف کو اپنا پورا منصوبہ تیز تر کرکے آگے لے جانا پڑا۔ جی ٹی روڈ پر کی گئی تقریریں سنیں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ وہ اصل میں ان کی انتخابی مہم کی تقریریں تھیں جو انہیں اب کرنی چاہیے تھیں۔ ’کیا میں نے وعدہ نہیں کیا تھا کہ میں لوڈشیڈنگ ختم کر دوں گا؟ کیا ہم یہ وعدہ پورا نہیں کر رہے؟‘
یہ لائن وقت سے پہلے باہر نکالی گئی مگر تب سے لے کر اب تک پارٹی اس پٹری پر چل رہی ہے۔ اسے بجٹ تقریر کے دوران سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے دوبارہ دہرایا۔ ’گزشتہ انتخابات میں ہم نے جو قوم سے سب سے بڑا وعدہ کیا تھا وہ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا تھا، جو کہ آج پورا ہوچکا ہے۔‘
جانے سے پہلے انہوں نے یقینی بنایا کہ سسٹم چلتا رہے۔ ایندھن کی رسد بھی دستیاب رکھی گئی ہے جبکہ توانائی کے شعبے کے کئی شراکت داروں کو 100 ارب روپے کی ادائیگی بھی کردی گئی ہے تاکہ اہم موقع پر گردشی قرضہ سسٹم کا گلا نہ گھونٹ دے۔ 3 انتہائی اہم ایل این جی منصوبوں کو بھی ان کی تکنیکی مشکلات کے ساتھ ہی فاسٹ ٹریک پر چلایا گیا ہے جس میں سے ایک اب کسی بھی وقت بجلی کی پیداوار شروع کردے گا۔ آج سسٹم مجموعی طور پر اتنی بجلی پیدا کر رہا ہے جتنی کہ آج تک نہیں کی، یعنی روزانہ 20 ہزار میگاواٹ سے بھی زیادہ۔
مگر پھر نگراں حکومت کو باگ ڈور سونپتے ہی ایک بُرے خواب کی طرح وسیع پیمانے پر لوڈشیڈنگ پھر لوٹ آئی (مگر پھر بھی یہ 2013ء کی ملک گیر لوڈشیڈنگ کے مقابلے میں ایک محدود علاقے میں تھی۔)
مزید پڑھیے: بدترین گرمیاں اور لوڈشیڈنگ
غلطی کہاں ہوئی؟
نواز شریف فوراً صفائی دینے پہنچے ’ہم اب لوڈشیڈنگ کے ذمہ دار نہیں ہیں‘ کیوں کہ سسٹم کو چلانا نگراں حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ڈیموں میں پانی کی کم آمد کی وجہ سے پن بجلی کی پیداوار محدود ہوئی تھی جب کہ کچھ ایل این جی پلانٹ بھی آن لائن آنے والے تھے۔
منصوبہ کئی طرح سے مضبوط ہے اور شاید کام بھی کر جائے۔ مگر واحد مسئلہ یہ ہے کہ توانائی کے شعبے میں اتنے زیادہ متحرک پرزے ہیں (پیداوار، ترسیل، تقسیم، بلنگ، وصولی، بینکوں، ایندھن کمپنیوں اور آئی پی پیز کو ادائیگی) کہ اگر ایک چھوٹی سی چیز بھی غلط ہوجائے تو اس کے نتائج پورے سسٹم پر مرتب ہوتے ہیں۔ نگراں حکومت کو اقتدار کی منتقلی سے قبل ہم نے اس کی مثال تب دیکھی جب گڈو تھرمل پاور اسٹیشن کے سوئچ یارڈ میں خرابی کی وجہ سے پنجاب کا ایک بڑا حصہ تاریکی میں ڈوب گیا۔
سسٹم زبردست قیمت پر تیار کیا گیا ہے اور اس سے بھی زیادہ اس میں سیاسی فوائد داؤ پر لگے ہیں۔ اب آزمائش کی گھڑی ہے۔ اگر یہ گرمیوں کے دورانیے میں صحیح چل گیا اور انتخابات کے دن بھی چلتا رہا، تو شاید یہ سیاسی قسمتوں کا پانسہ پلٹ دے۔ اگر اس دوران کسی بھی وجہ سے کوئی خرابی پیدا ہوئی، چاہے دانستہ طور پر سبوتاژ کیا جائے یا پھر نادانستہ طور پر (ادائیگیوں میں مسئلہ یا تکنیکی خرابی) تو نواز شریف اور ان کے لوگوں کا وہ پیغام برباد ہوجائے گا جو وہ ووٹروں تک پہنچانا چاہ رہے ہیں۔
وہ کہیں گے، ’ہم وہ لوگ ہیں جو کام مکمل کرتے ہیں، ہم ملک کی بہتری اور بھلائی چاہتے ہیں، کیا آپ کو ہمارے آنے سے پہلے کی تاریک گھڑیاں یاد نہیں؟ اور یہ لوگ ہمیں ایسا کرنے سے روک رہے ہیں کیوں کہ یہ آپ کی بھلائی نہیں چاہتے، کیوں کہ اس سے ان کے مفادات کو خطرہ ہے۔‘
انتخابی مہم میں اتنا زور حقوق اور آزادیوں پر نہیں ہوگا جتنا کہ عام آدمی کی زندگی میں مادی بہتریوں پر۔ وہ پوچھیں گے، ’آپ کے لیے کس نے زیادہ ڈیلیور کیا، انہوں نے یا ہم نے؟‘
نواز شریف کو توقع ہے کہ انتخابات پر عدالتی فیصلوں، ٹاک شوز میں ہونے والے شور و غل، تمام شرارتوں اور ارکان کے پارٹی چھوڑنے سے زیادہ اثر اس جواب کا ہوگا جو کہ ووٹر ان کے اس سوال کے ردِ عمل میں دیں گے۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 7 جون 2018 کو شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں