دہشت گردوں کے 6 سال میں 35 سے زائد تعلیمی اداروں پر حملے
دہشت گردوں نے یکم دسمبر 2017 کی صبح کو صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں موجود زرعی ٹریننگ انسٹیٹیوٹ پر حملہ کرکے ایک مرتبہ پھر بزدلی کا مظاہرہ کیا۔
مسلح دہشت گردوں نے زرعی ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کے ہاسٹل پر حملہ کیا، جس میں کم سے کم 9 افراد ہلاک اور 35 زخمی ہوئے۔
حملے کے فوری بعد پاک فوج، فرنٹیئر کورپس (ایف سی) اور پولیس اہلکاروں نے علاقے کا محاصرہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا۔
بعد ازاں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ حملے میں ملوث تینوں دہشت گردوں کو ہلاک کرکے کلیئرنس آپریشن بھی مکمل کرلیا گیا، بیان کے مطابق آپریشن کے دوران 2 فوجی اہلکار بھی زخمی ہوئے۔
لیکن دہشت گردوں کی جانب سے پاکستان کے تعلیمی اداروں پر یہ پہلا حملہ نہیں تھا، دہشت گرد ماضی میں بھی اپنے ناپاک عزائم کے ذریعے تعلیمی اداروں کو آسان ہدف سمجھ کر نشانہ بناتے رہے ہیں۔
دہشت گردوں نے پاکستانی تاریخ میں تعلیمی اداروں پر سب سے خطرناک حملہ 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر کیا تھا، جس میں کم سے کم 142 بچے اپنوں سے جدا ہوئے تھے۔
تاہم دہشت گردوں کے تعلیمی اداروں پر حملے گزشتہ کئی سال سے جاری ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پشاور: زرعی ٹریننگ انسٹیٹیوٹ پر دہشت گردوں کا حملہ، 9 افراد ہلاک
سال 2011 سے سال 2016 کے آغاز تک دہشت گردوں کی جانب سے پاکستان کے مختلف تعلیمی اداروں پر کم سے کم 35 حملے کیے گئے، جن میں متعدد طلبہ اور اساتذہ ہمیشہ کے لیے اپنے ساتھیوں سے الگ ہوگئے۔
دہشت گردوں کے زیادہ تر حملوں میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی عمارتوں کو نقصان پہنچانے سمیت اسکولوں کو تباہ بھی کیا گیا۔
9 مارچ 2011 کو درہ آدم خیل میں سرکاری اسکول’ کوہی وال مڈل اسکول‘ کی عمارت کو نامعلوم حملہ آوروں کی جانب سے نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں اسکول کی عمارت منہدم ہوگئی تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
17 اپریل 2011 کو خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ میں نامعلوم دہشت گردوں کی جانب سے گورنمنٹ پرائمری بوائز اسکول پر حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں اسکول کے متعدد کلاس رومز تباہ ہوگئے تاہم اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
29 اگست 2011 کو پاکستان کے شمال مغربی حصے میں نامعلوم دہشت گردوں نے پھر اسکول کو نشانہ بنایا، تحصیل شیر دن بندا میں ہونے والے اس واقعے میں دہشت گردوں نے لڑکیوں کے اسکول میں گھی کے ڈبوں کا استعمال کیا اور دھماکا خیز مواد ان ڈبوں میں رکھ کر حملہ کیا جس کے نتیجے میں اسکول کی عمارت تباہ ہوگئی تاہم خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
8 نومبر 2011 کو ضلع مردان میں لڑکیوں کے کٹلنگ کو نامعلوم حملہ آوروں کی جانب سے نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں اسکول کے تین کمرے مکمل تباہ ہوگئے جبکہ 2 کمرے متاثر بھی ہوئے تھے، اس حملے میں 20 کلو گرام دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔
18 جون 2012 کو کوئٹہ میں دہشت گردی کا واقعہ پیش آیا، دہشت گردوں کی جانب سے جناح ٹاؤن کے علاقے میں بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور مینجمنٹ سائنسز( بی یو آئی ٹی ای ایم ایس) کی بس کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں 4 افراد جاں بحق جبکہ 72 زخمی ہوگئے، اس دھماکے کی ذمہ داری کالعدم لشکر جھنگوی کی جانب سے قبول کی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: ملکی تاریخ کا سیاہ دن، پشاور اے پی ایس اسکول پر حملہ
28 جولائی 2012 کو صوابی میں لڑکیوں کے گورنمنٹ پرائمری اسکول کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں اسکول کی عمارت کے 2 کمرے مکمل تباہ ہوگئے۔
31 دسمبر 2012 کو خیبرایجنسی کی تحصیل جمرود میں گرلز اسکول کو دھماکہ خیز مواد سے نشانہ بنایا گیا، جس میں ایک شخص ہلاک ہوگیا، اور عمارت کو نقصان پہنچا۔
یکم مارچ 2013 کو لکی مروت کے گاؤں ابا خیل میں گورنمنٹ بوائز اسکول کو تباہ کردیا گیا۔
30 مارچ 2013 کو کراچی میں اسکول پر گرنیڈ حملہ کیا گیا، جس میں اسکول کے پرنسپل عبدالرشید ہلاک ہوگئے، جب کہ اس حملے میں 4 بچے بھی زخمی ہوئے۔
15 جون 2013 کو بولان میڈیکل کالج یونیورسٹی کی بس کو خودکش حملے کے ذریعے نشانہ بنایا گیا، جس میں 14 طالبات اور ڈپٹی کمشنر بھی ہلاک ہوگیا، بعد ازاں اس دھماکے کی ذمہ داری کالعدم تنطیم لشکر جھنگوی نے قبول کی۔
21 جون 2013 کو محمد ایجنسی میں ایک مرتبہ پھر بوائز اسکول کو تباہ کردیا گیا۔
29 جون 2013 کو لکی مروت میں دو سرکاری اسکولوں کو نشانہ بنایا گیا، دھماکے کے ذریعے گورنمنٹ پرائمری اسکول نصراللہ کے 3 جب کہ گورنمنٹ پرائمری اسکول مطیع اللہ کے 2 کلاس روم مکمل طور پر تباہ کردیے گئے۔
19 اگست 2013 کو محمد ایجنسی میں بھی ایک سرکاری پرائمری اسکول کو تباہ کردیا گیا۔
6 جنوری 2014 کو ہنگو میں نوجوان طالب علم اعتزاز احسن نے گورنمنٹ ہائی اسکول ابراہیم زئی میں خود کش حملے کو ناکام بناتے ہوئے، حملہ آور کو روکنے کی کوشش کی، جس دوران دھماکہ خیز مواد پھٹنے سے طالب اعتزاز احسن بھی چل بسا۔
15 فروری 2014 کو ہنگو میں ایک سرکاری اسکول کو تباہ کردیا گیا۔
8 ستمبر 2014 کو کاالعدم تحریک طالبان کے دہشت گردوں نے باجوڑ میں دوبارہ تعمیر کیے گئے سرکاری اسکول کو تباہ کردیا۔
مزید پڑھیں: کوئٹہ: دہشت گرد حملے میں 14 طالبات ہلاک
14 نومبر 2014 کو چارسدہ اسکول میں گرلز اسکول پر حملہ کیا گیا، دھماکے کے باعث 2 کلاس روم اور اسکول کی چاردیواری کو نقصان پہنچا۔
15 دسمبر 2014 کو چارسدہ میں ہی ایک فلاحی تنظیم کی نگرانی میں چلنے والے اسکول کو بھی تباہ کردیا گیا۔
16 دسمبر 2014 کو ملکی تاریخ میں کسی بھی تعلیمی ادارے پر سب سے خطرناک حملہ کیا گیا، پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پر حملہ کرکے کم سے کم 144 طالب علموں، اساتذہ اور دیگر اسٹاف کو شہید کیا گیا۔
30 دسمبر 2014 کو شدت پسندوں نے کرم ایجنسی میں 2 سرکاری اسکولوں میں توڑ پھوڑ کرکے فرنیچر کو بھی تباہ کردیا۔
15 جنوری 2015 کو صوابی میں گرلز اسکول کے باہر موٹر سائیکل سوار ملزمان نے فائرنگ کردی، تاہم اس واقعے میں کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
3 فروری 2015 کو کراچی کے علاقے گلشن اقبال کے بلاک 7 میں موٹر سائیکل سوار ملزمان نے متعدد نجی اسکولوں پر گرنیڈ حملے کیے، تاہم ان حملوں میں کسی بڑے نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔
یکم مارچ 2015 کو بھی کراچی میں گرلز اسکول میں ریموٹ کنرول دھماکہ کیا گیا، جس میں اسکول کی عمارت کو نقصان پہنچا، تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
19 مارچ 2015 کو ایک مرتبہ پھر کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں ایک اسکول پر گرنیڈ حملہ کیا گیا، تاہم اس میں بھی کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی: اسکول پر حملہ، پرنسپل ہلاک
17 جون 2015 کو باجوڑ ایجنسی میں ایک اسکول کو تباہ کردیا گیا۔
5 جولائی 2015 کو ایک مرتبہ پھر باجوڑ ایجنسی کے ایک اور بوائز اسکول کو تباہ کیا گیا۔
18 اگست 2015 کو بھی باڑہ میں ایک اسکول کو تباہ کیا گیا۔
29 اکتوبر 2015 کو چارسدہ کے علاقے شبقدر میں نامعلوم ملزمان ایک اسکول کے باہر ہوائی فائرنگ کرکے فرار ہوگئے۔
20 جنوری 2016 کو دہشت گردوں نے ایک مرتبہ صوبہ خیبرپختونخوا میں بڑا حملہ کرکے چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی کو نشانہ بنایا، اس حملے میں 21 طلبہ و اساتذہ کو قتل کیا گیا۔