امریکہ اسامہ تک کیسے پہنچا: ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ
اسلام آباد: ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ جو دنیا کے سب سے زیادہ مطلوب شخص کی تلاش کے حوالے سے معلومات کے ایسے خزانے پر مشتمل ہے، جسے تاحال عوامی سطح پر پیش نہیں کیا گیا ہے۔
نائین الیون سے قبل امریکی بحری جہاز کول اور افریقہ میں امریکی سفارتخانوں پر حملے میں ملؤث القاعدہ کے ایک رکن خالد بن عطاش کو جب 2002ء میں کراچی سے گرفتار کیا گیا تو اسامہ کی تلاش کے حوالے سے یہ پہلی مثبت پیش رفت تھی۔
یہی وہ فرد تھے جنہوں نے ابو احمد علی کویتی کی نشاندہی کی۔ یہ پاکستانی نژاد کویتی اسامہ بن لادن کے دستِ راست اور پیغام رساں ہونے کے علاوہ اسامہ بن لادن کی طرف سے امریکی اراکین کی قیادت کا کام بھی کرتے تھے۔
خالد کی فراہم کردہ اطلاعات کی روشنی میں جب کویتی انٹیلیجنس سروس سے رابطہ کیا گیا تو وہ اس شخص کے بارے میں کوئی تفصیلات فراہم نہیں کرسکی۔
ایک ذرائع نے مذکورہ رپورٹ کے بارے میں ڈان کو آگاہی دیتے ہوئے بتایا کہ 2009ء سے نومبر 2010ء کے عرصے میں اس شخص کی تلاش کے دوران سی آئی اے نے پاکستان کو چار ٹیلی فون نمبر فراہم کیے، لیکن کسی تفصیل کے بغیر کے وہ کس فرد کو تلاش کررہے ہیں۔
ڈان کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ یہ تمام ٹیلی فون نمبر زیادہ تر بند رہتے تھے، لیکن آئی ایس آئی نے سی آئی اے پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا کہ تفصیلات جانے بغیر کہ یہ نمبر کس کے ہیں یہ کام مشکل ہوگا۔
ماضی کے واقعات پر نظر ڈالتے ہوئے اب کمیشن کی رپورٹ نے تصدیق کردی ہے کہ عطاش کے انکشاف کے مطابق کویتی اسامہ بن لادن کا دستِ راست تھے۔
کمیشن نے جو کچھ دریافت کیا ہے، اس کے مطابق کویتی اسامہ بن لادن کے خاندان کے ہمراہ کراچی میں اکتوبر یا نومبر 2001ء سے مقیم تھا۔
جب 2002ء کے دوران اسامہ بن لادن کا خاندان، جس میں ان کی بیویاں بھی شامل تھیں، پشاور چلاگیا، تو اس وقت کویتی بھی ان کے ہمراہ تھا۔ پھر 2002 کے وسط میں اسامہ بن لادن بھی ان سے آن ملے تھے۔
یہاں سے پھر وہ سوات چلے گئے جہاں اسامہ بن لادن نے خالد محمد شیخ سے ملاقات کی تھی۔
ایک مہینے کے بعد خالد محمود شیخ کو راولپنڈی میں گرفتار کرلیا گیا، چنانچہ خوف کے باعث فوری طور پر اسامہ کے خاندان کو ہری پور منتقل کردیا گیا۔
کویتی اور ابرار فرار ہوکر سوات میں اکھٹا ہوگئے، جہاں اسامہ بن لادن بھی موجود تھے، پھر یہ سب 2005ء تک ہری پور میں مقیم رہے۔
اور پھر یہ لوگ ایبٹ آباد منتقل ہوگئے، جس کی منصوبہ بندی اور انتظامات کویتی نے کیے۔ ایک ذرائع نے مشروط طور پر بتایا کہ کویتی نے ہی ایبٹ آباد میں ایک جعلی شناختی کارڈ پر ایک پلاٹ خریدا اور اس پر گھر کی تعمیر کی نگرانی بھی کی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ تین کمپلیکس پر مشتمل تھا، ایک اوپن کمپاؤنڈ، ایک ملحقہ گھر جس میں کویتی اور اس کا گھرانہ رہتا تھا، جبکہ مرکزی حصہ تین منزلہ گھر پر مشتمل تھا۔
دونوں بالائی منزلیں اسامہ بن لادن اور اُن کی فیملی کے زیراستعمال تھیں۔ان کی سب سے چھوٹی بیوی کا قیام دوسری منزل پر تھا، جبکہ ان کی پُرانی بیویاں شریفہ اور خائرہ، پہلی منزل پر مقیم تھیں۔
کویتی کا بھائی ابرا اور اس کی بیوی اسی گھر کے گراؤنڈ فلور پر پر رہتے تھے۔
ذرائع نے واضح کیا کہ اس گھر کی تعمیر اس طرح کی گئی تھی کہ ابرار کے بچے اسامہ بن لادن کو نہیں دیکھ پائے تھے۔
کمیشن کی جانب سے یہ بتایا گیا ہے کہ سوات، ہری پور یا ایبٹ آباد میں قیام کے دوران اسامہ بن لادن نے کبھی ٹیلیفون لائن، انٹرنیٹ یا کیبل کنیکشن کبھی استعمال نہیں کیا۔ اگرچہ ایک سے زیادہ شہروں میں جہاں ان کی فیملی کا قیام رہا، ایک ڈش الجزیرہ چینل دیکھنے کے لیے ان کے استعمال میں ضرور رہی۔
ڈان کو معلوم ہوا ہے کہ کمیشن کی نشاندہی کے مطابق ایبٹ آباد کے مذکورہ گھر میں رہنے والوں کے غیرقانونی قیام سے مقامی سطح پر حکام لاعلم رہے۔
مثال کے طور پر یہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ عام اور دستی شناختی کارڈ زمین کی خریداری کے لیے استعمال کیا گیا، جبکہ نادرا کی جانب سے 2004ء میں کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کا استعمال لازم ہوچکا تھا۔
ذرائع نے کہا کہ عام شناختی کارڈ جو متروک ہوچکا تھا، ریونیو ڈیپارٹمنٹ، کنٹونمنٹ بورڈ اور دوسرے اداروں کی طرف سے قبول کرلیا گیا۔مزید یہ کہ شناخت اور ایڈریس کی کبھی تصدیق نہیں کی گئی۔
اس کے علاوہ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ تیسری منزل کی تعمیر عمارتی قوانین کی خلاف ورزی تھی، لیکن اس حوالے سے بھی حکام نے کوئی مداخلت نہیں کی۔
کمیشن نے مزید نشاندہی کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس گھر کی قلعہ نما تعمیر پر کنٹونمنٹ بورڈ، پولیس، انٹیلی جنس اداروں اور مقامی لوگوں کا دھیان نہیں گیا۔ اس کے علاوہ اس گھر کے مکینوں کی طرف سے پراپرٹی ٹیکس کی 2005ء سے عدم ادائیگی بھی حکام کی توجہ اس جانب مبذول نہ کرواسکی۔
ڈان کے علم میں یہ بھی بات آئی ہے کہ مذکورہ کمیشن نے حکومت کو سفارشات پیش کی ہیں کہ وہ 2 مئی کی طرز کےکسی دوسرے آپریشن کو روکنے کی کوشش کرے۔
مذکورہ رپوٹ میں جو تفتیش کی گئی یا پاکستان میں چھپے ہوئے ایسے مجرمیں کی گرفتاری کے حوالے سے جو کچھ بھی سفارشات پیش کی گئی ہیں، ان پر عملدرآمد ممکن نہیں ہوگا۔
اس لیے کہ نہ تو یہ واضح ہیں، اور نہ ہی کمیشن نے کو اسامہ بن لادن کی ملک میں موجودگی یا امریکیوں کی جانب سے مئی کی چھاپہ مار کارروائی پر کسی ایک کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
یہ سفارشات جو ڈان کے علم میں آئی ہیں، کی توجہ امریکیوں کی ملک کے اندر سرگرمیاں اور بیرونی قوتوں کی کارروائی پر مرکوز ہے ۔ ساتھ یہ تجویز بھی پیش کی گئی ہے کہ چیئرمین چیف آف اسٹاف کمیٹی کے عہدے کے کردار میں مزید اضافہ کیا جائے اور مسلح افواج کے درمیان روابط کو مزید مؤثر بنایا جائے۔
اس کے علاوہ اس کی طرف سے قومی سلامتی کونسل کو مضبوط بنانے کی بھی سفارش کی گئی ہے، تاکہ وہ فوری طور پر اقدامات کرسکے، جیسا کہ کمیشن نے نشاندہی کی ہے کہ بہت سے اعلیٰ سطح کے عہدیدار آپریشن کے دوران رابطے میں نہیں آسکے تھے۔
کمیشن نے بڑے پیمانے پر امریکی کنٹرکٹرز کو ویزہ کے اجراء کی چھان بین کی بھی سفارش کی ہے، جنہوں نے پاکستان کے اندر جاسوسی کا ایک نیٹ ورک قائم کرلیا ہے۔
اسامہ کی بیویوں کا مؤقف
جب رات کے درمیانی حصے کے دوران، ایبٹ آباد کے کمپاؤنڈ میں امریکن نیوی سیل کے اہلکاروں کا حملہ ہوا، تو اسامہ بن لادن کا پہلا ردّعمل یہ تھا کہ انہوں نے اپنی فیملی سے کہا وہ پُرسکون رہیں اور کلمہ کا ورد کرتے رہیں۔
اُس رات کو رونما ہونے والے پے درپے واقعات کے نتیجے میں اُسامہ بن لادن قتل کردیے گئے تھے۔ کمیشن نے اسامہ بن لادن کی فیملی سے بات کی ساتھ ہی انٹیلی جنس رپورٹوں کی فراہمی کے ساتھ اس بات کی اجازت مانگی ہے کہ ان کی تفصیلات کو اکھٹا کرکے دیکھا جائے کہ اُس رات کیا ہوا تھا۔
کمیشن نے دریافت کیا ہے کہ امریکن سیل کے اہلکاروں کی ٹیم جلال آباد سے رات کو گیارہ بجے روانہ ہوگئی تھی، اور لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے میں ایبٹ آباد پہنچ گئی تھی۔ کمپاؤنڈ پر حملہ ایک سے زیادہ اطراف سے کیا گیا تھا۔
ڈان کے علم میں آیا ہے کہ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق امریکن نیوی سیل نے کمپاؤنڈ میں ملحقہ گھر پر پر حملہ کیا اور لوہے کے دروازوں کو اُڑا دیا۔ یہ بات بھی بیان کی گئی ہے کہ بہت سے فوجی گھر کی چھت پر اُترے تھے۔
سب سے پہلا حملہ ملحقہ گھر پر ہی ہوا، جس میں کویتی رہائش پذیر تھا۔ ہلاک ہونے والا پہلا فرد کویتی تھا جبکہ اس کی بیوی زخمی ہوئی تھی۔
ذرائع کے مطابق کمیشن کو یہ معلوم ہوا ہے کہ کمپاؤنڈ کے مرکزی گھر کے تمام فلورز پر بیک وقت حملہ کیا گیا، جس سے ابرار اور اس کی بیوی ہلاک ہوگئی۔ ابرار کویتی کے بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھا۔
اسی دوران اسامہ بن لادن کی بڑی بیویوں کے بچے، ان کے بیٹے خالد کے ہمراہ سیڑھیوں کے ذریعے اپنے والد کے پاس جانے کے لیے دوڑے۔
خالد کو ان کے والد نے نیچے کی طرف ابرار کی مدد کے لیے بھیجا اور وہ سیڑھیوں پر ہی امریکی سیل کے ہاتھوں ہلاک ہوگئے۔
ؕذرائع نے ڈان کو بتایا کہ جب امریکی سیل کے اہلکار اسامہ بن لادن کے کمرے میں پہنچے تو، ان کے ہاتھ میں ہتھیار تھا اور وہ شیلف پر ایک گرینیڈ تلاش کررہے تھے، جیسے ہی وہ پلٹے ان کو شوٹ کردیا گیا۔ اس مرحلہ پر امل اور اسامہ کی بیٹی سمایا تیزی سے آگے بڑھیں کہ اس شخص کو روکیں، امل گولی لگنے سے زخمی ہوگئیں۔
جب گھر کے تمام افراد نے امریکی سیل کو بتادیا کہ اسامہ بن لادن ہلاک ہوچکے ہیں، تو سمایا اور کویتی کی بیوی سے پوچھا گیا کہ وہ اسامہ بن لادن کی شناخت کرلیں۔
کمیشن نے بتایا، جیسا کہ اسامہ کی بیویوں نے اُسے بتایا تھا کہ امریکی اس گھر سے جو قیمتی چیزیں اپنے ہمراہ لے گئے ان میں دس دس تولے کے سونے کے 25 بسکٹس، دستاویزات، ہتھیار اور چھ کمپیوٹروں کی ہارڈ ڈرائیوز بھی شامل ہیں۔
ڈان کے علم میں آیا ہے کہ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق چار ہیلی کاپٹرز اس کارروائی میں استعمال ہوئے، جو پاکستان کی فضائی حدود میں غرسال اور شلمان کے درمیان سے داخل ہوئے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیشن کو کسی بہت بڑی سازش کی تفصیلات نہیں حاصل ہو سکیں جس کے ذریعے یہ ثبوت فراہم ہوتا ہو کہ امریکی سیل کو زمینی سطح سے بھی اس کارروائی کے دوران کسی قسم کی مدد فراہم کی گئی ہو۔
تبصرے (3) بند ہیں