ہمیں نگراں حکومت کی ضرورت کیوں نہیں ہے
پاکستان اس وقت مرکز اور چاروں صوبوں میں نگراں کابیناؤں کی تلاش میں ہے۔ یہ ایک ایسا منفرد ماڈل ہے جو ممکنہ طور پر صرف پاکستان میں ہی موجود ہے۔ اس ماڈل کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد غیر منتخب حکومتیں انتظام سنبھالتی ہیں تاکہ تازہ انتخابات کی تیاری کی جاسکے۔ نگراں سیٹ اپ کی بنیادی توجیہہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ انتخابات کے دوران انتظامیہ کی غیر جانبداری کو یقینی بنایا جاسکے۔
کئی سال قبل 1996ء میں بنگلہ دیش نے بھی نگراں حکومتوں کا تجربہ کیا اور انتخابات کے دوران سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ چیف جسٹس صاحبان کی سربراہی میں غیر منتخب نگراں کابینائیں بنائیں، مگر بعد میں اسے یہ طرزِ عمل غیر پیداواری محسوس ہوا اور نتیجتاً 2011ء میں یہ نظام ختم کردیا گیا۔
1973ء کے اصل آئینِ پاکستان میں غیر منتخب نگراں حکومت کا کوئی تصور موجود نہیں ہے اور 1977ء کے عام انتخابات ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے دفتر میں رہتے ہوئے ہی کروائے تھے۔ مگر ان انتخابات میں منتخب حکومت کے تحت بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات کی وجہ سے غیر منتخب نگراں حکومتوں کے قیام کے تصور نے جنم لیا۔ مگر عام انتخابات کے لیے بنائی گئی زیادہ تر نگراں حکومتوں کو، بشمول 1990ء میں قائدِ حزبِ اختلاف غلام مصطفیٰ جتوئی کی سربراہی میں بننے والی نگراں حکومت کو بشمکل ہی غیر جانبدار قرار دیا جاسکتا ہے۔
مزید پڑھیے: انتخابات 2018: جسٹس (ر) ناصر الملک نگراں وزیرِاعظم نامزد
پیپلز پارٹی (پی پی پی) حکومت میں منظور کی گئی 18ویں اور 20ویں آئینی ترمیم میں نگراں حکومتوں کے نظام میں کچھ نمایاں اصلاحات کی گئیں۔ نگراں وزیرِاعظم اور وزرائے اعلیٰ کی تعیناتی کو 3 حصوں میں مرحلہ وار تقسیم کردیا گیا۔ صدرِ پاکستان سے نگراں وزیرِ اعظم کی تعیناتی کا اختیار لے کر مدت پوری کرنے والے وزیرِاعظم اور ایوان میں قائدِ حزبِ اختلاف کے اتفاقِ رائے کو ضروری قرار دیا گیا۔ یہی اتفاقِ رائے صوبائی نگراں حکومتوں کے لیے بھی درکار ہے۔
اگر دونوں رہنماؤں کے درمیان اتفاقِ رائے نہیں ہوتا تو حکمراں اور اپوزیشن جماعتوں کی یکساں تعداد پر مشتمل ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو 3 دن کے اندر قائدِ ایوان اور قائدِ حزبِ اختلاف کے تجویز کردہ ایک ایک نام میں سے نگراں وزیرِاعظم کے نام کا انتخاب کرے گی۔ اگر پارلیمانی کمیٹی بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچتی تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کو 4 نام بھیجے جائیں گے جو بالآخر ایک شخص کو نگراں وزیرِاعظم کے طور پر چننے کا ذمہ دار ہے۔
ایسا ہی ایک نظام صوبائی نگراں حکومتوں کے لیے بھی موجود ہے، صرف ایک فرق یہ ہے کہ نگراں وزیرِاعلیٰ کا انتخاب کرنے والی پارلیمانی کمیٹی 6 ارکان پر مشتمل ہوتی ہے جبکہ نگراں وزیرِاعظم منتخب کرنے والی کمیٹی 8 ارکان پر۔ 2013ء کے انتخابات سے قبل پارلیمانی رہنما اور پارلیمانی کمیٹی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تھے لہٰذا الیکشن کمیشن کو نگراں وزیرِاعظم چننا پڑا تھا۔ سسٹم کی اچھی بات یہ ہے کہ اس میں تعطل کی گنجائش بہت کم ہے کیوں کہ واضح طور پر متعین کردیا گیا ہے کہ اتفاقِ رائے کے لیے کتنا وقت دستیاب ہے جس کے بعد فیصلہ سازی اگلے مرحلے کی جانب بڑھ جائے گی۔
18ویں اور 20ویں ترمیم میں نگراں حکومتوں کے معاملے پر کام کیا گیا ہے مگر پھر بھی نگراں حکومتوں کے اختیارات اور ان کی سرگرمیوں کے حوالے سے خاصا ابہام اور غیر یقینی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ سپریم کورٹ کو 2013ء کے انتخابات سے قبل اپنے ایک فیصلے کے ذریعے یہ خلاء پر کرنا پڑا تھا۔ اکتوبر 2017ء میں پارلیمنٹ کی جانب سے منظور کیے گئے الیکشن ایکٹ نے بھی اس موضوع پر کافی وضاحت فراہم کی ہے۔ ایکٹ کی شق 230 واضح طور پر وہ حدود متعین کرتی ہے جس کے اندر رہ کر نگراں حکومتوں کو کام کرنا ہوتا ہے۔
مزید پڑھیے: مدت پوری کرتی اسمبلی اور کمزور ہوتی جمہوریت
نگراں حکومت کیا کرسکتی ہے اور کیا نہیں؟
- بنیادی طور پر ایک نگراں حکومت کو روز مرّہ کے ضروری معاملات پر توجہ دینی ہوتی ہے تاکہ کارِ حکومت چلتا رہے، جبکہ قانون کے تحت انتخابات کروانے کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت بھی کرنی ہوتی ہے۔
- نگراں حکومت اہم پالیسی فیصلے نہیں لے سکتی، نہ ہی ایسے فیصلے کرسکتی ہے جو اگلی منتخب حکومت کے اختیارات کو کسی طرح محدود کردے۔
- نگراں حکومت بڑے منصوبے، بین الاقوامی معاہدے یا مختصر دورانیے کے علاوہ کوئی ترقی یا بھرتی نہیں کرسکتی۔
- سب سے اہم یہ ہے کہ نگراں حکومت الیکشن کمیشن کی منظوری کے بغیر سرکاری عہدیداران کا تبادلہ بھی نہیں کرسکتی۔
ان شرائط نے نگراں حکومتوں کے اختیارات کو کافی حد تک محدود کردیا ہے اور واضح طور پر متعین کردیا ہے کہ کس چیز کی اجازت ہے اور کس کی نہیں۔ چوں کہ سرکاری افسران کا تبادلہ بھی الیکشن کمیشن کی منظوری سے ہونا ہے، اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ درحقیقت کمیشن ہی حکومت ہے۔
اب چوں کہ نگراں حکومتوں کے اختیارات اور ان کا کام نہایت واضح انداز میں متعین کردیا گیا ہے، تو ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ ان کے کرنے کے لیے کوئی زیادہ کام موجود نہیں ہے۔ تو پھر یہ سوال قدرتی طور پر اٹھتا ہے کہ ہمیں ایک غیر منتخب نگراں حکومت چاہیے ہی کیوں؟ ہم منتخب حکومت کو ہی انتخابی عرصے کے لیے نگراں کیوں نہیں بنا دیتے جیسا کہ دنیا بھر میں کیا جاتا ہے؟ ایسے قانونی اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے کہ نگراں کے طور پر چل رہی منتخب حکومت انتخابات پر کسی صورت اثر انداز نہ ہوسکے؟ اگر ضرورت پڑے تو ہم الیکشن کمیشن کو مزید بااختیار بناسکتے ہیں تاکہ یقینی بنایا جاسکے کہ نگراں حکومت اپنے متعین کردہ حدود سے باہر نہ نکلے۔
چوں کہ اگلے انتخابات سے قبل پارلیمنٹ تحلیل ہوجاتی ہے، اس لیے فعال پارلیمنٹ کی عدم موجودگی میں احتساب کا معمول کا طریقہ کار بھی رائج نہیں رہتا، چنانچہ زیادہ تر ممالک میں انتخابی عرصے کے لیے الیکشن کمیشن کو احتساب اور نگرانی کے اضافی اختیارات ضروری سمجھے جاتے ہیں۔
مزید پڑھیے: ’وزیرِِاعظم زرداری سننے میں عجیب ضرور، مگر ناممکن نہیں!‘
ہندوستانی حکومت بھی انتخابی عرصے میں ایسے ہی ایک سخت ضابطہءِ اخلاق کے تحت کام کرتی ہے جس کی نگرانی الیکشن کمیشن آف انڈیا کرتا ہے۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا، بنگلہ دیش بھی اپنے نارمل طریقہ کار کی جانب لوٹ چکا ہے۔ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور کینیڈا نے بھی اپنے اپنے نگراں کنونشن بنائے ہیں جو کہ ضابطہءِ اخلاق کا دوسرا نام ہے۔
جب الیکشن کمیشن کامیابی سے 2018ء کے عام انتخابات کروا کر اپنی ساکھ کو مزید بہتر بنا لے، تو نئی قومی اسمبلی کو سینیٹ کے ساتھ مل کر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ آیا ہمیں واقعی 2 سے 3 ماہ کے لیے غیر منتخب نگراں حکومت کی تلاش اور تعیناتی کے لیے اتنی تگ و دو کرنی چاہیے؟
یہ مضمون ڈان اخبار میں 28 مئی 2018 کو شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں