’شہباز شریف کی پریس کانفرنس میں شرکانے ہمارے آنسوؤں پر تالیاں بجائیں‘
قصور: ریپ کے بعد قتل ہونے والی 6 سالہ بچی زینب کی والدہ نے کہا ہے کہ وزیرِاعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی پریس کانفرنس کے دوران ان کے غم اور آنسوؤں پر شرکا نے تالیاں بجائیں۔
ڈان نیوز سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے مقتولہ کی والدہ نے کہا کہ ’ملزم کو تو گرفتار کر لیا گیا لیکن چیف جسٹس آف پاکستان سے میری اپیل ہے کہ آج سے ہی اس کی سزا کا آغاز کرتے ہوئے اس کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں جن سے وہ معصوموں کے گلے دباتا رہا‘۔
انھوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے بہت افسوس ہوا ہے کہ ہم سب اپنی بچی کے غم میں تڑپ رہے ہیں اور آنسو بہا رہے ہیں لیکن پریس کانفرنس میں موجود شرکا نے اسی تڑپ اور آنسوؤں پر تالیاں بجائیں‘۔
انھوں نے سوال کیا کہ یہ ملزم گزشتہ ڈھائی برس سے بچوں کے ساتھ ریپ کے واقعات میں ملوث ہے، کیا اس کے ان ڈھائی برسوں پر تالیاں بجائی گئیں؟
مزید پڑھیں: زینب قتل: 227 افراد سے تفتیش، 64 ڈی این اے ٹیسٹ کا مشاہدہ
بعدِ ازاں زینب کے والد محمد امین نے ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’ملزم کا اعترافی بیان سامنے آچکا ہے، ملزم نے 5 دن تک بچی کو اپنے گھر میں رکھا جو ڈھائی سے تین مرلے کا ہے اور اس کا گھر ہے، جس میں 2 کمرے ہیں‘۔
محمد امین نے الزام عائد کیا کہ ملزم کے گھر والے سب کچھ جانتے تھے، جنہوں نے ملزم کو چھپائے رکھا۔
انہوں نے سوال کیا کہ ’یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص نے بچی کو اپنے اتنے چھوٹے گھر میں 5 دن تک رکھا اور بعد میں قتل کیا لیکن گھر میں موجود کسی بھی فرد نے اس کی چیخ نہیں سنی جبکہ گھر تو خواتین میں بھی ہوتی ہیں جو گھر کا سارا کام کرتی ہیں‘۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ملزم کے گھر والے بھی اس جرم میں برابر کے ملوث ہیں انہیں بھی اس قتل میں شامل تفتیش کیا جانا چاہیے۔
خیال رہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے پریس کانفرنس کے دوران زینب کے والد کی بات کاٹ دی تھی اور اچانک مائک بند کردیا تھا جبکہ وہ اس سے قبل خود صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیے رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: زینب قتل کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے سربراہ تبدیل
پریس کانفرنس کے دوران ہی مجرموں کو پکڑنے پر وہاں موجود شرکاء نے تالیاں بھی بجائی تھیں۔
زینب کے والد نے ڈان نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب پر زبردستی مائک بند کرنے کا الزام عائد کیا۔
انہوں نے بتایا کہ وہ جیسے ہی اپنے مطالبات بتانے والے تھے تو اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب نے ان کے سامنے موجود دونوں مائیکس بند کر دیئے تھے۔
یاد رہے کہ سوشل میڈیا پر ایک اور ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ رانا ثنا اللہ مقتولہ کے والد محمد امین سے صرف ملزم کو سرِ عام پھانسی کے مطالبے تک محدود رہنے کا کہہ رہے ہیں جبکہ انہیں دیگر مطالبات کو میڈیا کے سامنے لانے سے روک رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: زینب قتل کیس کا ’ملزم‘ ڈی این اے ٹیسٹ میں بے قصور ثابت
دوسری جانب وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے پریس کانفرنس میں تالیاں بجانے کے معاملے پر کہا کہ ’زینب کے قاتل کو قانون کی گرفت میں لانے والے اہلکاروں کے لیے تالیاں بجائی گئیں، عاصمہ کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے گا تو اس کے لیے بھی ہم تالیاں بجائیں گے‘۔
قصور میں 6 سالہ زینب کا قتل
صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں 4 جنوری کو 6 سالہ بچی زینب کو اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔
جس وقت زینب کو اغوا کیا گیا اس وقت اس کے والدین عمرے کی ادائیگی کے سلسلے میں سعودی عرب میں تھے جبکہ اہل خانہ کی جانب سے زینب کے اغوا سے متعلق مقدمہ بھی درج کرایا گیا تھا لیکن پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔
5 روز بعد 9 جنوری کو ضلع قصور میں شہباز خان روڈ پر ایک کچرے کے ڈھیر سے زینب کی لاش ملی تو ابتدائی طور پر پولیس کا کہنا تھا کہ بچی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا۔
بعد ازاں پولیس کی جانب سے بچی کا پوسٹ مارٹم بھی کرایا گیا تھا، جس کے بعد لاش کو ورثا کے حوالے کردیا گیا تھا تاہم یہ بھی اطلاعات تھی کہ بچی کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: زینب قتل کیس: 'فوج کی نگرانی میں جے آئی ٹی بنائی جائے'
اس واقعے میں شدت اس وقت دیکھنے میں آئی جب اہل علاقہ نے مشتعل ہو کر ڈی پی او آفس پر دھاوا بول دیا اور دروازہ توڑ کر دفتر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔
اس موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی تھی جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
10 جنوری کو بچی کے والدین عمرے کی ادائیگی کے بعد پاکستان پہنچے اور انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے ننھی زینب کے قاتلوں کو گرفتار کرکے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی۔
بعد ازاں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے گھر کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندان سے ملاقات کر کے مجرموں کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی تھی۔
علاوہ ازیں لاہور ہائی کورٹ نے واقعے کا از خود نوٹس لیا اور پولیس حکام کو طلب کیا تاہم ایک روز بعد ہی سپریم کورٹ نے زینب قتل کا از خود نوٹس لیا اور لاہور ہائی کورٹ کو کیس کی سماعت سے روز دیا تھا۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے ہمراہ کیس کی سماعت کے لیے بینچ میں جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن بھی شامل ہیں۔
تبصرے (5) بند ہیں