زینب قتل: نئی فوٹیج سے مجرم کو پکڑنے کا عمل متاثر ہونے کا خدشہ
صوبہ پنجاب کے ضلع قصور میں قتل کی جانے والی زینب کے کیس میں نئی سی سی ٹی وی فوٹیج منظر عام پر آنے کے بعد اہل علاقہ کا کہنا ہے کہ یہ فوٹیج مجرم کو پکڑنے کے عمل کو متاثر کرسکتی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز ذرائع ابلاغ کی مختلف ویب سائٹس پر ایک نئی ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں بظاہر اغوا کار کو اس علاقے میں دیکھایا گیا تھا جہاں سے زینب اغوا ہوئی تھی۔
اہل علاقہ کے مطابق نئی ویڈیو مجرم کو پکڑنے کی کوششوں کو متاثر کرسکتی ہے کیونکہ گزشتہ ویڈیو میں جو شخص پیرو والا روڈ پر زینب کو لے جاتا ہوا دیکھا گیا وہ نئی ویڈیو میں دیکھے جانے والے شخص سے مختلف ہے، اس کے علاوہ نئی سی سی ٹی وی فوٹیج 5 بج کر 27 منٹ کی ہے جبکہ زینب کو 7 بجے کے قریب اغوا کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: زینب قتل: 227 افراد سے تفتیش، 64 ڈی این اے ٹیسٹ کا مشاہدہ
علاقہ مکینوں کا دعویٰ ہے کہ نئی ویڈیو میں مشتبہ شخص کی جسمانی حالت گزشتہ ویڈیو سے مختلف تھی، مزید یہ کہ نئے مشتبہ شخص کو جس جگہ چلتے ہوئے دیکھا گیا وہ متاثرہ بچی کے گھر سے دور ہے۔
دوسری جانب پولیس زینب کے قتل اور زیادتی کے پیچھے چھپے مجرم کا سراغ لگانے کی کوششیں کر رہی ہے، تاہم لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب پولیس عارف نواز خان کو دی گئی ڈیڈ لائن گزشتہ رات 8 بجے ختم ہوگئی تھی۔
اس کیس میں کم از کم چار ایجنسیوں کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ، انٹیلی جنس بیورو، اسپیشل برانچ اور پنجاب فارنزک سائنس ایجنسی اپنی اپنی تحقیقات کر رہی ہیں اور ہر ایجنسی نے مشتبہ افراد کو گرفتار کیا ہے۔
مقامی پولیس حکام کے مطابق تفتیش کار اس نئی ویڈیو کے بارے میں آگاہ نہیں تھے جبکہ مقامی پولیس، خفیہ ایجنسیز یا نیوز ویب سائٹس ملزم کے حوالے سے نئی ویڈیو کے ذرائع بتانے کو تیار نہیں۔
ذرائع کے مطابق مشتبہ افراد کے لیے گئے 120 ڈین این اے کے نتائج موصول ہوگئے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی ڈی این اے سیریل کلر سے میچ نہیں کرتا۔
خیال رہے کہ قصور میں دیگر بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے مقدمات کی تحقیقات کے دوران پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے 5 ہزار مشتبہ افراد سے تفتیش کی جبکہ ڈی این اے کی جانچ کے لیے 67 ٹشو کے نمونے بھیجے لیکن کوئی بھی مجرم سے میچ نہیں ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: 'زینب کے قتل کی ذمہ دار پنجاب حکومت ہے'
ادھر لاہور میں ایک اجلاس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ اور ریجنل پولیس افسر ملتان محمد ادریس نے اس کیس سے متعلق پیش رفت سے آئی جی پنجاب پولیس کو آگاہ کیا، اس موقع پر آر پی او شیخوپورہ ذوالفقار حمید، ڈی پی او قصور زاہد نواز مروت اور جے آئی ٹی کے دیگر ارکان بھی موجود تھے۔
ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ آئی جی پولیس کو مجرم کو پکڑنے کے لیے کی گئی کارروائی، ڈی این اے رپورٹ، مشتبہ افراد کی گرفتاری، سی سی ٹی وی فوٹیج اور دیگر معاملات سے آگاہ کیا گیا جبکہ آئی جی نے ہدایت کی کہ تمام مشتبہ افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا جائے۔
یہ خبر 14 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی