پشاور زلمی نے ثابت کر دیا کہ وہ ابھی زندہ ہیں
دفاعی چیمپیئن پشاور زلمی کے لیے پاکستان سپر لیگ کا تیسرا سیزن اب تک بہت نشیب و فراز کا حامل رہا ہے۔ پہلے مقابلے میں کراری شکست کھانے سے لے کر اپنے آخری میچ میں کراچی کنگز کے خلاف ایک جامع کامیابی تک، سیمی الیون نے بہت سرد و گرم سہہ لیے ہیں۔
اب سب کی نظریں ہیں اُن کے اگلے مقابلے پر کہ جہاں وہ لاہور قلندرز کا سامنا کریں گے۔ مسلسل 3 کامیابیوں کے ذریعے قلندرز کئی ٹیموں کی پیشرفت خراب کرچکے ہیں اور وہ ضرور چاہیں گے کہ جاتے جاتے دفاعی چیمپیئن کے رنگ میں بھی بھنگ ڈال جائیں۔
پشاور زلمی بلاشبہ پاکستان سپر لیگ کے پہلے سیزن سے اب تک مقبول ترین ٹیم ہے۔ یہاں تک کہ تیسرے سیزن میں شاہد آفریدی کی کراچی کنگز منتقلی سے بھی زلمی کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ لیکن ابتداء ہی سے اہم کھلاڑیوں سے محرومی، درمیان میں کپتان کے زخمی ہونے سے لے کر اب جبکہ کئی ٹیموں کو بہترین کھلاڑیوں کی صورت میں تازہ خون ملا ہے، لیکن پشاور اس سے محروم ہے۔
مگر اتنی اونچ نیچ کے باوجود کراچی کنگز کے خلاف مقابلے نے اُمیدوں کے چراغ روشن کردیے ہیں۔
پشاور زلمی سیزن کے افتتاحی مقابلے میں ملتان سلطانز کے خلاف 152 رنز کا دفاع بھی نہیں کر پایا تھا البتہ اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف 176 رنز بنا کر ایک شاندار کامیابی ضرور حاصل کی۔ کراچی کنگز کے خلاف راؤنڈ رابن مرحلے کے پہلے مقابلے میں شکست کھائی لیکن ایک یادگار مقابلے میں کپتان ڈیرن سیمی نے انہیں اپنے روایتی حریف کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف کامیابی دلائی۔
پھر لاہور قلندرز کو شکست دے کر پشاور نے اپنے امکانات کافی بڑھا لیے تھے لیکن پھر بُرا وقت آن پہنچا۔ یکے بعد دیگرے ملتان، اسلام آباد اور کوئٹہ کے ہاتھوں شکستوں نے پشاور کو بے حال کردیا۔ ٹی ٹوئنٹی جیسے تیز کھیل میں جہاں ایک سے دو اوور ہی حالات کا نقشہ بدلنے کے لیے کافی ہوتے ہیں، وہاں مسلسل 3 شکستیں کسی کو بھی باہر کرسکتی ہیں۔ اس صورت حال میں کراچی کے خلاف شکست پشاور کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتی تھی لیکن زلمی نے اوسان بحال رکھے اور ایک جاندار پرفارمنس دے کر اپنی مہم کو دوبارہ زندہ کردیا ہے۔
کراچی کے خلاف مقابلے کی خاص بات تھی کامران اکمل کی طوفانی اننگز، جو اس میچ میں وکٹ کیپر نہیں بلکہ صرف بلّے باز کی حیثیت سے کھیلے تھے۔ 51 گیندوں پر 75 رنز کی اننگز میں وہ سب کچھ تھا، جس کی پشاوریوں کو ’کامی‘ سے توقع تھی۔ 6 چھکے، 3 چوکے اور کراچی کی اسپن طاقت کے خلاف تابڑ توڑ حملے۔
پڑھیے: پشاور زلمی، بروقت رفتار پکڑتے ہوئے!
13ویں اوور تک تو ایسا کچھ خاص نہیں تھا لیکن شاہد آفریدی کے ایک ہی اوور نے کھیل کا جھکاؤ پشاور کی طرف کرنا شروع کردیا۔ 82 رنز پر پشاور کے 3 کھلاڑی آؤٹ تھے جب کامران اکمل نے سب سے خطرناک باؤلر شاہد آفریدی کو آڑے ہاتھوں لینے کا فیصلہ کیا اور 14ویں اوور کی پہلی دونوں گیندیں چھکے کے لیے روانہ کردیں۔
ان کو دیکھ کر دوسرے کنارے پر کھڑے سعد نسیم نے بھی حوصلہ پکڑا اور آخری گیند پر انہوں نے بھی چھکا رسید کردیا، یوں ’لالا‘ کے ایک اوور میں 21 رنز ملے۔ اگلے اوور میں بھی کامران نے ایک چھکا مزید لگایا اور مزید کی کوشش میں عثمان شنواری کے ہاتھوں آؤٹ ہوگئے۔ لیکن جس گیئر میں وہ اننگز کو ڈال گئے تھے، اس کے مطابق پشاور آخر تک رنز بناتا رہا۔
آخری 7 اوورز میں پشاور نے اسکور میں 99 رنز کا اضافہ کیا جس میں محمد عرفان جونیئر کے ایک اوور میں لگائے گئے 28 رنز بھی شامل تھے۔ سیمی نے انہیں مسلسل 3 گیندوں پر 3 چھکے لگائے تھے۔ سعد نسیم نے بھی بہت عمدہ کھیل پیش کیا، انہوں نے محمد عامر جیسے باؤلر کو مسلسل 3 گیندوں پر چوکے لگائے اور میچ کے لیے اپنے انتخاب کو درست ثابت کر دکھایا۔
