فاٹا کو پختونخوا میں ضم کرنے کی مخالفت کیوں کی جارہی ہے؟
مئی کی ایک صبح خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ میں آفریدی قبیلے کے افراد ایک حجرے میں جمع ہیں۔ بیٹھک کا مزاج جشن کا سا ہے اور شرکاء ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں کہ اُنہوں نے پشاور کے حیات آباد علاقے کے جنوب میں واقع زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کی پشاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے) کی کوششوں کو ناکام بنا دیا ہے۔
بیٹھک کے بیچوں بیچ 48 سالہ سابق وفاقی وزیر حمید اللہ جان آفریدی بیٹھے ہیں۔ جب وہ ایک باریک سگریٹ جلاتے ہیں تو اُن کے ایک ہم قبیلہ شخص روشنی ڈالتے ہیں کہ صوابی سے ایک سرمایہ کار مقامی افراد کے پاس گئے تاکہ 1200 ایکڑ زمین حاصل کرکے اُسے یونیورسٹی اور ہاؤسنگ اسکیم کا درجہ دیا جاسکے؛ ویسے تو یہ ایک نجی منصوبہ تھا مگر قبائلیوں کو یقین تھا کہ اِس پیشکش کے پیچھے پی ڈی اے ہے کیوں کہ وہ کافی عرصے سے حیات آباد کو قبائلی زمینوں تک بڑھانے کے منصوبے بنا رہی تھی۔
حمید اللہ، جو ماضی قریب میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے رکن بھی رہ چکے ہیں، کی حوصلہ افزائی پر مقامی افراد نے خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ، یعنی ایجنسی کے اعلیٰ ترین سویلین عہدیدار کے دباؤ کے باوجود زمین بیچنے سے انکار کردیا۔ جب سرمایہ کار کے ساتھ اُن کی گرما گرمی تشدد تک پہنچنے کا خطرہ پیدا ہوگیا تو حکام کو پیچھے ہٹنا پڑا۔
ایک جانب سے تیز آواز بلند ہوتی ہے کہ ’یہ بالکل ایسا تھا جیسے وہ ہمیں اپنے اندر جذب کرنا چاہ رہے ہوں۔‘ یہ آواز صابر عالم کی ہے، جو درمیانی عمر کے ایک مضبوط جسم کے مالک شخص ہیں۔ اُن کے ایک ہاتھ میں تسبیح ہے تو دوسرے ہاتھ میں لاٹھی۔ ’وہ چاہتے تھے کہ ہم اُن کی ہاؤسنگ اسکیم میں پلاٹس کے بدلے اِس زمین سے ہاتھ اٹھا دیں، مگر جب یہ پوری زمین ہی ہماری ہے تو ہم ایک پلاٹ کے لیے اِسے کیوں بیچیں گے؟‘، صابر عالم نے مزید اپنی بات بڑھائی۔
گزشتہ 20 سالوں سے عالم خیبر ایجنسی سے پشاور کی جانب جانے والے حصے میں ایک چھوٹی سی دکان چلا رہے ہیں۔ یہ علاقہ خیبر ایجنسی کو خیبر پختونخوا صوبے سے الگ کرتا ہے۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’مستقل علاقوں‘، جیسی ایک اصطلاح جو صوبے کو وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) سے ممتاز کرتی ہے، کے حکام کا اُن سے سلوک تفریق پر مبنی ہے۔ ایسا صرف اِس لیے کیوں کہ میں قبائلی علاقوں سے ہوں، یہی نہیں، بلکہ مجھے جھوٹے الزامات پر کئی بار اُٹھایا بھی جاچکا ہے،‘ یہ کہہ کر وہ اپنی تسبیح کے دانے تیز تیز چلانے لگتے ہیں۔ پاس بیٹھے ایک اور قبائلی شخص کہتے ہیں کہ ’خیبر ایجنسی کے لوگوں کو محرّم کے دوران پشاور میں داخل ہونے تک کی اجازت بھی نہیں دی جاتی۔‘
اِن تمام شکایات کے اندر ایک بڑا سوال پوشیدہ ہے: کیا فاٹا کا ایک خود مختار علاقے کی حیثیت سے کوئی مستقبل ہے؟
نومبر 2015ء میں وفاقی حکومت نے اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ایک 6 رکنی کمیٹی قائم کی تھی۔ کمیٹی کے سربراہ اُس وقت وزیرِ اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز تھے، جبکہ اِس میں خیبر پختونخوا کے گورنر، وفاقی وزیرِ قانون، وفاقی وزیرِ سیفران، وفاقی سیکرٹری سیفران اور مشیرِ قومی سلامتی شامل تھے۔ کمیٹی نے فاٹا بھر سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد سے ملاقاتیں کیں اور اگست 2016ء میں اپنی گزارشات جمع کروا دیں۔، جس میں واضح انداز میں سفارش کی گئی تھی کہ قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا کے ساتھ ضم کردیا جائے۔
عالم اِس انضمام کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے اِسے قبائلی ثقافت کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’صدیوں پُرانے طرزِ زندگی کو چھوڑنا ایسا ہی ہے جیسے کہ کھٹمل کو مارنے کے لیے کمبل جلا دیا جائے۔‘
فاٹا کا نیم خود مختار علاقہ 1890ء کی دہائی میں افغانستان اور برطانوی ہندوستان کے درمیان ایک بفرزون کے طور پر بنایا گیا تھا۔ آج قبائلی علاقوں کی 7 ایجنسیاں باجوڑ، مہمند، خیبر، کُرّم، اورکزئی، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان ہیں جبکہ 6 سرحدی علاقے ہیں جو ایجنسیوں کو خیبر پختونخوا کے ضلعوں سے الگ کرتے ہیں۔ قبائلی علاقے 50 لاکھ سے زیادہ کی آبادی پر مشتمل ہیں اور تازہ ترین مردم شماری کے مطابق یہاں آبادی میں اضافے کی شرح 2.41 فیصد ہے، جبکہ یہاں کی 97.17 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں ہے۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق یہاں 55 فیصد سے زیادہ لوگ 19 سال سے کم عمر کے تھے۔
فاٹا میں 2013ء میں صرف 675 ڈاکٹر (یعنی 7409 لوگوں کے لیے ایک)، ہسپتال کے 1605 بستر (یعنی 3116 لوگوں کے لیے ایک)، اور 32 طبی مراکز (یعنی 156,302 لوگوں کے لیے ایک) تھے۔ 2013ء تک فاٹا میں 3700 اسکول اور 33 کالج تھے جبکہ 2007ء کی ایک رپورٹ کے مطابق یہاں شرحِ خواندگی 21.4 کے آس پاس تھی۔ خواتین کے لیے تو یہ اور بھی کم، یعنی 7.5 فیصد تھی۔ کچھ علاقوں، جیسے ٹانک کے سرحدی علاقے میں صرف آدھا فیصد خواتین ہی لکھ یا پڑھ سکتی تھیں۔ پرائمری اسکولوں، جہاں 3000 سے بھی کم اساتذہ ہیں، وہاں بچوں کے اسکول چھوڑ دینے کی شرح 62 فیصد تک تھی۔
یہ سب اِس حقیقت کے باوجود ہے کہ فاٹا کو وفاقی حکومت سے ہر سال اربوں روپے کا بجٹ ملتا ہے۔ صرف 18-2017 کے ہی بجٹ میں اِس علاقے کے لیے 26.9 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔
فاٹا کی معیشت زراعت، منشیات، اسلحے اور افغانستان کے ساتھ قانونی و غیر قانونی تجارت، بالخصوص خیبر ایجنسی کے ذریعے تک ہی محدود ہے۔ مختلف قبائلی ایجنسیوں میں ماربل، چونا پتھر، سنگِ صابن اور تانبے کی بہتات ہے، مگر اِن کی کان کنی ممکن سے کہیں کم ہے۔ مواصلات اور ٹرانسپورٹ کا نظام نہ ہونے جیسا ہی ہے۔ فاٹا میں نہ ریلوے ہے اور نہ ایئرپورٹ اور سڑکیں ناکافی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ کئی علاقوں کی تو قدرتی گیس اور بجلی تک نہایت محدود رسائی ہے چنانچہ زیادہ تر لوگوں نے سولر پینل لگا رکھے ہیں۔ 2016ء سے فاٹا میں سیکیورٹی وجوہات کی بناء پر انٹرنیٹ سروس بھی معطل ہے۔
حمید اللہ کا دعویٰ ہے کہ اگر فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کردیا گیا تو یہ بُرے حالات بدترین میں بدل جائیں گے۔ اُن کے مطابق انضمام کی صورت میں قبائلیوں کی قومی حیثیت اُنہیں اِس وقت حاصل حیثیت سے بھی کم رہ جائے گی۔
ایک خاکستری آنکھوں والے درمیانی عمر کے قبائلی حبیب گل بھی حمید اللہ کے ساتھ بیٹھک میں موجود ہیں اور اُن کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا ایک غریب صوبہ ہے جسے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے بین الاقوامی امداد اور وفاقی حکومت کی جانب دیکھنا پڑتا ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ ’اگر یہ صوبہ اپنی دیکھ بھال نہیں کرسکتا تو ہماری کیسے کرے گا؟ خیبر پختونخوا میں کئی ضلعے قبائلی علاقوں سے بھی بُری حالت میں ہیں۔‘
حجرے میں موجود دیگر لوگوں کے بھی ایسے ہی تحفظات ہیں۔ حاجی بازار گل آفریدی، جو کہ ایک مقامی سیاسی تنظیم خیبر یونین کے صدر ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں ریوینیو، پولیس اور عدلیہ کے ادارے ’قدیم اور ناکارہ‘ ہیں۔ ’ہم آخر خامیوں سے بھرپور ایک نظام چھوڑ کر اُس سے بھی بُرے نظام کی طرف کیوں جائیں؟ جب ہمیں معلوم ہے کہ کون سی زمین کس کی ہے تو ہمارے لیے یہی کام پٹواری کیوں کرے؟‘
قبائلی علاقوں کو اِس انضمام کی مخالفت سے یہ حقیقت بھی پیچھے نہیں ہٹا جاسکتی ہے کہ زیادہ تر قبائلی علاقوں میں امن و امان کی صورتحال ملک کے دیگر حصوں سے کہیں زیادہ خراب ہے۔ 2001ء میں جب امریکا نے افغانستان میں القاعدہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور کابل سے طالبان انتظامیہ کو تتر بتر کردیا، تب سے فاٹا کے کئی علاقوں نے تشدد کے علاوہ اور کچھ نہیں دیکھا۔
افغانستان سے بھاگ نکلنے والے زیادہ تر طالبان اور القاعدہ رہنماؤں اور جنگجوؤں نے فاٹا کے علاقو میں پناہ حاصل کی اور وقت کے ساتھ ساتھ مقامی عسکریت پسند تنظیموں کی بنیاد ڈالی، جنہوں نے آپس میں قبائلی زمینیں بانٹ لیں تاکہ پاکستان کے اندر دہشتگرد کارروائیاں کی جاسکیں۔ 2007ء تک اِن تمام گروہوں نے خود کو تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے نام سے ایک کرلیا تھا، اور تقریباً پورے جنوبی و شمالی وزیرِستان اور اورکزئی، کرم، باجوڑ، خیبر اور مہمند کے کئی علاقوں میں اپنی انتظامیہ تک قائم کرلی تھی۔
اِن عسکریت پسندوں کے خلاف فاٹا میں 2000ء کے اوائل سے اب تک کئی فوجی آپریشن کیے جاچکے ہیں جن میں سے تازہ ترین 2014ء میں شمالی وزیرِستان میں شروع کیا گیا آپریشن ضربِ عضب ہے۔ اب تک سیکیورٹی فورسز نے چند ایک جگہوں کو چھوڑ کر پاکستانی طالبان اور اُن کے اتحادیوں کو زیادہ تر علاقوں سے نکال دیا ہے۔
عسکریت پسندوں کی کارروائیوں اور پھر اُن کے خلاف فوجی کارروائیوں کی وجہ سے قبائلی افراد بڑی تعداد میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ 2008ء میں جب فوج نے ٹی ٹی پی، لشکرِ اسلام اور انصار الاسلام جیسی کالعدم عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف باڑہ تحصیل میں آپریشن شروع کیا تو تب سے اب تک 91,000 لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔ یہ فاٹا میں اندرونِ ملک ہجرت پر مجبور ہونے والوں (آئی ڈی پیز) کی دوسری بڑی تعداد ہے۔ پہلی بڑی تعداد 106,000 گھرانوں کی ہے، جنہیں شمالی وزیرِستان میں آپریشن ضربِ عضب لانچ ہونے کے بعد اپنے گھر چھوڑ کر قریبی ضلع بنوں میں پناہ لینی پڑی تھی۔
2010ء سے اورکزئی سے دربدر ہونے والوں نے بھی خیبر پختونخوا کے قریبی اضلاع، مرکزی طور پر ہنگو میں پناہ لی ہے۔ ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے ایجنسی کی انتظامیہ اپنے اصلی ہیڈکوارٹر یعنی وادی تیراہ میں کلایہ کے بجائے ہنگو شہر سے اپنے انتظامات چلا رہی ہے۔
فاٹا میں مسلسل تشدد اور عسکریت پسندی بھی ایک وجہ ہے کیوں کہ کئی سیاستدان، تعلیم دان اور انسانی حقوق کے کارکنان اِس خطے کی سماجی، سیاسی اور معاشی تنہائی دور کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ اُن کے مطابق اِس تنہائی نے عسکریت پسندوں اور انتہاپسند عناصر کو فاٹا میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے اور پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
مگر جب باڑہ میں حبیب گل کہتے ہیں کہ انضمام کے لیے تشدد ایک کافی دلیل نہیں ہے، تو اُن کے آس پاس موجود لوگ اُن کی تائید کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تشدد صرف فاٹا کا مسئلہ نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سوات تو ایک مستقل علاقہ ہے۔ پشاور، کوئٹہ اور کراچی بھی ایسے ہی ہیں۔ کیا وہاں پر بھی وسیع پیمانے پر عسکریت پسندی کا مسئلہ درپیش نہیں رہا ہے؟"
لیاقت علی خیل اورکزئی ایجنسی کے ایک نوجوان مَلک، یا سرکاری طور پر مقرر کردہ قبائلی بزرگ ہیں۔ وہ اور 6 دیگر مَلک، جن میں سے ایک تو 105 سال کے ہیں، اِس سال مئی کے ایک گرم دن میں ہنگو کے پولیٹیکل ایجنٹ کے پُرشکوہ بورڈ روم میں داخلے کے لیے کئی گھنٹوں تک انتظار کرتے رہے، تب جاکر اُنہیں اندر آنے دیا گیا۔ اورکزئی ایجنسی کا ایک نقشہ پوری دیوار پر پھیلا ہوا ہے۔ لیاقت علی خیل فاٹا کے خیبر پختونخوا کے ساتھ ممکنہ انضمام پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’لوگوں کی پسند یا ناپسند جاننے کے لیے آخر ایک ریفرینڈم کیوں نہیں کروا لیا جاتا؟‘
وہ کہتے ہیں کہ مستقل ضلعوں اور قبائلی علاقوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔ ’ایک ضلع میں انفرادی زندگی انفرادی ہے، مگر ہمارا برادری نظام امن و امان اور جرائم کی کم شرح کو یقینی بناتا ہے۔ ہنگو بازار کے بیچوں بیچ ایک شخص مرجائے گا اور کسی کو فکر نہیں ہوگی، مگر فاٹا میں ہمارے لیے ایک شخص بھی پورے قبیلے کے برابر ہے۔’
وہ کہتے ہیں کہ ضلعوں کا نظام ’ہمارے جیسے غریبوں کے لیے نہیں جن کے پاس آپ کے کھیل میں حصہ لینے کے لیے نہ تجربہ ہے، نہ تعلیم ہے اور نہ ہی وسائل ہیں۔‘
عمر میں لیاقت سے بڑے ایک اور مَلک باچا علی خیل اپنی بات شروع کرنے سے قبل اپنی پگڑی کے کنارے سے اپنی پیشانی پونچھتے ہیں، اور پھر انگلی لہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ، ’آپ اُن لوگوں کی بات نہ سنیں جو شہروں میں رہتے ہیں اور فاٹا کے ڈومیسائل سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ آپ شہروں سے دور اور پہاڑوں میں ہمارے علاقوں میں آئیں اور پھر لوگوں سے پوچھیں کہ آیا اُنہیں خیبر پختونخوا سے انضمام چاہیے یا نہیں؟‘ دیگر مَلک میز پر ہاتھ مار کر اُن کی تائید کرتے ہیں۔
مگر اسلام آباد میں قائم ایک تھنک ٹینک فاٹا ریسرچ سینٹر کی اِس سال کی گئی ایک اسٹڈی اُن کے مؤقف سے متضاد ہے۔ اسٹڈی کے مطابق فاٹا کے 74 فیصد رہائشی انضمام کے حق میں اور صرف 23 فیصد مخالفت میں ہیں۔ مگر اِن اعداد و شمار کے پیچھے کچھ پوشیدہ باریکیاں ہیں۔ جیسے انضمام کی مخالفت کرنے والوں کی سب سے بڑی تعداد (39 فیصد) مہمند میں ہے؛ جنوبی وزیرِستان میں 26 فیصد لوگ انضمام کے خلاف ہیں، جبکہ اورکزئی میں تو صرف 19 فیصد لوگ اِس کے مخالف ہیں۔
باچا علی خیل کی فاٹا کی خیبر پختونخوا سے انضمام کے خلاف سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اِس سے فاٹا کی خود مختاری چھن جائے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں کسی پر منحصر نہیں، یہ میری اپنی زمین ہے۔ میں کسی اور کے ساتھ انضمام قبول کیوں کروں؟‘ وہ کہتے ہیں کہ اگر کچھ تبدیل ہونا ہی ہے تو ’ہمیں ہمارا اپنا صوبہ دے دیا جائے اور اگر نہیں تو ہم جیسے ہیں، ہمیں ویسے ہی چھوڑ دیا جائے۔‘
یہ بظاہر خود مختاری جس پر وہ اتنے خوش ہیں، اِس کی ایک بہت بڑی قیمت ہے، اور وہ قیمت فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز (ایف سی آر) ہے۔ یہ قوانین کا ایک ایسا مجموعہ ہے جسے تاجِ برطانیہ نے فاٹا میں 1901ء میں متعارف کروایا تھا اور اِس میں بغیر الزام کے حراست، جرائم قابو کرنے کے لیے اجتماعی قبائلی ذمہ داری اور نتیجتاً اجتماعی سزا اور سب سے اہم بات یہ کہ جرگہ سسٹم پر مبنی نظامِ انصاف اِس کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی اجازت نہیں دیتا۔
ویسے تو اِس "سیاہ قانون" کے خلاف کافی شور مچایا جاتا ہے مگر فاٹا سے باہر لوگوں کو کم ہی معلوم ہے کہ اِس قانون کے مندرجات کیا ہیں۔ مثال کے طور پر ایف سی آر کی ایک شق کے مطابق کسی قبیلے کو ’غیر دوستانہ‘ سمجھے جانے پر اُس قبیلے کے جتنے چاہے لوگوں کو حراست میں لیا جاسکتا ہے۔ افسران اُن کی جائیداد ضبط کرسکتے ہیں اور مستقل ضلعوں میں اُن کا داخلہ بند کرسکتے ہیں۔ ایک فرد کے کیے گئے جرم کا جرمانہ پوری برادری پر عائد کیا جاسکتا ہے۔ اگر کسی گاؤں کے قریب کوئی شخص زخمی یا مردہ حالت میں پایا گیا تو اُس گاؤں کی برادری کے افراد کو مجرم ٹھہرایا جائے گا۔ وہ سزا سے صرف اُس صورت میں بچ سکتے ہیں جب وہ یہ ثابت کردیں کہ اُنہیں اُس زخمی یا ہلاک شخص پر حملہ روکنے کا موقع نہیں ملا، یا پھر تب جب وہ حقیقی مجرم کو سامنے لے آئیں۔
انتظامیہ کے پاس گھروں اور تمام کے تمام دیہاتوں کو ’ہٹا دینے‘ اور افراد اور برادریوں کو معاشرے سے کاٹ دینے کا اختیار موجود ہے۔ ایف سی آر کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ صرف ایک حکومتی اہلکار یعنی پولیٹیکل ایجنٹ کو بیک وقت تفتیش کار، جج، جیوری، وکیل، ثالث، منتظم اور قانون ساز کے اختیار دے دیتا ہے۔
پاکستان نے 1947ء میں یہ ’خصوصی‘ قانون وراثت میں حاصل کیا اور تب سے لے کر فاٹا اِسی طرح چلایا جا رہا ہے جیسے کہ برطانوی کالونیل انتظامیہ اِسے چلایا کرتی تھی۔ انسانی حقوق کی آئینی گارنٹیوں کا یہاں اطلاق نہیں ہوتا اور فاٹا کئی سویلین اداروں مثلاً عدالت، ٹیکس، پولیس وغیرہ کے دائرہ کار سے باہر ہے۔
وفاقی حکومت کی فاٹا کے مستقبل کے حوالے سے بنائی گئی کمیٹی نے ایف سی آر کے فوری خاتمے کی سفارش نہیں کی۔ اُس نے ایک پانچ سالہ عبوری دور کی تجویز دی جس میں رواج ایکٹ کے نام سے عبوری قوانین کا نفاذ تھا۔ رواج ایکٹ کو علاقے کی رسوم و رواج، پاکستانی قوانین اور ایف سی آر کا ملغوبہ ہونا تھا۔
اِس تجویز کی سخت مخالفت کی گئی ہے۔ الحاج شاہ جی گل آفریدی، جوکہ خیبر ایجنسی سے قومی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں، اِس حکومتی تجویز کو خامیوں سے بھرپور قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اِس مجوزہ قانون میں ایسی شقیں موجود ہیں جو ایف سی آر کا حوالہ دیتی ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جب قانون کی آخری شق یہ کہہ رہی ہے کہ اُس کے نفاذ کے بعد ایف سی آر کالعدم ہوجائے گا؟‘
پشاور کے ایک سینیئر وکیل اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما لطیف آفریدی مانتے ہیں کہ ’رواج‘ یعنی علاقے کی روایات کو کاغذ پر لانا ناممکن حد تک مشکل ہوگا کیوں کہ یہ ہر ایجنسی میں مختلف ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر بھی اِس مجوزہ قانون کو ایف سی آر کا ’اوتار‘ قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ رواج ایکٹ پاکستانی قوانین سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ’میں ایسا قانون کیسے منظور کرسکتا ہوں جو 800 افغانیوں کے عوض ایک عورت فروخت کرنے کی اجازت دیتا ہے؟‘
کُرّم ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر پاراچنار کے شمال میں ہمیشہ برف سے ڈھکا کوہِ سفید موجود ہے۔ باقی کے 3 اطراف میں افغانستان کے صوبے ننگرہار، پکتیا اور خوست صوبے ہیں۔ جغرافیائی طور پر یہ پشاور کے مقابلے میں کابل سے زیادہ نزدیک ہے۔ اِسے باقی پاکستان سے صرف ایک سڑک منسلک کرتی ہے جوکہ ضلع ہنگو سے ہوکر گزرتی ہے۔
کُرّم میں ایک بڑی تعداد میں اہلِ تشیع آباد ہیں۔ سیّد برادری، تقریباً پورے ’طوری‘ قبیلے اور بنگش قبیلے کے ایک بڑے حصے پر مشتمل اہلِ تشیع آبادی کرم ایجنسی کے بالائی حصوں میں مقیم ہے۔ وہ بے ضابطہ لکیر جو اُنہیں وسطی اور زیریں کُرّم میں مقیم سنّیوں سے الگ کرتی ہے، بالش خیل علاقے سے گزرتی ہے۔
اِس فرقہ وارانہ تقسیم کی وجہ سے کُرّم، بالخصوص پاراچنار میں بے پناہ تشدد ہوا ہے۔ حال ہی میں اِس سال جون کی 23 تاریخ کو پاراچنار بازار میں یکے بعد دیگرے کئی دھماکوں میں کم از کم 67 افراد ہلاک اور 200 زخمی ہوئے، جس کے نتیجے میں 8 روزہ طویل دھرنا دیا گیا جو صرف تب ختم ہوا جب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ مظاہرین سے ملے اور اُنہیں یقین دلایا کہ اُن کی رنجشوں کو دور کیا جائے گا۔
دھماکوں سے تقریباً ایک ماہ قبل پاراچنار پریس کلب میں صحافیوں، سماجی کارکنوں اور سیاسی رہنماؤں کی ایک چھوٹی سی بیٹھک ہے جس میں فاٹا کے خیبر پختونخوا سے مجوزہ انضمام پر بات کی جا رہی ہے۔ عینک پہنے ہوئے باریش شبیر حسین ساجدی، جو تقریباً 45 سال کے ہیں، کُرّم ایجنسی میں مجلس وحدت المسلمین کے جنرل سیکریٹری ہیں اور انضمام کے حامی ہیں۔ وہ قبائلی علاقوں میں موجودہ انتظامی نظام پر تنقید کرتے ہیں جس نے پولیٹیکل ایجنٹ کو بادشاہ بنا دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جب ایک ہی شخص کو ریاست کے تینوں ستونوں عدلیہ، انتظامیہ، اور مقننہ کے اختیارات تھما دیے جائیں تو اور آپ کیا توقع کرسکتے ہیں؟‘
ساجدی کہتے ہیں کہ طاقت کے ارتکاز کی وجہ سے فاٹا میں بدعنوانی کا دور دورہ ہے۔ یہاں بدعنوانی اتنی زیادہ ہے کہ ہر محکمے کی ہر آسامی فروخت ہوتی ہے۔ وہ یہ بھی الزام لگاتے ہیں کہ صرف انتظامیہ کے مخبروں کو ہی اِس سرکاری فہرست میں شامل کیا جاتا ہے جس میں سے جرگہ اراکین کا انتخاب ہوتا ہے۔ جب سے ہمارے جرگے حکومتی سرپرستی میں ہونے شروع ہوئے ہیں، تب سے ہر کوئی ہر ملک کے ریٹ جانتا ہے۔ اُن کا ماننا ہے کہ یہ سب صرف تب ختم ہوگا جب مَلک اور پولیٹیکل ایجنٹ کو لامحدود اختیارات دینے والے ایف سی آر پر قائم عدالتی اور انتظامی نظام کو لپیٹ نہیں دیا جاتا۔
بیٹھک میں موجود ایک اور مَلک، دلدار حسین طوری، ساجدی کی باتوں کی تائید کے لیے داستانی ثبوت پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ 7 سالوں سے جرگوں میں شریک رہے ہیں اور ایسے کسی جرگے کو نہیں جانتے جو 6 ماہ کے اندر اندر فیصلے تک پہنچا ہو۔ اُن کے مطابق اتنا عرصہ تو صرف لوگوں کو اکٹھا کرنے اور مقدمے میں شامل کرنے میں لگ جاتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ تنازعے کے فریق کئی ماہ تک زیادہ سے زیادہ مَلک کو اپنے ساتھ کرنے کے لیے لابنگ کرتے ہیں تاکہ فیصلہ اپنے حق میں کروایا جاسکے۔ جرگوں کی جانب سے تیز اور سستے انصاف کی فراہمی کے تصور کو جھٹلاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے اُنہیں مَلکوں کے گھروں کے باہر کھڑے ہوئے، اُن کے لیے کھانا لے جاتے، اُن کی منت سماجت کرتے اور اُن پر عنایات کرتے دیکھا ہے۔ اِس پورے مرحلے میں دسیوں لاکھ روپے، بے پناہ وقت اور ذہنی سکون برباد ہوتا ہے۔‘
طوری، جنہیں اُن کے دعوے کے مطابق اُسی صبح 2 لاکھ روپے رشوت کی پیشکش کی گئی تھی۔ کہتے ہیں کہ جرگے کا رکن ہونے سے مَلک کو زبردست کاروباری مواقع ملتے ہیں، یاد رہے کہ اِن کے پاس عموماً کوئی دوسرا ذریعہءِ آمدنی نہیں ہوتا،۔ وہ پوچھتے ہیں کہ ایسی صورت میں کہ جب ایک مَلک کو ماہانہ صرف 4000 روپے مشاہرہ ملتا ہے اور اُنہیں مکمل طور پر پولیٹیکل ایجنٹ کی خواہشات کے مطابق کام کرنا پڑتا ہے، ایسے میں جب تک کہ اضافی فوائد موجود نہ ہوں، تو کوئی مَلک کیوں بننا چاہے گا؟
