• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am

جمشید دستی کی نا اہلی کے لیے دائر درخواست پر فریقین سے جواب طلب

شائع May 17, 2018 اپ ڈیٹ May 23, 2018

لاہور ہائی کورٹ میں پنجاب کے جنوبی علاقے سے رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کی نااہلی کے لیے دائر درخواست پر عدالت نے فریقین سے جواب طلب کرلیا۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن نے مظفر گڑھ کے حلقہ این اے 178 کے ووٹر فاروق احمد خان کی جمشید دستی کی نا اہلی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کی۔

جمشید دستی کے وکیل نے جواب جمع کروانے کے لیے عدالت عالیہ 25 مئی تک کی مہلت مانگ لی جبکہ عدالت نے الیکشن کمشن آف پاکستان سے بھی 25 مئی تک جواب طلب کر لیا۔

مزید پڑھیں: جمشید دستی کی رکنیت معطل کرنے کی درخواست

عدالت عالیہ میں دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے والی ہیں، جمشید دستی کی نااہلی کے لیے درخواست پر جلد فیصلہ دیا جائے۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ جمشید دستی نے حقائق چھپائے اور رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔

درخواست گزار نے عدالت سے جمشید دستی کے خلاف آرٹیکل 62 اور 63 کے حوالے سے کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ صادق اور امین نہیں رہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت عظمی کے فیصلوں کے مطابق جمشید دستی ایم این اے منتخب ہونے کے اہل نہیں ہیں اور استدعا کی گئی کہ جمشید دستی کو نااہل قرار دینے کا حکم دیا جائے۔

خیال رہے کہ 4 جون 2014 کو قومی اسمبلی میں بدھ کو اس وقت انتہائی دلچسپ صورت حال پیدا ہوگئی تھی جب 200 سے زائد ارکان اسمبلی نے ایوان زیریں سے جمشید دستی کی رکنیت معطل کرنے کی تحریک استحقاق جمع کرائی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: نہر کا پانی کھولنے پر جمشید دستی کی گرفتاری اور 14 روزہ ریمانڈ

سیکریٹریٹ میں جمع کرائی درخواست پر تمام جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ نے جمشید دستی کے خلاف درخواست پر دستخط کیے تھے۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ جمشید دستی نے پارلیمنٹ لاجز میں غیر اخلاقی سرگرمیوں کا الزام عائد کر کے خواتین ارکان اسمبلی سمیت تمام پارلیمنٹیرین کی توہین کی۔

2014 کے آغاز میں جمشید دستی نے پارلیمنٹ لاجز میں غیر اخلاقی محافل، شراب نوشی سمیت دیگر سنگین الزامات عائد کیے تھے اور دعویٰ کیا تھا کہ ان الزامات کو ثابت کرنے کے لیے ان کے پاس بطور ثبوت ویڈیو بھی موجود ہیں لیکن وہ کوئی بھی ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024