کراچی کے خلاف پشاور کے باؤلرز کی کارکردگی بھی بہت عمدہ رہی۔ ایون مورگن کی آمد سے کراچی کی بیٹنگ لائن بہت مضبوط نظر آرہی تھی لیکن حسن علی اور وہاب ریاض نے مورگن تو کجا، جو ڈینلی اور کولن انگرام کی بھی ایک نہ چلنے دی۔
مؤخر الذکر دونوں بیٹسمین صفر پر آؤٹ ہوئے جبکہ مورگن نے صرف 5 رنز بنائے۔ باقی مڈل آرڈر پر لیام ڈاسن نے ہاتھ صاف کردیا۔ سوائے بابر اعظم کے کراچی کا کوئی بلّے باز پشاوری باؤلرز کا ٹک کر مقابلہ نہیں کر پایا۔ شاہد آفریدی بھی محض 4 گیندوں پر 4 چھکے ہی لگا پائے اور ڈاسن کا تیسرا شکار بنے۔
اگرچہ اس وقت تک پشاور زلمی کے لیے سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے، لیکن اس سب کچھ ٹھیک کے باوجود بھی میں سوچتا ہوں کہ اگر آج زلمی کو ڈیون براوو کی سہولت میسر ہوتی تو اس ٹیم کو ہرانا ناممکن حد تک مشکل ہوسکتا ہے۔ ممکن ہے بہت سے قارئین یہ سوچ رہے ہوں کہ اچانک براوو کا ذکر کیسے آگیا، لیکن یہ ذکر اچانک نہیں ہے بلکہ یہ وہ غیر ملکی کھلاڑی ہیں جنہیں پشاور نے ڈرافٹ میں سب سے پہلے منتخب کیا تھا۔ سب سے پہلے منتخب کرنے کا فیصلہ محض اتفاق نہیں تھا، بلکہ ٹیم انتظامیہ جانتی تھی کہ یہ کھلاڑی کبھی بھی کچھ بھی کرنے کی پوری پوری صلاحیت رکھتا ہے۔
لیکن چلیے، جو نہ آسکا اُس کے ذکر سے بہتر یہ ہے کہ جو موجود ہیں ان کر اعتماد دیا جائے۔ لہٰذا اب پشاور زلمی کے لیے سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ ملتان سلطانز کے مقابلے میں اُن کا نصیب ان کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ اس وقت پوائنٹس ٹیبل پر اسلام آباد اور کوئٹہ سب سے اوپر ہیں جن کے بعد کراچی اور ملتان کے 9، 9 پوائنٹس ہیں۔ پشاور اس کامیابی کے ساتھ 8 پوائنٹس تک پہنچ چکا ہے یعنی اب بھی پانچویں نمبر پر ہی ہے لیکن لاہور کے خلاف اپنے آخری مقابلے میں کامیابی جہاں پشاور کے لیے خوش خبری ہوگی، وہیں ملتان کے لیے بڑی اور کراچی کے لیے چھوٹی پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔
مزید پڑھیے: سیمی خان! کپتان ہو تو تم جیسا
ملتان کے لیے زیادہ بڑی اس لیے کہ اس کے تمام میچز ختم ہوچکے ہیں جبکہ کراچی کا ابھی ایک میچ باقی ہے جس میں وہ اسلام آباد یونائیٹڈ کا مقابلہ کرے گا۔ یعنی پشاور، کراچی اور ملتان کے درمیان اخراج سے بچنے کے لیے جدوجہد جاری ہے جو راؤنڈ رابن مرحلے کے آخری دن تک اور آخری مقابلے تک جاری رہے گی۔
پشاور کو اب ان مراحل کا سامنا ہے جہاں اسے پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا۔ کامران اکمل کا 3 میچز کی ناکامی کے بعد عمدہ اننگز کھیلنا نیک شگون ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ محمد حفیظ بھی اپنی ذمہ داری نبھائیں۔ وہ پورے سیزن میں صرف 2 بار ترنگ میں نظر آئے اور دونوں مرتبہ ملتان سلطانز کے خلاف نصف سنچریاں بنائیں۔
ڈیوین اسمتھ کامران اکمل کے بعد پشاور کے سب سے کامیاب بلے باز ہیں، ان سے مزید اچھی اننگز کی توقع رکھنی چاہیے۔ سعد نسیم کا اضافہ پشاور زلمی کے لیے بہت عمدہ ثابت ہوسکتا ہے۔ لیام ڈاسن بلے بازی میں اب تک اپنے جوہر نہیں دکھا پائے، لیکن سعد نسیم نے دراصل اُن کے حصے کا کام کر دکھایا ہے۔ باؤلنگ میں حسن علی اور وہاب ریاض بہت عمدہ کارکردگی دکھا رہے ہیں اور لیام ڈاسن ان کا بہترین ساتھ دے رہے ہیں۔
مختصر یہ کہ پشاور زلمی کو اپنے اعزاز کے دفاع کے لیے اب شکست کا لفظ اپنی لغت سے نکالنا ہوگا۔ انہیں اپنا آخری مقابلہ بھی جیتنا ہے اور اس کے بعد پلے-آف میں تو کامیابی حاصل کرنی ہی ہوگی، تبھی وہ 25 مارچ کو کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں فائنل تک پہنچے گی۔
ویسے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پشاور لاہور کو شکست دے اور اسلام آباد کراچی کو ہرا دے تو عین ممکن ہے کہ پشاور رن ریٹ کی بنیاد پر دوسرے نمبر پر آجائے اور دبئی میں ہونے والے کوالیفائر کھیلے؟
راؤنڈ رابن مرحلے کا آخری دن بھی اتنا دلچسپ ہوسکتا ہے؟ اس کا ہمیں اندازہ نہیں تھا۔