آصف زرادری کا نواز شریف سے مذاکرات کا عندیہ
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی ٹی آئی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اپنے موقف میں نرمی کرتے ہوئے سبکدوش ہونے والے وزیراعظم نوازشریف سے بات چیت کا امکان ظاہر کردیا۔
آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ اگر نواز شریف اپنے ذرائع آمدن ظاہر کردیں تو ان سے مذاکرات کیے جاسکتے ہیں۔
لاہور میں پیپلز پارٹی کے مقامی رہنما عزیزالرحمٰن کی جانب سے منعقدہ افطار عشائیے میں گفتگو کرتے ہوئے آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ شریف قیادت سے مذاکرات ہوسکتے ہیں لیکن پہلے انہیں یہ بتانا ہوگا کہ جب ان کا خاندان تقسیم کے بعد خالی ہاتھ پاکستان آیا تھا تو انہوں نے یہ اثاثے کیسے بنائے، جب وہ ہجرت کر کے آئے تو اپنے ہمراہ کیا لائے تھے اور اب ان کے پاس کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کے ساتھ جنت میں بھی نہیں جانا، آصف علی زرداری
واضح رہے کہ اس سے قبل آصف علی زرداری، نواز شریف کی جانب سے جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں مذاکرات کے لیے مل کر بیٹھنے کی تمام کوششوں کو نظر انداز کرتے رہے ہیں۔
آصف علی زرداری نے الزام لگایا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) 30 سال تک اسٹیبلشمنٹ سے ساز باز کرتی رہی اور اب جب کہ نوازشریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے تو انہوں نے اسٹیبلشمنٹ مخالف رویہ اپنا لیا ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے چھانگا مانگا کی سیاست متعارف کروائی۔
مزید پڑھیں: کیا آصف زرداری اتنے بھولے تھے جو میرے بہکاوے میں آگئے؟نواز شریف
خیال رہے چھانگا مانگا سیاست سے آصف علی زرداری کی مراد 80 اور 90 کی دہائی میں ہونے والی ہارس ٹریڈنگ تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ طاقت حاصل کرنے کے شوق میں نواز شریف اپنے ملک سے وفادار رہنا بھی بھول گئے، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سیاستدان طاقت کے حصول میں ملک کو دھوکا دیتے ہیں، ’ملک، اقتدار سے کہیں زیادہ اہم ہے‘۔
اس موقع پر آصف علی زرداری کا مزید کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس دوبارہ کھولنے کا صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ کے فیصلے سے منسلک ہے، اس ضمن میں سپریم کورٹ پر زور دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے کا ترجیحی بنیادوں پر فیصلہ سنائے۔
یہ بھی پڑھیں: ‘شکریہ آصف زرداری، ہمیں آپ سے سیاسی اتحاد کی خواہش نہیں‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ کیس دوبارہ شروع کیے جانے کا مقصد کسی کو سزا دلوانا نہیں بلکہ قصور وار کو ماضی کی غلطیاں یاد کرانا اور انہیں معاف کرنا ہے کیونکہ جو اس میں ملوث تھے وہ پہلے ہی اس دنیا سے کوچ کرچکے ہیں۔
یہ خبر ڈان اخبار میں 18 مئی 2018 کو شائع ہوئی