تذکرہ 2017ء کی چند اہم کتابوں کا
شہرِ قائد میں سال کے آغاز میں کراچی لٹریچر فیسٹول جیسا دل موہ لینے والا میلہ سجتا ہے، اور سال کا اختتام عالمی اردو کانفرنس پر ہوتا ہے، جو گزشتہ روز ہی اختتام پذیر ہوئی ہے۔
یہ کانفرنس 10 برس سے لگاتار ہورہی ہے اور پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں کسی ادبی سرگرمی کا اتنے لمبے عرصے تک مستقل ہونا بڑی کامیابی ہے۔ پھر گزشتہ برس کراچی کی ادبی سرگرمیوں میں ایک نفیس اضافہ ہوا۔ یہ تھا سندھ لٹریچر فیسٹول کا۔ دوسرا سندھ لٹریچر فیسٹول 27 سے 29 اکتوبر تک کراچی کے بیچ لگژری ہوٹل میں سجا تھا اور اپنے گہرے اور دیر پا نقوش چھوڑ گیا۔
مگر صاحب، اِس تحریر کا مقصد شہر کی یادگار ادبی تقریبات کا تذکرہ کرنا نہیں، جن میں کُلیات احسن سلیم اور اجرا کے سلور جوبلی نمبر کی تقریب کو بھی شامل کر لیجیے، بلکہ اِس تحریر کا محور تو رواں برس شایع ہونے والی وہ چند کُتب ہیں، جنہوں نے کتابوں کی نشر و اشاعت میں درپیش رکاوٹوں، قارئین کی گھٹتی تعداد اور ادیب کی بے قیمتی کے المیے کو بڑی حد تک کم کردیا، اور راحت کا کچھ سامان کیا۔
یوں تو ہر تجزیہ کار اپنے نکتہ نگاہ سے چیزوں کا تعین کرتا ہے، اور پھر یہ بھی ناممکن ہی ہے کہ آپ سال بھر میں شایع ہونے والے تمام کتابیں پڑھ ڈالیں، ہاں 20ویں صدی کے اوائل میں یہ کسی حد تک ممکن تھا، جب ادب کا کُل سرمایہ شاید اتنا ہی تھا کہ ایک کمرے میں سما جائے، مگر اب کتابیں تواتر سے چھپ رہی ہیں۔ ٹھیک ہے، اِن متون میں جوہر کی کمی ہے مگر یہ ایک پڑاؤ ہے، ہمیں مستقبل سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔
خیر، عرض یہ ہے کہ رواں برس جس کتاب کا سب سے زیادہ چرچا ہوا، وہ بلاشبہ مختار مسعود کی ’حرفِ شوق‘ تھی، جس نے ایک ایسی ہلچل مچائی، جس میں مسرت کا آہنگ شامل تھا اور کیوں نہ ہو، ’آواز دوست‘ جیسی باکمال کتاب کے خالق کی نئی تخلیق کی اشاعت کی خبر دل پذیر تھی۔ ایسی جادوئی نثر اب کہاں ملتی ہے۔ بس ایک بات کا افسوس ہے، یہ کتاب مختار مسعود کے انتقال کے بعد منظرِ عام پر آئی۔ ان کا انتقال بہت سے لوگوں کے لیے انکشاف سے کم نہ تھا کہ وہ خیال کیے بیٹھے تھے کہ جناب مختار مسعود عرصہ ہوا ہم سے بچھڑ گئے ہیں۔ ممتاز فکشن نگار اور نقاد محمد حمید شاہد کے بقول، ’یہ کتاب علی گڑھ سے مختار مسعود کی محبت کی تفسیر ہوگئی ہے۔ کتاب کا اہم حصہ سرسیّد کے حوالے سے ہے۔ تحریر کا دلکش اسلوب قاری کو گرفتار کرلیتا ہے۔‘
