ایرانی مظاہروں کے پیچھے جائز مطالبات یا غیر ملکی سازش؟
ایران میں 2009ء کی گرین موومنٹ کے بعد حالیہ مظاہروں نے ایران میں ایک سیاسی بھونچال بپا کیا ہے۔ 2009ء کی گرین موومنٹ اور حالیہ مظاہروں کا موازنہ کرنے کی بھی کوشش کی جا رہی، حالانکہ دونوں کے مقاصد اور عوامل بھی نہ صرف مختلف ہیں بلکہ حالیہ مظاہرے بظاہر کسی منظم تحریک اور قیادت کے ہورہے ہیں۔
اِن مظاہروں سے کئی سوالات نے جنم لیا ہے۔ ایران کے اصلاح پسند ان مظاہروں میں قدامت پسندوں کے ملوث ہونے کا شبہ کرتے ہیں تو قدامت پسند امریکی اور اسرائیلی خفیہ ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ 2009ء کی گرین موومنٹ کے دوران اوباما انتظامیہ نے خاموشی سے مشاہدہ کیا، لیکن اب ٹرمپ انتظامیہ نہ صرف مظاہرین کی حمایت میں کود پڑی ہے بلکہ ان مظاہروں سے اپنی مرضی کے نتائج کی خواہشمند بھی نظر آتی ہے۔
The people of Iran are finally acting against the brutal and corrupt Iranian regime. All of the money that President Obama so foolishly gave them went into terrorism and into their “pockets.” The people have little food, big inflation and no human rights. The U.S. is watching!
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) January 2, 2018
ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کے مظاہرین کے معاملے پر سلامتی کونسل کا اجلاس بُلا کر قدامت پسندوں کے مؤقف کو مضبوط کیا ہے، اس طرح امریکا کو تو شاید مطلوبہ نتائج نہ مل سکیں لیکن قدامت پسندوں کی سیاست ضرور مضبوط ہوگی، جو اصلاح پسند حسن روحانی کی حکومت کو معاشی محاذ پر ناکام ثابت کرنے پر تُلے ہیں۔
ایران میں مظاہرے قدامت پسندوں کے گڑھ اور آیت اللہ خامنہ ای کے آبائی شہر مشہد سے شروع ہوئے۔ مشہد کے پہلے مظاہرے میں شرکاء کا احتجاج بیروزگاری، گرتے ہوئے معیارِ زندگی اور مہنگائی کے خلاف تھا لیکن یہ احتجاج پھیلتا ہوا دیگر شہروں تک پہنچا تو اِس میں سیاسی بے چینی کا عنصر بھی دکھائی دینے لگا۔
The dignity, security, and progress of the Iranian nation is owed to the self-sacrifice of the martyrs. What prevents enemies from exerting their atrocities is the spirit of courage, sacrifice, and faith within the nation.
— Khamenei.ir (@khamenei_ir) January 2, 2018
2009ء کی گرین موومنٹ اور حالیہ مظاہروں میں موازنہ کرنے کے لیے مظاہرین کے مقاصد اور قیادت کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ 2009ء کی گرین موومنٹ مبینہ انتخابی فراڈ اور ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے لیے تھی۔ اُس تحریک کو مضبوط قیادت بھی میسر تھی، کیونکہ دو صدارتی اُمیدوار حسین موسوی اور مہدی کروبی گرین موومنٹ کی قیادت کر رہے تھے۔
مگر ایران میں جاری حالیہ مظاہرے بظاہر تو وسیع پیمانے پر پھیلتے نظر آئے لیکن واضح قیادت کسی کے ہاتھ میں نہ ہونے کی وجہ سے اِن مظاہروں کے مقاصد آغاز میں کچھ اور بعد میں بدلتے ہوئے کچھ ہوتے جا رہے ہیں۔
مشہد میں ہونے والے مظاہروں کے شرکاء کے تحفظات معاشی حالات کے بارے میں تھے۔ مشہد سے باہر نکلنے پر اِن مظاہروں کے نعرے بھی کرپشن اور مہنگائی سے آگے بڑھ کر سیاسی ہوگئے، جن میں مردہ باد کے نعرے بھی سنائی دیے۔ گرین موومنٹ کے رہنما موسوی، کروبی اور خاتمی، اِن مظاہروں سے لاتعلقی کا اظہار کررہے ہیں۔ اِن مظاہروں میں کوئی بھی اصلاح پسند رہنما شامل ہے نہ اُن کی حمایت کررہا ہے۔
گرین موومنٹ میں شریک رہنے والے جلاوطن کارکن بھی حالیہ مظاہروں سے لاتعلقی دکھا رہے ہیں، چنانچہ اِن حالات میں ایران کے قدامت اور اصلاح پسند دھڑوں کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ ماجرا کیا ہے؟ دونوں دھڑے ایک دوسرے پر انگلی اُٹھا رہے ہیں۔
مشہد سے صدر روحانی کے مقابل صدارتی امیدوار علی رئیسی کے سسر اور قدامت پسند رہنما آیت اللہ علم الھدیٰ کو قومی سلامتی کونسل میں طلب کرکے مشہد مظاہروں میں ملوث ہونے اور مقاصد کے بارے میں پوچھ گچھ کی اطلاعات ہیں لیکن آیت اللہ علم الھدیٰ ایسی کسی بھی طلبی کی تردید کرتے ہیں۔
ایران کے نائب صدر اسحاق جہانگیری نے بھی معاشی صورت حال پر عوام کو احتجاج پر اکسانے کا الزام قدامت پسندوں پر دھرا اور تہران میں ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اِن مظاہروں کے پیچھے چُھپے لوگوں کو پتہ نہیں کہ یہ مظاہرے اُن کے ہی خلاف جائیں گے۔ صدر روحانی کے حمایتی اِن مظاہروں کی سازش کا الزام سابق صدر احمدی نژاد پر بھی دھرتے ہیں۔
کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ مشہد میں ہونے والے مظاہروں کی ٹائمنگ اہم ہے۔ یہ مظاہرے حکومت کے بجٹ پلان کی اشاعت کے بعد ہوئے، جس میں مذہبی اداروں کو بھاری فنڈز دیے جانے کی بات سامنے آئی۔ صدر روحانی نے بجٹ پلان پارلیمنٹ میں پیش کرتے ہوئے قدامت پسندوں کے زیرِانتظام اداروں کو کڑی تنقید کا نشانہ بھی بنایا جن پر بھاری سرکاری فنڈز خرچ کیے جا رہے ہیں۔
پڑھیے: ایران میں ایک ہفتے سے احتجاج جاری، جھڑپوں میں 12افراد ہلاک
ایران کی حکومت اور قدامت پسند اِن مظاہروں میں ایک دوسرے پر اُنگلی اٹھانے کے ساتھ امریکی فنڈنگ اور ایجنٹوں کو بھی ملوث بتارہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے بیانات ایران کے ان خدشات کو تقویت پہنچانے کے ساتھ ساتھ ان مظاہروں کو دبانے میں بھی کام آرہے ہیں۔
گرین موومنٹ کے مظاہروں کے برعکس ان مظاہروں میں شرکاء کی تعداد سینکڑوں میں رہی، اگرچہ یہ مظاہرے ملک کے طول و عرض میں ہوئے۔ یورپی میڈیا ان مظاہروں کو سخت اسلامی قوانین سے بیزاری کے طور پر دکھانے کی کوشش کررہا ہے، اِس کے لیے صرف ایک ویڈیو ثبوت کے طور پر پیش کی جا رہی ہے جس میں ایک خاتون اپنا اسکارف اتار کر ہوا میں لہرا رہی ہے۔
#IranProtests: Hundreds of thousands across #Iran chant "We don't want Islamic Republic!" & "Clerics shame on you, let go of our country!" Woman in video took off her #Hijab to protest Islamic dress code imposed on Iranian women since 1979. #IStandWithHer pic.twitter.com/CHNwrTsWPA
— Mark Vallen (@mark_vallen) December 29, 2017
ایک حقیقت تو بہرحال یہی ہے کہ عوام کی بے چینی مہنگائی، بیروزگاری اور گرتے ہوئے معیارِ زندگی کی وجہ سے ہے، لیکن اِس حوالے سے کئی دیگر وجوہات اور الگ الگ نکتہءِ نظر ہوسکتے ہیں۔ ایران کے نقادوں کا کہنا ہے کہ ایران پر عائد پابندیاں معاشی دشواریوں کا سبب ضرور ہیں لیکن اِس کے ساتھ ایرانی حکومت اور مقتدرہ کی پالیسیاں بھی اِس کی بڑی وجہ ہیں۔ ایرانی مقتدرہ سعودی اثر و رسوخ کے مقابلے اور اپنے انقلاب کو ایکسپورٹ کرنے کے لیے لبنان، شام، یمن، بحرین اور دیگر علاقوں میں وسائل صرف کر رہی ہے۔
پڑھیے: سعودی-ایران تعلقات کی تلخ تاریخ
یہ بات صرف نقادوں تک محدود نہیں بلکہ عوام کا ایک طبقہ بھی اِس خیال کا حامی نظر آیا جس نے اِن مظاہروں میں جنرل قاسم سلیمانی کی تصاویر جلائیں۔ قاسم سلیمانی ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ اور شام میں داعش کے خلاف فتح پر ہیرو بھی تصور کیے جاتے ہیں۔ عراق، شام، یمن، لبنان میں اربوں ڈالرز فنڈز کے استعمال اور ملک میں انڈوں اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کو بھی باہم ملا کر دیکھا جا رہا ہے۔
ایران میں تمام تر بے چینی کا بنیادی محرک صرف معاشی حالات ہیں جو کہ عشروں سے جاری پابندیوں کا نتیجہ ہیں۔ 2009ء کی گرین موومنٹ میں اوباما کی عدم دلچسپی یا پھر احتیاط تھی کہ بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کے باوجود بغاوت جیسی کوئی صورت نظر نہ آئی، لیکن اب ٹرمپ انتظامیہ مذہبی آزادیوں، ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام یا انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کو بہانہ بنا کر نئی پابندیوں سے ایرانی معیشت کو بڑا جھٹکا دے سکتی ہے۔
ایسا کوئی بھی جھٹکا ایران میں حکومت اور ریاست کے لیے بڑے دھچکے کے امکانات سے خالی نہیں ہوگا، اِس لیے ایرانی حکومت کے ساتھ ساتھ خطے کے ملکوں کو بھی ہوش سے کام لیتے ہوئے حالات کو انتہائی نہج تک پہنچنے سے روکنا ہوگا۔