• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

2018ء کے انتخابات ’الیکٹیبلز‘ کے لیے مشکل ثابت کیوں ہوسکتے ہیں؟

شائع May 19, 2018
لکھاری الیکشن اور گورننس میں دلچسپی رکھنے والے آزاد محقق ہیں
لکھاری الیکشن اور گورننس میں دلچسپی رکھنے والے آزاد محقق ہیں

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے شریک چئیرمین آصف زرداری نے حال ہی میں کہا ہے کہ عام انتخابات میں جیتنے والے آزاد امیدوار اگلی حکومت کے قیام میں اہم کردار ادا کریں گے۔ نظریاتی طور پر دیکھیں تو یہ بات اس وقت درست ہوگی جب 2018ء میں مینڈیٹ بڑی جماعتوں کے درمیان متوازن طور پر تقسیم ہو، بے مثال تعداد میں آزاد امیدوار جیتیں اور پھر ان کی اکثریت جیتنے والی سیاسی جماعت میں سے کسی ایک میں شامل ہوجائے۔

یہ سب مفروضے ہیں اور سب ایک چیز کے گرد گھومتے ہیں، اور وہ ہے الیکٹیبلز، یعنی قابلِ انتخاب افراد اور جماعتوں کے درمیان تعلقات۔ چنانچہ سوال یہ ہے کہ ایک الیکٹیبل کب اور کیسے یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اسے کسی جماعت کے پلیٹ فارم کے بجائے آزاد حیثیت میں انتخاب لڑنا ہے؟

ہمارے انتخابی نظام میں کامیاب آزاد امیدواروں کو ابتدائی نتائج کے اعلان کے بعد کسی بھی جماعت میں شمولیت کی اجازت ہوتی ہے۔ حیرت کی بات نہیں کہ وہ اس جماعت میں شامل ہوتے ہیں جو حکومت بنانے والی ہوتی ہے۔ 2013ء میں آزاد امیدوار (فاٹا کو چھوڑ کر) 22 حلقوں میں کامیاب ہوئے جن میں سے صرف 3 کے علاوہ باقی سب نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی۔ 2008ء میں جیتنے والے 19 کامیاب آزاد امیدواروں میں سے 9 نے پی پی پی میں جبکہ 2002ء میں 18 میں سے 16 کامیاب آزاد امیدواروں نے مسلم لیگ (ق) میں شمولیت اختیار کی۔

پڑھیے: الیکشن قریب آتے ہی پارٹیاں بدلنے کی حقیقی وجہ؟

اکثریتی جماعتوں کے لیے یہ رحمت ثابت ہوتے ہیں کیوں کہ اس سے نہ صرف جماعت کی نشستوں میں اضافہ ہوجاتا ہے، بلکہ اسے ملنے والی مخصوص نشستوں کی تعداد بھی بڑھ جاتی ہے۔ ہر 9 عمومی نشستیں جیتنے پر ایک جماعت کو خواتین کے لیے 2 مخصوص نشستیں ملتی ہیں۔ چنانچہ 2013ء میں جب 19 کامیاب آزاد امیدواروں نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی، تو جماعت کو خواتین کے لیے مخصوص 4 نشستیں اور مل گئیں اور یوں اس کی نشستوں کی تعداد میں کُل 23 نشستوں کا اضافہ ہوگیا۔

گزشتہ 2 انتخابات میں کامیاب آزاد امیدواروں نے صرف اس جماعت کو مضبوط کرنے کا کام کیا ہے جس کے پاس پہلے سے ہی حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ نشستیں موجود تھیں۔ مگر 2002ء میں اگر آزاد امیدوار مسلم لیگ (ق) میں شامل نہ ہوتے تو جماعت کو اکثریت حاصل نہ ہوپاتی۔ تو کیا کامیاب آزاد امیدوار 2018ء میں وہی فیصلہ کن کردار ادا کریں گے جیسا کہ زرداری صاحب سمجھ رہے ہیں؟

2013ء میں آزاد امیدوار قومی اسمبلی کے ہر پانچویں حلقے میں یا تو فاتح تھے یا پھر دوسرے نمبر پر۔ حقیقی اعداد و شمار میں 2013ء میں ایسے 56 حلقے تھے اور اس سے پہلے کے 2 انتخابات میں بالترتیب 46 اور 40۔ مگر اس اہم موجودگی کے باوجود حلقوں، الیکٹیبلز اور آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑنے کے ان کے فیصلے کے درمیان کوئی واضح تعلق موجود نہیں ہے۔

آئیں کچھ حقائق کا جائزہ لیں: صرف 2 ایسے حلقے ہیں جنہوں نے گزشتہ 3 میں سے 2 انتخابات میں ایک ہی آزاد امیدوار کو کامیابی دلوائی۔ ثمینہ بھروانہ 2002ء اور 2008ء میں این اے 90 جھنگ 5 سے آزاد امیدوار کے طور پر کامیاب ہوئیں اور علی محمد مہر انہی انتخابات میں این اے 201 گھوٹکی 2 سے آزاد امیدوار کے طور پر کامیاب ہوئے۔ مہر 2013ء میں بھی کامیاب ہوئے مگر پی پی پی کے ٹکٹ پر، جبکہ بھروانہ 2013ء میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر انتخابات ہار گئیں۔ اس کے علاوہ قومی اسمبلی کی صرف 4 دیگر نشستیں ایسی ہیں جنہوں نے گزشتہ 3 میں سے 2 انتخابات میں آزاد امیدوار کو جتوایا، مگر ہر دفعہ کامیاب امیدوار پہلے سے مختلف تھا۔

چنانچہ یہ واضح ہے کہ شاید ہی ایسے کوئی حلقے ہیں جنہیں آزاد امیدواروں کو جتوانے کی 'عادت' ہے، اور ایسے کوئی بھی الیکٹیبلز نہیں ہیں، جو پارٹی سے الحاق کے بغیر یقینی طور پر انتخاب جیت سکتے ہوں۔ الیکٹیبلز آزاد امیدوار کے طور پر لڑنے یا نہ لڑنے کا فیصلہ کسی بھی انتخابات میں سیاسی ماحول کو دیکھ کر ہی کرتے ہیں۔

تو وہ یہ فیصلہ کیسے لیتے ہیں؟

ان کے لیے یہ اہم فیصلہ مضبوط عوامی تاثر (یا مقامی زبان میں 'ہوا') کی وجہ سے آسان ہوجاتا ہے کہ کون سی سیاسی جماعت اگلی حکومت بنائے گی۔ پھر وہ اس جماعت کا ٹکٹ لینے کے لیے قطار میں لگ جاتے ہیں اور صرف تب آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑتے ہیں جب انہیں وہاں سے منع کردیا جائے، چنانچہ ان کے پاس اس جماعت میں شمولیت کا راستہ اس صورت میں کھلا رہتا ہے جب ممکنہ طور پر وہ فرد اور وہ جماعت، دونوں ہی انتخابات میں کامیاب ہوجائیں۔

مزید پڑھیے: ’اسٹیبلشمنٹ لوگوں کو ایک مخصوص جماعت میں شمولیت کیلئے مجبور کررہی ہے‘

لیکن اگر ’ہوا‘ کسی مخصوص سمت میں نہ چل رہی ہو، تو الیکٹیبلز خود کو کسی مخصوص سیاسی جماعت کے ساتھ وابستہ کرنے میں ہچکچاتے ہوئے آزاد امیدوار کے طور پر لڑنے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ بظاہر موجودہ حالات میں ان کے پاس ایسا کرنے کے لیے اچھی وجوہات موجود ہیں کیوں کہ سیاسی پنڈتوں نے ایک تقسیم شدہ مینڈیٹ اور ایک معلق پارلیمنٹ کی پیشگوئی کی ہے، اور کوئی بھی الیکٹیبل شکست خوردہ جماعت کے ساتھ وابستہ نہیں ہونا چاہے گا۔

پھر کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جن پر اندرونی اختلافات کی وجہ سے جماعت کی نظرِ کرم ختم ہوچکی ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے بھی الیکٹیبلز اپنے مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی کیفیت کا شکار ہیں۔ پرانے حلقوں کے کچھ حصوں کو ملا کر نئے حلقے بنانے کی وجہ سے پچھلی بار کے کامیاب امیدوار ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں، بھلے ہی وہ ایک ہی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں۔ اب چوں کہ ان کی جماعت ان میں سے صرف ایک کو ٹکٹ دے گی، اس لیے دوسرے کو بہرحال آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑنا ہوگا۔

یہ بھی اطلاعات ہیں کہ کئی الیکٹیبلز، خاص طور پر مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والوں کو طاقت کے دوسرے مراکز بشمول اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ کچھ گارنٹیوں کے بدلے میں وفاداریاں تبدیل کرلیں۔ حکمران جماعت کی انتخابی مہم کو ختمِ نبوت کے مذہبی گروہوں کی جانب سے تشدد کا بھی خطرہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ سے جماعت کے کئی الیکٹیبلز اگلے انتخابات آزاد حیثیت میں لڑیں۔

الیکٹیبلز ماہرین کی پیشگوئیوں اور 'خفیہ مشوروں' کو اہمیت دیتے ہیں مگر وہ ’ہوا‘ کی سمت یا عوامی رجحان کے اپنے ذاتی تجزیوں کو بالکل نظرانداز نہیں کرتے۔ آزاد امیدوار کے طور پر لڑنا کبھی بھی ان کا پہلا انتخاب نہیں ہوتا، کیوں کہ 'پارٹی ووٹ' سے ہاتھ دھونا وہ خطرہ ہے جو کہ آخر میں انہیں بھاری پڑسکتا ہے۔

جانیے: نئی حلقہ بندیاں متنازع کیوں ہیں؟

2013ء میں آزاد امیدواروں کی جیتی گئی نشستوں کا اوسط مارجن 13,201 تھا جبکہ آزاد امیدواروں کے خلاف جماعتی امیدواروں کا 32,758 تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آزاد امیدواروں کے لیے جماعت کے نامزد کردہ امیدواروں کے مقابلے میں جیتنا زیادہ مشکل تھا۔ مگر 2002ء میں دونوں گروہوں کی جیت کا مارجن ایک جیسا ہی تھا۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ 2002ء میں بھلے ہی کسی الیکٹیبل نے جماعت کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا ہو یا آزاد حیثیت میں، اس سے ان کے مقابلے کی صلاحیت پر کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ مگر جب اگلے 2 انتخابات میں جماعتی سیاست مضبوط ہوئی، تو جماعت کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنے کے واضح فوائد سامنے آئے۔ اشارے یہ کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہمات اس دفعہ اور بھی زیادہ تند و تیز ہوں گی، بالخصوص پنجاب میں۔ اس کی وجہ سے جماعتوں کے ووٹ بینکس میں اضافہ ہوگا اور آزاد الیکٹیبلز کی شخصی دھاک کافی کمزور پڑجائے گی۔

چنانچہ بھلے ہی الیکٹیبلز کی ایک بڑی تعداد آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑے، یا ایسا کرنے کے لیے مجبور کردیا جائے، مگر اس کا ضروری مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ بڑی تعداد میں کامیاب بھی ہوں گے۔

اس صورتحال میں سینیٹ انتخابات میں جادو چلانے والے زرداری صاحب کے جوڑ توڑ کے ہنر اگلی حکومت بنانے میں شاید کام نہ آئیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 19 مئی 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

طاہر مہدی

لکھاری الیکشن اور گورننس میں دلچسپی رکھنے والے آزاد محقق ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر TahirMehdiZ@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

Nadeem May 20, 2018 12:38am
Sir jee, just wait until 31 May, I think, A new issue will raise and N-Leaugue might be going to boycott election ( will face same situation happened to ppp and anp in 2013).
Sid May 21, 2018 08:23pm
Nothing can prevent N League from loosing next election. Zardari already had Senate, Sindh and Baluchistan in his pocket. He will get share in centre and Punjab too. Mark my words.

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024