یہاں کُلیات احسن سلیم کا تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ یہ اہم کتاب بھی نثری نظم کے اس ممتاز شاعر کے انتقال کے ایک برس بعد شایع ہوئی، جسے ہم بلاتامل سال کا ایک اہم ادبی واقعہ ٹھہرا سکتے ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ نے اپنے ایک کالم میں اس کتاب کا تذکرہ کچھ یوں کیا:
’تصویر سخن کے نام سے احسن سلیم کی کلیات کا اجرا ہوا ہے۔ میں احسن کی کسی بھی نظم یا غزل کا حوالہ دینے سے قاصر ہوں کہ تصور سخن تمام کی تمام کیسے یہاں درج کردوں۔‘
باب رحمت کھلا نہیں کوئی
جیسے میرا خدا نہیں کوئی
جیسا احسن سلیم شاعر ہے
ایسا شاعر ہوا نہیں کوئی
ممتاز فکشن نگار الطاف فاطمہ کی کتاب ’دیدوادید‘ کا چرچا پوری ادبی دنیا میں ہوا۔ اس سینئر، صاحب اسلوب فکشن نگار نے ایک بار پھر اس فن پر اپنی گرفت ہی نہیں، ہم عصروں پر اپنی برتری بھی ثابت کردی۔ جید قلم کار اُن کی نثر کو عظیم اور تخلیقات کو شاہ کار ٹھہراتے ہیں، تو ایسا بے سبب نہیں۔ بلاشبہ وہ ہمارا اثاثہ ہیں۔
ممتاز ڈرامہ نگار اور کالم نویس اصغر ندیم سیّد کا افسانوی مجوعہ ’کہانی مجھے ملی‘ بھی اِسی برس شایع ہوا۔ یہ دس کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ یہ ان کرداروں کی کہانیاں ہیں، جن سے مصنف کا سامنا ہوا، جن سے ہمارا بھی شاید سامنا ہوا ہو، مگر ہم ان کی کہانی اس طرح بیان نہیں کرسکتے، جیسے اصغر ندیم سیّد بیان کرسکتے ہیں۔ وہ اُن قلم کاروں میں سے ہیں، جو روکھی پھیکی حقیقت کو اپنے قلم کے منشور سے گزار کر اُس میں لطیف رنگ بھر دیتے ہیں۔
ناصر عباس نیّر کا شُمار اردو کے اہم ترین ناقدین میں ہوتا ہے، مگر اب وہ فکشن کی دنیا میں بھی قدم رکھ چکے ہیں اور ادھر ان کی آمد خوش آئند ہے۔ پہلا افسانوی مجموعہ ہی اعتبار بخشنے کو کافی تھا مگر دوسرے مجموعے نے تو تصدیق کی مہر ثابت کردی۔ عنوان ہے، ’فرشتہ نہیں آیا۔‘
بقول حمید شاہد، ’دوسرے مجموعے میں بھی اُنہوں نے اپنے مختلف ہونے کی پہچان کو اور گہرا کیا ہے۔‘ اس کتاب میں جس طرح فکشن کو پیش کیا گیا، وہ بھی انوکھا اور متاثر کُن ہے۔ ناصر عباس نیّر کی ایک اور اہم کتاب رواں برس شایع ہوئی۔ موضوع جس کا میراجی تھے اور عنوان تھا، اْس کو اک شخص سمجھنا تو مناسب ہی نہیں۔ تنقیدی حلقوں میں اس کتاب کا بھی بہت چرچا ہوا۔
ہمارے من پسند فکشن نگار، جن کا حوالہ ابھی اوپر دو بار آیا، یعنی محمد حمید شاہد، ان کی تین کتب بھی اسی برس شایع ہوئیں، جن میں ’پیکر جمیل‘،’اردو افسانہ: صورت و معنیٰ‘ اور ’افسانہ کیسے لکھیں۔‘ ’پیکر جمیل‘ کا یہ ساتواں ایڈیشن ہے۔ ’افسانہ: صورت و معنیٰ‘ بھی پاک و ہند کے ادبی حلقوں میں زیرِ بحث رہی۔ سمجھ لیجیے، یہ اِس کا تیسرا ایڈیشن ہے۔
