• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

پاکستان سپر لیگ آئی پی ایل سے بہتر کیوں؟

شائع February 22, 2018
صرف دو برسوں میں پاکستان سپر لیگ نے وہ اہداف حاصل کیے، جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھے۔
صرف دو برسوں میں پاکستان سپر لیگ نے وہ اہداف حاصل کیے، جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھے۔

پاکستان سُپر لیگ ایک ستارہ ہے جو پاکستان کرکٹ کے اُفق پر ہر سال چمکتا ہے، جس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ہر پاکستانی سال بھر بے تاب رہتا اور آخر کیوں نہ ہو؟ یہ اپنی لیگ جو ہے، ایسی لیگ جس نے پاکستان کرکٹ کو اُس وقت شکوک، شبہات، خدشات اور خطرات سے نکالا ہے جب امید کی کوئی کرن موجود نہیں تھی۔

پاکستان کرکٹ نے گزشتہ 8 سے 10 برسوں جیسا بُرا وقت پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ سری لنکن ٹیم پر حملہ گویا پاکستان کرکٹ پر براہ راست ضرب تھی، نتیجتاً ملک سے انٹرنیشنل کرکٹ کا خاتمہ ہوگیا اور اگر کچھ کسر رہ گئی تھی تو اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل نے پوری کردی۔

پڑوسی ملک بھارت نے بھی پاکستان کے ساتھ کھیلنے سے انکار کردیا اور یوں پاکستان کرکٹ بورڈ خسارے میں ڈوبتا چلا گیا۔ پھر بھارت کی جانب سے پاکستانی کھلاڑیوں پر بھی غیر اعلانیہ پابندی اور اس کے نتیجے میں سب سے بڑی لیگ آئی پی ایل کھیلنے سے محرومی نے کھلاڑیوں کو انفرادی سطح پر بھی سخت متاثر کیا۔

اس گرداب سے نکلنے کا راستہ کیا تھا؟ صرف ایک کہ کسی طرح پاکستان اپنی لیگ کروائے، ایسی لیگ جو کرکٹ بورڈ اور کھلاڑیوں کے مالی حالات کو بہتر بنائے، عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو بہتر کرے اور پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کی راہ ہموار کرے۔

پڑھیے: کیا پشاور زلمی اعزاز کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟

مسئلے کا حل تو معلوم تھا لیکن مراحل بہت دشوار تھے اور ابتدائی کوششوں نے ثابت بھی کیا کہ یہ بہت ٹیڑھی کھیر ہے۔ پہلی بار اعلان ہوا تو تیاری کچھ نہ ہو پائی، یہاں تک کہ دوسرے سال فرنچائز خریدنے کے لیے پورے ادارے بھی نہیں آئے اور ایک مرتبہ پھر پی ایس ایل مؤخر ہوگئی۔ اُدھر سری لنکا اور بنگلہ دیش کے ناکام تجربات سے مزید خوف بیٹھ گیا کہ کہیں ایسی ہی کہانی پاکستان میں بھی نہ دہرا دی جائے۔

2015ء میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے اعلان کیا کہ وہ اگلے سال پی ایس ایل کا پہلا سیزن متحدہ عرب امارات میں کروائے گا۔ خدشات نے سر اُٹھایا اور تب تک کھڑے رہے جب تک دبئی کے شاندار اسٹیڈیم میں افتتاحی تقریب کے ساتھ مقابلوں کا آغاز نہیں ہوگیا۔ پی ایس ایل کا سفر مسلسل کامیابیاں سمیٹ رہا ہے۔ صرف دو برسوں میں پاکستان سپر لیگ نے وہ اہداف حاصل کیے، جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھے۔

2015ء میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے اعلان کیا کہ وہ اگلے سال پی ایس ایل کا پہلا سیزن متحدہ عرب امارات میں کروائے گا—تصویر بشکریہ پی سی بی
2015ء میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے اعلان کیا کہ وہ اگلے سال پی ایس ایل کا پہلا سیزن متحدہ عرب امارات میں کروائے گا—تصویر بشکریہ پی سی بی

اپنی غیر معمولی کامیابیوں کے ساتھ پاکستان سپر لیگ نے کئی ناقدین کے منہ بند کروائے ہیں لیکن کیا اس سوال کا جواب دیا جاسکتا ہے کہ پی ایس ایل انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) سے بہتر ہے؟ اس کا سادہ سا جواب تو یہی ہے کہ جی ہاں! کئی پہلوؤں سے۔

کھلاڑیوں کے انتخاب کا بہترین طریقہ

پہلی وجہ ہے کھلاڑیوں کے انتخاب کے لیے جو نظام پاکستان سپر لیگ میں ہے وہ زیادہ اچھا ہے۔ پی ایس ایل میں کھلاڑیوں کا انتخاب ڈرافٹ سسٹم کی بنیاد پر ہوتا ہے جس میں ہر فرنچائز اپنی مخصوص کیٹیگری میں اور طے شدہ رقم کے عوض کھلاڑیوں کا انتخاب کرتی ہے۔ یوں جو ٹیمیں بنتی ہیں، وہ سب ایک دوسرے کی ٹکر کی ہوتی ہیں۔

پڑھیے: پیش گوئیاں: کونسی ٹیم پی ایس ایل فائنل تک پہنچ پائے گی؟

اس کے مقابلے میں انڈین پریمیئر لیگ میں کھلاڑیوں کی نیلامی ہوتی ہے یعنی جس کے پاس جتنا زیادہ پیسہ ہو، وہ اتنی بہتر ٹیم بناسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئی پی ایل کی تاریخ میں آپ کو صرف چند ٹیموں کی بالادستی نظر آئے گی جبکہ پی ایس ایل میں تو اِس سال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پچھلے دو سال ناکام رہنے والے کراچی کنگز اور لاہور قلندرز فائنل تک پہنچ جائیں کیونکہ کاغذ پر تو اُن کی ٹیم اتنی ہی مضبوط ہے، جتنی کہ دیگر ٹیمیں۔

بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی

پھر پاکستان سپر لیگ سے پاکستان کو جو سب سے بڑا فائدہ ہوا وہ ہے بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی۔ یہ پی ایس ایل کا وہ کارنامہ ہے جو دس آئی پی ایل ٹورنامنٹس بھی مل کر انجام نہیں دے سکتے۔

پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی 8 برسوں سے پی سی بی کی ترجیحات میں سرفہرست ہے لیکن سر توڑ کوششیں، بنگلہ دیش تک کی منتیں اور نہ جانے کون کون سے جتن کرلیے گئے، تب کہیں جاکر ایک معصوم زمبابوے ہی پاکستان آیا۔

ان کا دورہ بھی ایسا ہوا کہ کسی کو قائل نہ کرسکا کہ پاکستان اب بین الاقوامی کرکٹ کے لیے محفوظ ملک ہے۔ یوں نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہی رہا۔ مگر اس کے مقابلے میں پاکستان سپر لیگ کا صرف ایک فائنل دنیا کو قائل کرگیا۔

دوسرے سیزن کے فائنل کا لاہور میں انعقاد اتنا ہی مشکل تھا جتنا کہ اس وقت پاکستان اور بھارت کی کرکٹ کی بحالی۔ بہرحال، پی ایس ایل 2 کا فائنل لاہور میں ہوا اور پھر چند ہی مہینوں بعد انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی ورلڈ الیون نے پاکستان کا یادگار دورہ کیا۔

پھر وہی سری لنکا بھی آیا کہ جس پر 2009ء میں دہشت گردوں نے اسی شہر میں حملہ کیا تھا۔ اب اِس سال پی ایس ایل میں دو کوالیفائرز اور فائنل پاکستان میں ہوں گے بلکہ فائنل تو کراچی میں کھیلا جائے گا۔ پھر ویسٹ انڈیز کے دورۂ پاکستان کا امکان بھی ہے یعنی پی ایس ایل نے بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے پاکستان پر کھول دیے ہیں۔

بہترین نوجوان کھلاڑیوں کا حصول

یہ بات بھی یاد رکھیں کہ پاکستان کو پچھلے دو برسوں میں جو اسٹار پلیئرز ملے ہیں، وہ سب پی ایس ایل کی مرہون منت ہیں۔ حسن علی، شاداب خان، فخر زمان، محمد نواز، رمّان رئیس اور محمد اصغر جیسے نوجوان اسی پی ایس ایل میں سے سامنے آئے اور اب گاہے بگاہے پاکستان کی جانب سے جوہر دکھاتے رہتے ہیں۔

پڑھیے: پاکستان سپر لیگ سیزن تھری میں کونسی ٹیم کمزور اور کونسی مضبوط؟

کیا اس کا تصوّر بھی کیا جاسکتا ہے کہ کوئی دوسری لیگ پاکستان کرکٹ کو اتنے کھلاڑی دے سکتی ہے؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حقیقت میں پاکستان کا ڈومیسٹک ڈھانچہ بھی اتنا مضبوط نہیں کہ اس کے ذریعے اتنے کھلاڑی سامنے آ سکیں بلکہ یہ پی ایس ایل جیسا بڑا پلیٹ فارم ہی ہے جس سے کھلاڑیوں کو یکدم آگے آنے کا موقع ملتا ہے۔

اس کا کریڈٹ پی ایس ایل انتظامیہ کو بھی دینا چاہیے جس نے ڈرافٹ میں نہ صرف ایمرجنگ پلیئرز کی کیٹیگری شامل کی ہے بلکہ ہر میچ میں اس کیٹیگری سے کم از کم ایک کھلاڑی کو میچ کھلانا بھی لازمی قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتنے سارے کھلاڑیوں نے خود کو منوایا۔

پوری امید ہے کہ پاکستان سپر لیگ کا تیسرا سیزن ہر لحاظ سے نئے ریکارڈز قائم کرے گا اور کراچی میں ہونے والا تاریخی فائنل پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کی راہ میں ایک بہت بڑا سنگ میل ثابت ہوگا۔


فہد کیہر

فہد کیہر کرکٹ کے فین ہیں اور مشہور کرکٹ ویب سائٹ کرک نامہ کے بانی ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر fkehar@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024