الیکشن ایکٹ 2017: ختم نبوت سے متعلق ترامیم کی بحالی کی ہدایت
اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکومت کی جانب سے حال ہی میں منظور کیے جانے والے الیکشن ایکٹ 2017 میں ختم نبوت سے متعلق مبینہ ترامیم کو بحال کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے احمدی برادری سے متعلق درخواست پر وفاق سے 14 روز میں جواب طلب کرلیا۔
الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کے خلاف تحریک ختم نبوت کے حامی مولانا اللہ وسایا نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ 2017 میں مبینہ طور پر ختم نبوت کی شقوں میں ترامیم کو اپنی پرانی حیثیت میں بحال کیا جائے اور اس تبدیلی میں ملوث افراد کے حوالے سے بننے والی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے جبکہ سرکاری محکموں میں کام کرنے والے احمدیوں کی اعداد وشمار سے متعلق رپورٹ بھی پیش کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔
جس پر سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے الیکشن ایکٹ 2017 میں مبینہ طور پر ختم نبوت کی شقوں سے متعلق ہونے والی ترامیم کو بحال کرنے کا حکم دے دیا۔
مزید پڑھیں: انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 سپریم کورٹ میں چیلنج
عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ختم نبوت کا معاملہ ہے اسے ایسے نہیں چھوڑ سکتے۔
اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کے فیصلے کی مخالفت کی، ان کا کہنا تھا کہ الیکشن سر پر ہیں اور ایسے احکامات سے افراتفری پھیل جائے گی۔
تاہم عدالت نے احمدی برادری سے متعلق درخواست پر وفاق سے 14 روز میں جواب طلب کرلیا۔
واضح رہے کہ 3 نومبر کو بھی انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کی منظوری کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی تھی۔
درخواست قانون دان ذوالفقار بھٹہ کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر کی گئی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کا منظور کردہ بل آئین کی روح سے متصادم ہے، کیونکہ اس کے تحت عدالت کی جانب سے نااہل قرار دیا گیا شخص پارٹی صدارت کے لیے اہل قرار پائے گا۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ آرٹیکل ’63 اے‘ کے تحت پارٹی صدر کسی بھی رکن پارلیمنٹ کی اہم امور پر قانون سازی کو کنٹرول کرتا ہے اور اگر اہم امور پر کوئی رکن پارلیمنٹ پارٹی صدر کی مرضی کے خلاف ووٹ دے تو اس کا کیس الیکشن کمیشن کو نااہلی کے لیے بھجوایا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان نے الیکشن ریفارمز ایکٹ 2017 سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا
بعد ازاں 6 نومبر 2017 کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے بھی حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا الیکشن ریفارمز ایکٹ 2017 سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔
عمران خان نے مذکورہ درخواست عوامی مفاد کے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر کی تھی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ پاناما فیصلے کے نتیجے میں نوازشریف کو رکن قومی اسمبلی کے عہدے کے لیے نا اہل کیا گیا تھا جبکہ پاناما کیس کے نتیجے میں ہی نوازشریف کومسلم لیگ (ن) کے عہدے سے ہٹنا پڑا تاہم نوازشریف کو مسلم لیگ (ن) میں صدر کے عہدے پر دوبارہ لانے کے لیے الیکشن ایکٹ میں خصوصی ترامیم کی گئیں۔
تاہم 10 نومبر 2017 کو سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی الیکشن بل کے خلاف دائر درخواست اعتراضات لگا کر واپس کرتے ہوئے درخواست گزار کو متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی۔
الیکشن ایکٹ 2017
خیال رہے کہ 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کو نااہل قرار دیئے جانے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مسلم لیگ (ن) کو پارٹی کا نیا صدر منتخب کرکے کمیشن کو آگاہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔
الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ (ن) کو نیا پارٹی صدر منتخب کرنے کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے تحت نااہل شخص پارٹی عہدہ نہیں رکھ سکتا۔
مزید پڑھیں: الیکشن بل کے خلاف عمران خان کی درخواست پر عدالت کے اعتراضات
نواز شریف کی بطور پارٹی صدر نااہلی کے بعد حکمراں جماعت کی مرکزی مجلس عاملہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنما سینیٹر سردار یعقوب کو پارٹی کا قائم مقام صدر منتخب کیا گیا تھا۔
حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کو نواز شریف کو دوبارہ پارٹی کا صدر منتخب کرنے کے سلسلے میں ایک رکاوٹ کا سامنا تھا، جس کے لیے انتخابی اصلاحاتی بل 2017 قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا، جس کے تحت نااہل شخص بھی پارٹی کا صدر منتخب ہوسکتا ہے۔
قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد اس بل کو سینیٹ میں پیش کیا گیا تو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر اعتزاز احسن نے ترمیم پیش کی کہ جو شخص اسمبلی کا رکن بننے کا اہل نہ ہو وہ پارٹی کا سربراہ بھی نہیں بن سکتا جس کے بعد بل پر ووٹنگ ہوئی۔
حکومت نے محض ایک ووٹ کے فرق سے الیکشن بل کی شق 203 میں ترمیم مسترد کرانے میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کی پارٹی صدر بننے کی راہ ہموار کردی۔
یہ بھی پڑھیں: ختم نبوت قانون کو متاثر کرنے والی’کتابت کی غلطی‘درست کی جائے گی،ایاز صادق
مذکورہ بل کی منظوری کے بعد آرٹیکل 62 اور 63 کی وجہ سے نااہل ہونے والا شخص بھی سیاسی جماعت کا سربراہ بننے کا اہل ہوگا۔
دوسری جانب سابق وزیر اعظم نواز شریف کو باآسانی مسلم لیگ (ن) کا دوبارہ صدر منتخب کرنے لیے پارٹی آئین میں بھی ترمیم کردی گئی اور مسلم لیگ (ن) کی مرکزی جنرل کونسل نے پارٹی آئین میں ترمیم کی منظوری دیتے ہوئے دفعہ 120 کو ختم کردیا، جس کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف ایک بار پھر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بلامقابلہ صدر منتخب ہوگئے تھے۔