زینب قتل کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے سربراہ تبدیل
قصور میں قتل ہونے والی 6 سالہ بچی زینب کے والد کی درخواست کے بعد مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ( جے آئی ٹی) کے سربراہ کو تبدیل کردیا گیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز مقتول بچی زینب کے والد محمد امین نے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل ( اے آئی جی) ابو بکر خدا بخش کا جے آئی ٹی سربراہ ہونے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے اپیل کی تھی کہ انہیں تبدیل کیا جائے۔
جس کے بعد حکومت پنجاب نے ڈپٹی انسپکٹر جنرل ( ڈی آئی جی) پولیس محمد ادریس کو جے آئی ٹی کا نیا سربراہ مقرر کیا ہے اور اس حوالے سے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا۔
مزید پڑھیں: زینب قتل: 227 افراد سے تفتیش، 64 ڈی این اے ٹیسٹ کا مشاہدہ
خیال رہے کہ حکومت کی جانب سے گزشتہ روز چار سینئر افسران پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی، جس میں ریجنل پولیس افسر ( آر پی او) شیخوپورہ ذوالفقار حمید بھی شامل تھے جبکہ اس کمیٹی کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے مزید تین سینئر پولیس افسران کو بھی شامل کرلیا گیا تھا۔
زینب قتل، کب کیا ہوا؟
صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں 4 جنوری کو 6 سالہ بچی زینب کو اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔
جس وقت زینب کو اغوا کیا گیا اس وقت اس کے والدین عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب گئے ہوئے تھے جبکہ اہل خانہ کی جانب سے زینب کے اغوا سے متعلق مقدمہ بھی درج کرایا گیا تھا لیکن پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔
5 روز بعد 9 جنوری کو ضلع قصور میں شہباز خان روڈ پر ایک کچرے کے ڈھیر سے زینب کی لاش ملی تھی، ابتدائی طور پر پولیس کا کہنا تھا کہ بچی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا۔
بعد ازاں پولیس کی جانب سے بچی کا پوسٹ مارٹم بھی کرایا گیا تھا، جس کے بعد لاش کو ورثاء کے حوالے کردیا گیا تھا، تاہم یہ بھی اطلاعات تھی کہ بچی کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
اس واقعے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ایک سی سی ٹی وی فوٹیج بھی منظر عام پر آئی تھی، جس میں ننبھی بچی کو ایک شخص کے ساتھ ہاتھ پکڑ کر جاتے ہوئے دیکھا گیا تھا جبکہ پولیس نے اس ویڈیو اور اہل علاقہ کی مدد سے ملزم کا خاکہ بھی جاری کیا گیا تھا۔
دوسری جانب زینب کی قتل کے بعد سے ضلع بھر کی فضا سوگوار رہی اور ورثاء، تاجروں اور وکلاء کی جانب سے احتجاج کیا گیا اور فیروز پور روڈ بند کردیا گیا تھا۔
اس واقعے میں شدت تب دیکھنے میں آئی جب اہل علاقہ نے مشتعل ہو کر ڈی پی او آفس پر دھاوا بھول دیا اور دروازہ توڑ کر دفتر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔
یہ بھی پڑھیں: 'بچوں سے زیادتی کے واقعات پر حکومت سنجیدہ نہیں'
اس موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی تھی جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے فائرنگ کی تھی، جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
10 جنوری کو بچی کے والدین عمرے کی ادائیگی کے بعد پاکستان پہنچے اور انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے ننھی زینب کے قاتلوں کو گرفتار کرکے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی۔
بعد ازاں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے گھر کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندان سے ملاقات کی اور مجرموں کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی۔
تبصرے (1) بند ہیں