پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا بینچ ٹوٹ گیا
اسلام آباد کی خصوصی عدالت کے سابق سربراہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے سابق صدر اور آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل) کے سربراہ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت سے معذرت کرلی۔
خصوصی عدالت کے جج کی سماعت سے معذرت کے بعد پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا بنچ ٹوٹ گیا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے پرویز مشرف کی درخواست پر علیحدگی اختیار کی جس کے بعد عدالت سے جاری ہونے والے حکم نامہ میں کہا گیا کہ پرویز مشرف کی جانب سے جسٹس یحییٰ آفریدی پر جانبداری کا الزام لگایا گیا ہے اور اعتراض لگایا گیا کہ وہ جسٹس افتخار چوہدری کے وکیل رہ چکے ہیں۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ ملزم کا الزام حقائق کے برعکس ہے، جسٹس یحییٰ آفریدی کبھی افتخار چوہدری کے وکیل نہیں رہے۔
حکم نامے میں لکھا گیا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے 3 نومبر 2007 کے پرویز مشرف کے ایمرجنسی نفاذ کے اقدام کے خلاف بطور وکیل درخواست دائر کی تھی۔
مزید پڑھیں: خصوصی عدالت کا پرویز مشرف کا شناختی کارڈ،پاسپورٹ معطل کرنے کا حکم
سماعت سے معذرت کے حوالے سے بتایا گیا کہ انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جسٹس یحییٰ آفریدی نے بینچ سے علیحدگی اختیار کی ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ پرویز مشرف کو انٹر پول کے زریعے پاکستان لانے کا 8 مارچ کا حکم الگ درخواست کے زریعے واپس ہوسکتا ہے۔
خیال رہے کہ خصوصی عدالت کا 3 رکنی بینچ جسٹس یحیٰ آفریدی کی سربراہی میں جسٹس یاور علی اور جسٹس طاہرہ صفدر پر مشتمل ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ 16 مارچ کی سماعت کے دوران عدالت نے کارروائی کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزارت داخلہ پرویز مشرف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ معطل کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے۔
عدالت نے حکم دیا تھا کہ پرویز مشرف کی سیکیورٹی کے لیے وزارت داخلہ کو درخواست دیں، بصورت دیگر حکومت پرویز مشرف کا پاسپورٹ منسوخ کرکے انہیں انٹرپول کے ذریعے پاکستان لانے کے لیے اقدامات اٹھائے اور ان کی جائیداد ضبط کیے جانے کے حوالے سے آئندہ سماعت پر رپورٹ بھی عدالت میں جمع کرائے۔
یہ بھی پڑھیں: پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس، درخواست سماعت کے لیے مقرر
واضح رہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے جون 2014 میں مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا تھا جس پر وفاقی حکومت نے فیصلہ معطل کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
وفاق کی درخواست پر 23 جون 2014 کو سپریم کورٹ نے فیصلہ ہونے تک سندھ ہائی کورٹ کا حکم معطل کردیا تھا۔
یاد رہے کہ وزارت داخلہ نے 5 اپریل 2013 کو پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالا تھا، جس پر پرویز مشرف نے 6 مئی 2014 کو اپنا نام ای سی ایل سے نکلوانے کے لئے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
مزید پڑھیں: غداری کیس: مشرف کی جائیداد ضبط کرنے کا حکم
جس کے بعد 17 مارچ 2016 کو حکومت نے پرویز مشرف کا ای سی ایل سے نکالنے کا اعلان کرتے ہوئے انھیں علاج کے کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی۔
بعد ازاں 19 جولائی 2016 کو اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے غداری کیس میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی جائیداد ضبط اور بینک اکاؤنٹس منجمدکرنےکا حکم دیا تھا۔
خصوصی عدالت کے 3رکنی بینچ نے سابق صدر کی گرفتاری تک کیس کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملزم کی حاضری کے بغیر مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا اور قانون کے مطابق ملزم کا غیر حاضری پر ٹرائل نہیں ہوسکتا۔
بعد ازاں 8 مارچ کو پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کی درخواست کو اسلام آباد کی خصوصی عدالت میں سماعت کے لیے مقرر کردیا گیا تھا۔