’نواز شریف ملکی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکے ہیں‘
ممبئی حملوں سے متعلق نواز شریف کے بیان پر سابق صدر پاکستان اور آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل) کے چیئرمین جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنا ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ممبئی حملوں میں پاکستان نہ تو ملوث تھا اور نہ ہی میں اس حوالے سے ایسی بات کرنے کے بارے میں کوئی سوچ سکتا ہے۔
اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ’نواز شریف نے اس حوالے سے میڈیا سے بات کرتے ہوئے میرا حوالہ دے کر خواہ مخواہ مجھے اپنے ساتھ گھسیٹنے کی مذموم کوشش کی ہے‘۔
انہوں نے نواز شریف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس ضمن میں نوازشریف کی طرف سے میرا نام لینا انتہائی مضحکہ خیز بات ہے۔
جنرل (ر) پرویز مشرف نے کہا کہ نواز شریف بھارت کے ترجمان بن چکے ہیں، انہوں نے ملک سے غداری کا ارتکاب کیا ہے، وہ ملکی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔
سابق صدر نے کہا کہ انہوں نے ساری زندگی ملک کی خدمت کی ہے، آج بھی ملک سے باہر رہتے ہوئے دنیا کے ہر پلیٹ فارم پر پاکستان کا دفاع کرتے ہیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ سابق صدر کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔
نواز شریف کو جو بیان نہیں دینا چاہیے تھا وہ دے دیا، مولانا فضل الرحمٰن
ادھر لاہور میں متحدہ مجلسِ عمل (ایم ایم اے) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف 3 مرتبہ وزیراعظم رہے، ان کے بیان کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ سابق وزیرِاعظم نواز شریف کے بیان کی تحقیقات ہونی چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے حساس موضوع جن سے ملک کی سیکیورٹی کو خطرات لاحق ہوں، ان پر بیان نہیں دینا چاہیے۔ مولانا فضل الرحمٰن کا مزید کہنا تھا کہ جو بیان نہیں دینا چاہیے تھا نواز شریف نے وہ دے دیا۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے آئندہ انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا راستہ کھلا رکھا ہے۔
ممبئی حملوں سے متعلق نواز شریف کا بیان اور اپوزیشن کا ردِ عمل
یاد رہے کہ نواز شریف نے ممبئی حملوں پر راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں دائر مقدمے کے حوالے سے کہا تھا کہ اس مقدمے کی کارروائی ابھی تک مکمل کیوں نہیں ہوسکی؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ عسکری تنظیمیں اب تک متحرک ہیں جنھیں غیر ریاستی عناصر کہا جاتا ہے، مجھے سمجھائیں کہ کیا ہمیں ان کو اس بات کی اجازت دینی چاہیے کہ سرحد پار جا کر ممبئی میں 150 لوگوں کو قتل کردیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ عمل ناقابل قبول ہے یہی وجہ ہے جس کی وجہ سے ہمیں مشکلات کا سامنا ہے، یہ بات روسی صدر ولادی میر پیوٹن اور چینی صدر ژی جنگ نے بھی کہی۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس بیان کو غداری سے منسوب کرتے ہوئے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا۔
دوسری جانب سے مسلم لیگ (ن) کے ترجمان نے وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارٹی قائد کے بیان کو بھارتی میڈیا نے توڑ مروڑ کر پیش کیا اور بدقسمتی سے پاکستان الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کے ایک حلقے نے بھارتی پروپیگنڈے کی توثیق کردی۔
قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس، ممبئی حملوں سے متعلق بیان بے بنیاد قرار
خیال رہے کہ پاک فوج کی ‘تجاویز’ پر ممبئی حملوں کے حوالے سے میڈیا میں 'گمراہ کن' بیانات پر مشاورت کے لیے 14 مئی کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا تھا۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے ٹوئٹر میں جاری بیان میں کہا تھا کہ ‘میڈیا میں ممبئی حملوں کے حوالے سے چلنے والے گمراہ کن بیان پر مشاورت کے لیے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں پیر کی صبح قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانے کی تجویز دی گئی تھی’۔
میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے کسی میڈیا کے بیان کا ذکر نہیں کیا گیا ہے تاہم یہ تجویز سابق وزیراعظم نواز شریف کے ڈان کو ایک انٹرویو میں ممبئی حملوں پر دیئے گئے بیان پر میڈیا میں ایک نیا تنازع کھڑا ہوا ہے۔
14 مئی کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں سابق وزیرِاعظم نواز شریف کی جانب سے ممبئی حملوں سے متعلق بیان کو متفقہ طور پر گمراہ کن اور بے بنیاد قرار دیا گیا تھا۔
اعلامیے کے مطابق شرکا نے الزامات کو متفقہ طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیرِاعظم کے بیان سے جو رائے پیدا ہوئی ہے وہ حقائق کے بالکل برعکس ہے۔