خاکہ نگاری میں ایک عرصے سے خلا تھا، شکر ہے پھر عرفان جاوید منظرِعام پر آئے۔ ’دروازے‘ ان کے شاندار، یادگار، لاجواب خاکوں کا مجموعہ ہے، یہ بیش قیمت کتاب ہے۔ عرفان جاوید نے احمد ندیم قاسمی، احمد فراز، عبداللہ حسین، مستنصر حسین تارڑ، شکیل عادل زادہ، عطا الحق قاسمی کے کیسے تفصیلی اور دل چسپ خاکہ لکھے۔ یہ وہ کتاب ہے صاحب، جو کل ریفرنس کے طور پر استعمال ہوگی۔ جی خوش ہوگیا۔
جو سینئر ادیب ہم سے جدا ہوئے، ان میں نجم الحسن رضوی کا نام بھی شامل ہے۔ اسی برس ان کا افسانوی مجموعہ ’بوری میں بند آدمی‘ شایع ہوا تھا۔ یہ ان کا ساتواں مجموعہ تھا۔ مجھے اپنے پیشہ ورانہ سفر میں ان کا ایک طویل انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ تب یوں لگتا تھا کہ انہوں نے سرطان کو شکست دے دی ہے، مگر یہ موذی مرض پھر لوٹ آیا۔ اُن کے مضامین کا مجموعہ ’ہمارا بدمعاشی نظام‘ بھی رواں برس شایع ہوا، جسے کراچی کے تناظر میں اہم گردایا گیا۔
دیگر نمایاں کتب میں عثمان جامعی کا شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘، سیمیں کرن کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’بات کہی نہیں گئی‘، منزہ احتشام گوندل کی کتاب ’آئینہ گر‘، عاطف علیم کا ناول ’گردبار‘ اور اختر رضا سلیمی کا دوسرا ناول ’جندر‘ شامل ہیں، جو الگ الگ مضامین کے متقاضی ہیں، اور ان پر تفصیلی بحث ہونی چاہیے۔
ادھر سیّد کاشف رضا کا ناول ’کچھوا اور چار درویش‘ بھی ’آج‘ کے تازہ شمارے میں شایع ہوچکا ہے۔ اسی طرح قاسم یعقوب کے تنقیدی مجموعے ’لفظ اور تنقید معنی‘ کی بھی پذیرائی ہوئی۔ ادبی جرائد تو رواں برس کئی آئے، مگر ’سویرا‘ کے افسانہ نمبر کی اشاعت کا ذکر ضروری ہے۔ جناب محمد سلیم رحمان کا دم غنیمت ہے۔ سویرا جیسا پرچہ کوئی اور نہیں۔
اور اب ممتاز گیت نگار گلزار کا تذکرہ۔ نصیرالدین شاہ کے بقول، جن کے دم سے ہندوستان میں اردو زندہ ہے۔ سنگِ میل نے ان کی کلیات ’بال و پر سارے‘ بڑے اہتمام سے شایع کی، جسے اس کی بھاری بھرکم قیمت کے باوجود ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ اچھا، ’آتے ہیں غیب سے‘ کے عنوان سے ممتاز شاعر اور ہر دل عزیز شخصیت انور شعور کا پانچواں شعری مجموعہ آگیا ہے۔ انور شعور کی شاعری اپنی مثال آپ ہے۔ قطعہ نگار اس عہد کے سب سے بڑے وہی ہیں۔ دو شعر ملاحظہ فرمائیں۔
مباحثوں کا ماحصل فقط خلش فقط خلل
سوال ہی سوال ہیں جواب ایک بھی نہیں
اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہوجاتا ہوں
اب میں اکثر میں نہیں رہتا، تم ہوجاتا ہوں
صاحبو، یہ اُن چند کتابوں کا تذکرہ ہے، جو رواں برس ہماری نظر سے گزریں، اِس امید کے ساتھ الوداع کہ اگلے برس مزید معیاری کتابیں نہ صرف شایع ہوں گی، بلکہ زیرِ بحث بھی آئیں گی۔