خصوصی بچوں کی سیکیورٹی کیلئے ہدایات جاری
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے سمبڑیال میں گونگے اور بہرے بچوں پر تشدد کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس پنجاب کو حکم دیا ہے کہ وہ خصوصی بچوں کے تعلیمی اداروں کی ٹرانسپورٹ میں 2 غیر مسلح اہلکار تعینات کریں۔
ایڈووکیٹ سید مقداد مہدی کی جانب سے دائر اس عوامی مفاد کے مقدمے کی سماعت چیف جسٹس کی سرکاری رہائش گاہ پر ہوئی۔
درخواست گذار کی وکیل بیرسٹر سارہ بلال نے موقف پیش کیا کہ ڈسکا اسپیشل ایجوکیشن سینٹر کے طالب علموں کی بس میں لڑکے اور لڑکیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ ان کی وڈیو بھی سماجی ویب سائٹس پر وائرل ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ بس کنڈیکٹر مزمل اور مظہر نے طالب علموں کو بالوں سے پکڑا اور ان کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی، انہوں نے بتایا کہ اس غیر انسانی برتاؤ کے باعث خصوصی بچے خوف کا شکار ہیں۔
مزید پڑھیں: معذور نہیں، منفرد بچے
اس موقع پر چیف جسٹس نے پنجاب کے ہوم سیکریٹری اور آئی جی پی سے واقعے کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے آئندہ سماعت میں ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرک پولیس آفیسر سیالکوٹ کو طلب کرلیا۔
چیف جسٹس نے ڈی پی او کو حکم دیا کہ وہ واقعے کی ویڈیو فوٹیج کا جائزہ لیں اور بس اسٹاف کے خلاف کارروائی کریں، ساتھی ہی ایک علیحدہ رپورٹ 4 دسمبر تک پیش کی جائے۔
دوسری طرف پنجاب کے اسپیشل ایجوکیشن سیکریٹری نے خصوصی بچوں پر تشدد کو چھپانے پراور بس کنڈیکٹر کی جانب سے بچوں کو ذلیل کرنے پر ادارے کے سربراہ کو معطل کردیا، ساتھ ہی ادارے کی انچارج رفعت جمیل کو بھی معاملہ چھپانے پر معطل کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: خصوصی بچے سونے کا تمغہ جیتنے کیلئے پرعزم
واقعے کے خلاف سب انسپکٹر اختر حسین کی جانب سے سمبڑیال پولیس اسٹیشن میں درج ایف آئی آر میں موقف اختیار کیا گیا کہ کنڈیکٹر کی جانب سے بچوں پراس وقت بدترین تشدد کیا گیا جب وہ اسکول بس کے ذریعے تعلیمی ادارے جارہے تھے۔
واضح رہے کہ مقدمہ درج ہونے کے بعد پولیس نے دونوں ملزمان کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا۔
دریں اثناء سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر فرخ نوید کی جانب سے بھی واقعے کی محکمانہ تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل میثم عباس کو اس کا انکوائر افسر مقرر کردیا۔
یہ خبر 17 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی