بلوچستان میں حلقہ بندیوں سے متعلق خوش آئند تبدیلیاں
نئی حلقہ بندیوں کے ابتدائی منصوبے پر 1286 اعتراضات نمٹانے کے بعد الیکشن کمیشن کو حتمی حلقہ بندیوں کا اعلان کیے ہوئے 2 ہفتے ہوگئے ہیں مگر اب تک سیاسی اور عدالتی میدانوں سے کوئی نئے اعتراضات سامنے نہیں آئے ہیں۔ کسی خبر کا نہ ہونا بھی اچھی خبر ہے۔
چنانچہ پورے ملک کا انتخابی نقشہ اب تازہ ترین ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا، خاص طور پر اس لیے کہ یہ اہم مشق پہلی بار ایک جمہوری حکومت کے تحت کی گئی تھی۔ پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کرتے ہوئے آرٹیکل 51 (3) کے تحت صوبوں اور وفاقی علاقوں کے لیے مختص نشستوں کی تعداد تبدیل کرنے کے علاوہ الیکشن کمیشن کو مردم شماری کے ابتدائی نتائج کے ساتھ کام کرنے کا اختیار بھی دینا پڑا تھا۔
اس کام میں چیلنجز بھی تھے۔ متعلقہ اداروں کی صلاحیت اور نیت پر ہر قدم پر شک کیا گیا مگر انہوں نے اس اہم امتحان میں کامیاب ہونے کے لیے تمام مشکلات کو عبور کیا اور تمام ڈیڈ لائنز سے گزرے۔ اتنی ہی اہم یہ حقیقت بھی ہے کہ اس پورے مرحلے میں تمام ضوابط کا خیال رکھا گیا ہے۔ درحقیقت الیکشنز ایکٹ 2017 کی حلقہ بندیوں سے متعلق شقوں پر عمل کرنے کے لیے ضوابط پہلی بار تیار کیے گئے تھے۔ ابتدائی تجاویز پر اعتراضات سننے کا عمل بھی اپنے مقاصد میں کامیاب رہا۔ اعتراضات پر سماعتیں عوام کے لیے کھلی تھیں اور الیکشن کمیشن نے کاز لسٹ جاری کرتے ہوئے اپنے ضلعی اور ڈویژنل اسٹاف کو مقامی تجاویز کے حصول کے لیے بلوایا۔
مزید پڑھیے: نئی حلقہ بندیاں متنازع کیوں ہیں؟
بھلے ہی ابتدائی اور حتمی حلقہ بندیوں کے درمیان فرق کا مطالعہ کرنے کے لیے کافی وقت اور کوشش درکار ہے مگر قرائن سے یہ واضح ہے کہ الیکشن کمیشن نے اعتراضات کو میرٹ پر حل کیا ہے اور بولڈ فیصلے لینے میں ہچکچاہٹ نہیں دکھائی ہے۔
الیکشن کمیشن کو ابتدائی تجاویز پر بلوچستان کے کئی مقامی سیاستدانوں کی جانب سے اعتراضات موصول ہوئے۔ ان میں وہ اعتراضات بھی شامل تھے جن کی میں نے ڈان میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں نشاندہی کی تھی۔ یہ جان کر کافی خوشی ہوئی کہ الیکشن کمیشن نے تنقید کو مثبت انداز میں لیا اور پھر تجاویز میں مناسب ترامیم کیں۔
بلوچستان میں حلقہ بندیوں میں ہونے والی تبدیلیوں کا خلاصہ یہ ہے:
ابتدائی تجاویز میں نصیر آباد ڈویژن کے 5 اضلاع نصیر آباد، جعفر آباد، کچھی، جھل مگسی اور صحبت پور کو 3 نشستیں دی گئی تھیں۔ یہ غیر معمولی تھا کیوں کہ ڈویژن کا آبادی میں حصہ 2.1 نشستوں کے برابر تھا۔ اس کی وجہ سے بہت چھوٹے سائز کے 2 حلقے بنے۔ یعنی این اے 260 نصیر آباد نشستوں کی اوسط آبادی کے صرف دو تہائی برابر تھا، جبکہ این اے 262 کچھی کم جھل مگسی آدھے سے تھوڑا کم۔
حتمی حلقہ بندیوں میں دونوں حلقوں کو ملا کر ایک ہی حلقہ این اے 260 نصیر آباد کم جھل مگسی کم کچھی بنا دیا گیا ہے۔ نصیر آباد ڈویژن کے پاس اب 2 قومی حلقے این اے 260 اور این اے 261 جعفر آباد کم صحبت پور ہیں۔
نصیر آباد ڈویژن سے بچنے والی نشست اب بلوچستان کے مرکزی علاقوں کو دے دی گئی ہے جو رقبے میں کافی وسیع اور کم آبادی رکھنے والے ہیں۔ اس علاقے کے 9 اضلاع، جو کہ کوئٹہ اور قلات ڈویژن میں آتے ہیں، انہیں ابتدائی تجاویز میں 2 نشستیں این اے 268 اور این اے 270 دی گئی تھیں۔ ملک کے انتہائی مغربی ضلعوں کا کُل جغرافیائی علاقہ 149,635 کلومیٹر ہے۔ اس بے انتہا رقبے کی وجہ سے اس علاقے میں نمائندگی کا معیار گر جاتا ہے کیوں کہ اتنے بڑے علاقے میں مہم چلانا اور اس کے لوگوں کی توقعات پر پورا اترنا ناممکن ہوتا۔
حتمی حلقہ بندیوں میں ان 9 اضلاع کو 3 قومی حلقوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ مستونگ، شہید سکندرآباد اور قلات کے ضلعے اب این اے 267، چاغی، نوشکی اور خاران این اے 268 اور پنجگور، واشک اور آواران این اے 270 کا حصہ بن گئے ہیں۔ ان حلقوں کی آبادی صوبائی اوسط سے 10 سے 20 فیصد کم ہے جو ان کے رقبے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اچھا سمجھوتہ ہے۔ اس طرح کوئٹہ کے جنوبی اضلاع جن میں بلوچی بولنے والے افراد کی اکثریت ہے، ان کے پاس 7 قومی نشستیں ہیں جبکہ ابتدائی تجاویز میں صرف 6 تھیں۔
ان 9 میں سے تمام اضلاع کو ابتدائی تجاویز میں ایک ایک صوبائی نشست دی گئی تھی مگر خاران اور واشک ضلعوں کو ملا کر ایک صوبائی حلقہ بنا دیا گیا تھا۔ 48 ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے کے ساتھ خاران اور واشک مجموعی طور پر جغرافیائی لحاظ سے سب سے بڑا صوبائی حلقہ ہوتا جبکہ اس کی آبادی صوبائی اوسط سے 37 فیصد زیادہ ہوتی اور یہ قابلِ قبول نہیں تھا۔ چنانچہ حتمی حلقہ بندیوں میں اس حلقے کو تقسیم کرکے خاران اور واشک دونوں ضلعوں کو ایک ایک صوبائی نشست دے دی گئی ہے۔
مزید پڑھیے: 2018ء کے انتخابات ’الیکٹیبلز‘ کے لیے مشکل ثابت کیوں ہوسکتے ہیں؟
نصیر آباد ڈویژن کے لیے صوبائی اسمبلی کی نشستیں 7 ہی رہیں۔ مگر جھل مگسی ضلعے پر مشتمل ایک بہت چھوٹا حلقہ بنانے کے بجائے اسے کچھی کے حصوں سے ملا دیا گیا ہے، جبکہ باقی کے کچھی کو مستونگ ضلعے کی تحصیل دشت سے ملاتے ہوئے پی بی 17 کا حلقہ تشکیل دیا گیا ہے۔ چنانچہ ان حلقوں کے سائز بڑی حد تک برابر ہوگئے ہیں۔
ایک اور بہت چھوٹے ضلعے شیرانی کو ابتدائی تجاویز میں ایک پوری صوبائی نشست پی بی 1 دے دی گئی تھی۔ حتمی حلقہ بندیوں میں اسے پی بی 4 موسیٰ خیل کے ساتھ ملا دیا گیا ہے جس کی آبادی صوبائی اوسط سے 30 فیصد کم تھی۔ شیرانی اور موسیٰ خیل اب مشترکہ طور پر پی بی 1 کا حصہ ہیں۔
یہ تبدیلیاں ہمارے نظام میں پختگی کی ایک خوش آئند علامت بھی ہے اور ملک میں جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ایک اچھا شگون بھی۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 27 مئی 2018 کو شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں