فہمیدہ مرزا کا آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ
بدین: سابق اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں اپنے حلقے سے آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لیں گی۔
ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کا کہنا تھا کہ انہیں دیگر سیاسی جماعتوں میں شمولیت کے پیغامات موصول ہو رہے ہیں، تاہم انہوں نے اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لینے کے فیصلے سے ان سیاسی جماعتوں کے قائدین کو آگاہ کردیا۔
اپنے بیٹے بیرسٹر حسنین مرزا کی جانب سے ڈان کو دیے گئے اپنے ایک بیان میں ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کا کہنا تھا کہ وہ الیکشن سے متعلق شرائط و ضوابط (ٹی او آرز) ترتیب دے رہی ہیں، جنہیں دیگر سیاسی جماعتوں کو ارسال کردیا گیا ہے۔
بیرسٹر حسنین مرزا کی جانب سے بتایا گیا کہ ان شرائط و ضوابط میں بدین سمیت صوبے کے دیگر اضلاع میں پینے کے پانی اور اسکولوں کی ابتر صورتحال اور کرپشن شامل ہیں، جنہیں میڈیا کے سامنے بھی لایا جائے گا۔
مزید پڑھیں: پیپلزپارٹی سے منسوب ‘کرپشن’ انتخابات میں شکست کی وجہ
تاہم انہیں نے یہ نہیں بتایا کہ کیا یہ ٹی او آرز پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی قیادت کو بھی ارسال کی جائیں گی؟
فہمیدہ مرزا کا کہنا تھا کہ پی پی پی حکومت نے اپنے پانچ سالہ دورِ اقتدار میں اہم عہدوں پر کرپٹ لوگوں کو تعینات کیا جس کی وجہ سے ضلع بدین کھنڈر میں تبدیل ہوگیا۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ کچھ سرکاری عہدیدار گزشتہ بلدیاتی الیکشن میں دھاندلی کرنے کے لیے بھی استعمال کیے گئے تھے۔
ایک سوال کے جواب میں سابقہ اسپیکر قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ اگر ان کے شرائط و ضوابط کو ان سیاسی جماعتوں کی جانب سے قبول نہیں کیا جاتا تو پھر ایسے میں وہ آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیں گی۔
یہ بھی پڑھیں: کرپشن کے خلاف ستّر سالہ طویل 'جنگ' پر ایک نظر
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے لاکھوں حامیوں نے ان کے اس فیصلے کو سراہا ہے اور وہ اپنے حامیوں کو کبھی بھی مایوس نہیں کریں گی۔
ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کا کہنا تھا کہ بدین اور سندھ بھر میں پینے کے پانی اور کرپشن نے علاقے کو فاقہ کشی پر مجبور کردیا۔
خیال رہے کہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے بدین میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ پیپلز پارٹی کو الیکشن میں ٹکٹ کے لیے درخواست نہیں دیں گی۔
ادھر پیپلز پارٹی کے رہنما گل محمد جاکھرانی کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے دروازے مرزا خاندان پر بند کیے جاچکے ہیں، اب پی پی پی قیادت نہ ہی ان سے خوفزدہ ہے اور نہ ہی پارٹی انہیں دوبارہ قبول کرنے کے حوالے سے سوچ رہی ہے۔