طوری کُرّم سے 60 سے 70 لوگوں کو جانتے ہیں جن کے بارے میں اُن کا دعویٰ ہے کہ وہ بغیر کسی جرم کے جیل میں بند ہیں۔ اُن کے اِس دعوے کی فوراً ہی کمرے میں موجود تمام لوگ تائید کرتے ہیں۔ وہ خود بھی اِس سال دو مرتبہ جیل جاچکے ہیں۔ ’[پولیٹیکل ایجنٹ نے] مجھ پر اُن کے آفس سے فائل چرانے کا الزام لگایا تھا مگر ایک مقامی رکنِ قومی اسمبلی نے میری مدد کی۔ مگر علاقے میں زیادہ تر لوگوں کو ایسا سہارا حاصل نہیں ہے۔‘
مقامی صحافی اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے پاراچنار میں کوآرڈینیٹر عظمت علی زئی ایک شخص کی مثال دیتے ہیں جس کے والد اور پھوپھی 2 سال پہلے مارے گئے تھے مگر اُسے ابھی تک انصاف نہیں ملا ہے۔ وہ کہتے ہیں قاتل کھلے عام گھوم رہے ہیں مگر مقتولین کے اپنے گھرانے کا ایک شخص 2 سال سے جیل میں ہے۔‘
علی زئی کہتے ہیں کہ وہ پاکستانی عدالتی نظام کے کوئی مداح نہیں ہے مگر دلیل دیتے ہیں کہ کیوں کہ ایک نظام خامیوں سے پاک نہیں، تو ہمیں نقائص سے بھرے دوسرے نظام کے ماتحت رکھنا غیر منصفانہ ہے۔‘
ساجدی کہتے ہیں کہ اِن دونوں نظاموں میں ایک اہم فرق موجود ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مستقل علاقوں میں رات کے 2 بجے کسی بھی شخص کو گھر سے گھسیٹ کر جیل میں نہیں پھینکا جاسکتا۔ وہ نکتہ اُٹھاتے ہیں کہ اِس کام کے لیے کم از کم وارنٹ گرفتاری ضرور چاہیے ہوتا ہے۔ اِس کے علاوہ اُن کے مطابق مستقل علاقوں کے لوگوں کو علاقہ انتظامیہ کی مخالفت کرنے پر سنگین نتائج کا خطرہ نہیں ہوتا۔ وہ چیلنج کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ باہر سڑک پر جائیں اور کسی سے بھی پولیٹیکل ایجنٹ کے خلاف کچھ کہنے کے لیے کہیں۔ یہاں ہر کوئی خود ہی اپنی زبان بند رکھتا ہے کیوں کہ سب جانتے ہیں کہ اُن کے ساتھ کیا ہوسکتا ہے۔ یہ بدترین سے بھی بدترین ظلم ہے۔
ساجدی اِس انضمام کے مخالفین کی اِس دلیل کے بھی خلاف ہیں کہ خیبر پختونخوا سے انضمام پر قبائلیوں کو اپنی صدیوں پُرانی ثقافت و روایات کو چھوڑنا پڑے گا۔ وہ پوچھتے ہیں کہ کیا ایف سی آر کے تحت جینا اپنی روایات کے تحت جینے کے برابر ہے؟‘
وہ کہتے ہیں کہ رجعت پسند روایات سے کسی بھی صورت میں چھٹکارہ حاصل کرنا چاہیے۔ آخر 1901ء اور 2017ء میں کچھ تو فرق ہو۔
30 سال سے کچھ اوپر کے نظام الدین خان سالارزئی فاٹا میں پاکستان مسلم لیگ (ن) (پی ایم ایل این) کے یوتھ ونگ کے سربراہ ہیں۔ اُن کے والد شہاب الدین خان سالارزئی سب سے زیادہ آبادی والی قبائلی ایجنسی باجوڑ سے رکنِ قومی اسمبلی ہیں۔
اپنے آبائی علاقے 'پشت' میں اپنے حجرے کی بالکونی میں بیٹھ کر افغان سرحد کے ساتھ اونچے پہاڑوں کو دیکھتے ہوئے جونیئر سالارزئی اِس امکان کو مسترد کرتے ہیں کہ فاٹا میں اب معاملات ویسے ہی چلتے رہیں گے جیسے کہ ہمیشہ سے چلتے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ روایتی قبائلی نظام جو کبھی کارآمد تھا، اب اِس کی روح اتنی کارآمد نہیں رہی۔ خان اور مَلک کبھی غیر مشروط عزت و تکریم کے حامل تھے اور انصاف کے بے داغ سرچشمے، مگر اب کاروباری افراد نے اُن کی جگہ لے لی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قبائلی نظام کے متعلق اب صرف یادِ ماضی رہ گئی ہے اور اِس کا بہانہ وہ لوگ بناتے ہیں جو ایف سی آر سے فوائد اُٹھاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اِس وقت فاٹا کی کئی قانونی چیزیں خیبر پختونخوا سے انضمام کے بعد غیر قانونی ہوجائیں گی اور یہی لوگوں کی سب سے بڑی پریشانی ہے۔ میرے گھر کی چھت پر ایک اینٹی ایئر کرافٹ گن نصب ہے اور یہ یہاں جرم نہیں ہے۔ اگر میں کسی سے رقم کی وصولی کے لیے اُسے اغواء کرلوں تو یہ یہاں جرم نہیں ہے۔ اگر میں ایک عورت اور اُس کے آشنا مرد کو قتل کردوں، تو یہ یہاں جرم نہیں ہے۔ خیبر پختونخوا میں یہ سب بڑے جرائم ہیں۔
پبلک پالیسی کی ڈگری رکھنے والے سالارزئی ایسے نظام کے حامی ہیں جس میں زیادہ احتساب ہو اور جہاں افراد اپنے نمائندوں تک رسائی رکھتے ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں خیبر پختونخوا اسمبلی کے باہر دھرنا دے سکتا ہوں اور کم از کم یہ پوچھ ضرور سکتا ہوں کہ مجھے میرے حقوق سے کیوں محروم کیا جا رہا ہے؟ مگر آپ فاٹا کی کسی سڑک پر 10 لوگوں کے ساتھ دھرنا دیں اور پھر دیکھیں کہ کیا ہوتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ایجنسیوں کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہے، جغرافیائی بھی نہیں۔ اگر مجھے یہاں سے وزیرِستان جانا ہو تو مجھے 90 فیصد سفر [خیبر پختونخوا سے] کرنا ہوگا اور جب میں وہاں پہنچوں گا، تو شاید میں مقامی بول چال سمجھ بھی نہ سکوں۔ قبائل کے درمیان سماجی و ثقافتی فرق بہت وسیع ہے۔
وہ الگ صوبے کی راہ میں اور بھی بہت سی رکاوٹیں دیکھتے ہیں۔ جیسے اِس کا دارالحکومت کہاں ہوگا؟ کیا دارالحکومت تک ہر کسی کی رسائی ہوگی؟ ہم محصولات کیسے پیدا کریں گے؟ کیا ساتوں ایجنسیوں کے سینیٹرز کی تعداد پنجاب جتنی ہی ہوگی؟ کیا ہمارے پاس اپنے صوبائی معاملات چلانے کے لیے انتظامی کیڈر ہے؟
وہ کہتے ہیں کہ قبائلی ایجنسیوں کی ایک دوسرے کے مقابلے میں اپنے اپنے قریبی مستقل ضلعوں سے زیادہ مماثلت ہے۔ باجوڑ کی دیر کے ساتھ مشترکہ تاریخ ہے، مہمند کی چارسدہ کے ساتھ، خیبر کی پشاور کے ساتھ اور اِسی طرح دیگر ایجنسیاں بھی۔ اِنہیں ایک دوسرے کے ساتھ ضم کرنے کے بجائے اِن ضلعوں کے ساتھ ضم کیوں نہیں کردیا جاتا؟
فاٹا کے شہریوں نے پہلی بار اپنی زمینوں کی حیثیت میں تبدیلی کا وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں سنا تھا۔ بھٹو نے 1976ء میں میجر جنرل (ر) نصیراللہ خان بابر کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی تھی جس نے فاٹا کے انتظامی، عدالتی اور سیاسی نظام میں اصلاحات کی سفارش کرنی تھی۔ کمیٹی کی سب سے اہم سفارشوں میں سے ایک سفارش فاٹا کی ایجنسیوں کا اپنے قریبی اضلاع کے ساتھ انضمام تھا۔ اِس پر عملدرآمد اِس لیے نہیں ہوسکا کیوں کہ اگلے ہی سال ایک فوجی بغاوت میں بھٹو حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا تھا۔
یہ جنرل ضیاء الحق تھے جنہوں نے فاٹا کے لیے سینیٹ نشستیں مختص کی تھیں اور بالغ حقِ رائے دہی کو پہلی بار یہاں 1996ء میں نافذ کیا گیا۔ اِس سے پہلے صرف ملک ہی ووٹ دے کر فاٹا کی نمائندگی کے لیے ارکانِ قومی اسمبلی کا انتخاب کرسکتے تھے۔ مگر فاٹا کے پارلیمنٹیرین اپنے علاقوں کے لیے قانون سازی نہیں کرسکتے کیوں کہ اُن علاقوں پر براہِ راست صدرِ پاکستان پارلیمانی نگرانی کے بغیر اور سول و ملٹری بیوروکریسی کے ذریعے کرتے ہیں۔
اگلی دہائی میں کئی اہم مگر اب تک غیر نافذالعمل تجاویز پیش کی گئیں۔ اِن میں 2006ء میں ایک سابق سینیئر بیوروکریٹ صاحبزادہ امتیاز احمد کی سفارشات تھیں جو چاہتے تھے کہ وفاقی حکومت پشاور میں قائم قبائلی علاقوں کے انتظامی مرکز فاٹا سیکریٹریٹ کے لیے فنڈز اور انتظامی خودمختاری میں اضافہ کرے۔
2008ء میں سپریم کورٹ کے جج میاں محمد اجمل نے تجویز دی کہ جرگوں اور پولیٹیکل ایجنٹس کے فیصلوں کے خلاف اپیل کے لیے ایک ہائی کورٹ جج تعینات کیا جائے۔ ایک غیر سرکاری تنظیم شہید بھٹو فاؤنڈیشن نے اُسی سال فاٹا بھر میں کئی کانفرنسیں منعقد کیں جن میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو جواز بخشنے والے قانون پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ اور اعلیٰ عدالتوں کا دائرہ کار قبائلی علاقوں تک پھیلایا جائے۔
کچھ بڑی تبدیلیاں 2011ء میں اُس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے جاری کردہ آرڈیننس کے ذریعے آئیں۔ اُس آرڈیننس کے تحت سیاسی جماعتوں کو فاٹا بھر اپنے دفاتر کھولنے اور سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دی گئی، جب کہ کم از کم کاغذی طور پر ہی سہی مگر پولیٹیکل ایجنٹس کو خواتین، 16 سال سے کم عمر بچوں اور 65 سال سے زیادہ عمر کے بزرگوں کو گرفتار کرنے سے روک دیا۔
آرڈیننس نے مقدمات نمٹانے کے لیے ایک مدت بھی متعین کی، ضمانت کا تصور متعارف کروایا، ایجنسی سے ملحقہ مستقل ضلعے کے کمشنر کو جرگے کے فیصلے کے خلاف اپیل سننے کا اختیار دیا، جھوٹے مقدمات پر معاوضہ متعارف کروایا، پولیٹیکل ایجنٹس کو دستیاب فنڈز کا سرکاری آڈٹ لازم قرار دیا گیا اور سال میں دو دفعہ جیلوں کی انسپیکشن بھی لازم قرار دی۔
جب اِس سال 2 مارچ کو وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا تو کئی لوگوں کو ایسے فیصلے کی اُمید تھی جو فاٹا پر اپنے اثر میں صدر زرداری کے آرڈیننس سے زیادہ ہوگا۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کو چھوڑ کر ہر کسی کو اُمید تھی کہ ایف سی آر کا خاتمہ قریب تھا۔ دونوں جماعتیں حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اتحادی ہیں مگر وہ حکومتی تجاویز کے سخت خلاف ہیں۔
محمود خان اچکزئی نے قومی اسمبلی میں کہا کہ ’فاٹا کے بارے میں بولنے والوں کو فاٹا کے بارے میں کچھ نہیں پتہ۔ صرف مقامی لوگوں کو ہی اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا حق ہے اور انضمام اُن کی مرضی کے بغیر زبردستی نہیں ہونا چاہیے۔‘
مولانا فضل الرحمان نے الزام لگایا کہ یہ انضمام ایک غیر ملکی ایجنڈا تھا اور فاٹا کے 80 فیصد سے زیادہ لوگ اِس کے مخالف تھے۔ اُن کی جماعت کے ترجمان عبدالجلیل جان اُن سے تھوڑا سا مختلف مؤقف رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اگر فاٹا کے عوام انضمام کے حامی ہیں تو جے یو آئی (ایف) کو اِس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ عوام کی مرضی جاننے کے لیے ریفرینڈم کروا لیا جائے۔ ورنہ اگر حکومت غیر جمہوری انداز میں فاٹا کے عوام پر برطانیہ کی طرح اپنی مرضی تھوپنا چاہتی ہے تو کرکے دیکھ لے۔‘
مولانا فضل الرحمان، جو فاٹا کے خیبر پختونخوا سے انضمام کے بجائے اُسے الگ صوبہ بنتے دیکھنا چاہتے ہیں، نے سرکاری کمیٹی کی سفارشات کی اِس سختی سے مخالفت کی کہ وفاقی کابینہ کو آخری منٹ پر اِس انضمام کی توثیق کرنے سے رُکنا پڑا۔ اُس نے فیصلہ کیا کہ فاٹا کو فوراً خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے بجائے اِسے پہلے ’مرکزی دھارے میں‘ لایا جائے گا۔
فاٹا کے ارکانِ پارلیمنٹ نے حکومتی فیصلے کے خلاف اِس کے بعد 6 مئی کو اسلام آباد میں ایک کثیر الجماعتی کانفرنس منعقد کی۔ انہوں نے دھمکی دی کہ اگر 20 مئی تک انضمام کی منظوری نہ دی گئی تو مارچ کیا جائے گا۔ اُن کے دباؤ میں آکر وفاقی حکومت نے ایک بار پھر معاملے پر غور شروع کیا، مگر کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان نے ہانگ کانگ کے دورے پر موجود اُس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف کو فون کیا اور ان سے احتجاج ریکارڈ کروایا۔ نواز شریف نے فوراً ہدایات جاری کیں کہ منصوبے کو اُن کی ملک واپسی تک مؤخر کردیا جائے۔ مگر تب سے لے کر اب تک میڈیا اور سیاستدانوں کے دماغوں پر عدالتی اور سیاسی پیشرفتیں، بشمول وزیرِاعظم نواز شریف کی نااہلی چھائی ہوئی ہیں۔
مسلم لیگ ن کے رہنما اور خیبر پختونخوا کے گورنر کی حیثیت سے فاٹا کے انتظامی سربراہ اقبال ظفر جھگڑا کہتے ہیں کہ ’ہم نے اب بھی اِس معاملے کو چھوڑا نہیں ہے۔ حقیقت میں ہم نے پہلے قدم، یعنی تنازعات کی وجہ سے دربدر ہوچکے لوگوں کی واپسی پر کام شروع کردیا ہے۔‘
وہ مانتے ہیں کہ انضمام میں بنیادی رکاوٹ مولانا فضل الرحمان کے تحفظات ہیں۔ اُن کے مطابق ’[نواز شریف] چاہتے تھے کہ اتنا بڑا قدم اُٹھانے سے قبل تمام سیاسی جماعتیں ایک صفحے پر ہوں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ اُنہیں اگلے عام انتخابات سے قبل کچھ بڑی پیشرفتوں کی اُمید ہے۔
جھگڑا، جو وفاقی حکومت کی فاٹا کمیٹی کے رکن بھی رہ چکے ہیں، اِن اطلاعات کی تردید کرتے ہیں کہ عسکری اسٹیبلشمنٹ انضمام کی حمایت نہیں کرتی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’فوج صرف جلدبازی میں انضمام کے خلاف ہے، اِس لیے ہم نے تجویز دی ہے کہ یہ انضمام دو مراحل میں اگلے 10 سال میں مکمل ہو۔‘
دوسری جانب شاہ جی گل آفریدی جلد سے جلد سیاسی ایجنڈے میں فاٹا کی واپسی چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’[پہلے] ہم نے [احتجاجی تحریک کے لیے] 14 اگست کی ڈیڈلائن رکھی تھی مگر نواز شریف کی نااہلی کی وجہ سے سیاسی صورتحال کی بناء پر اِسے مؤخر کردیا گیا۔‘
بہرحال اِس بات پر واضح طور پر عدم اتفاق پایا جاتا ہے کہ فاٹا کو مستقبل میں کیسے اور کب جانا چاہیے۔
ترجمہ: بلال کریم مغل
انگلش میں پڑھیں۔ یہ مضمون ابتدائی طور پر ہیرالڈ میگزین کے ستمبر 2017 کے شمارے میں شائع ہوا۔ مزید پڑھنے کے لیے ہیرالڈ کی سبسکرپشن حاصل کریں۔
تبصرے (1) بند ہیں