’عوام کی خواہشات کے برعکس فاٹا کا انضمام نہیں ہونے دیں گے‘
اسلام آباد میں عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے صدر محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ مقامی افراد کی اجازت کے بغیر کسی علاقے کو صوبے میں ضم نہیں کیا جا سکتا۔
عوامی جلسے کا انعقاد فاٹا اور پارلیمنٹیرینز کے مطالبات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا گیا تھا، جس میں محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ صوبے کے وسائل پر پہلا حق مقامی افراد کا ہونا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: فاٹا کا خیبرپختونخوا میں انضمام:سیاسی جماعتوں کااسلام آباد میں احتجاج
خیال رہے کہ فاٹا اور پارلیمنٹیرینز نے 9 اکتوبر کو فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کے مطالبات پورے کرنے کے لیے احتجاجی مظاہرے کیے تھے، جس کے بعد وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ان کی مطالبات کی منظوری کا وعدہ کیا تھا۔
جمعیت علماء اسلام (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے ارکان اسمبلی نے فاٹا اور خیبرپختونخوا کو ضم کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے میں شرکت نہیں کی تھی۔
عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ پختونوں کو پاکستان میں دہشت گرد سمجھا جاتا ہے جبکہ تاریخ میں دیکھا جائے تو پختون عوام کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پختون عوام اپنی سرزمین کی حفاظت کرنا جانتی ہے اور آج تک کبھی کوئی قوم پختونوں پر غالب نہیں آسکی۔
مزید پڑھیں: فاٹا کے انضمام کا فیصلہ ریفرنڈم کے ذریعے کیا جائے،محمود اچکزئی
اس موقع پر سینیٹر سردار محمد اعظم خان موسیٰ نے عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بد قسمتی سے ہم نے تاریخ سے کبھی کوئی سبق نہیں سیکھا جبکہ ہمیں یاد ہونا چاہیے کہ ہم نے عوام کی خواہشات کے بر عکس فیصلے کرنے پر پاکستان کا ایک حصہ کھو دیا تھا، اور بلوچستان میں بھی آزادی کی تحریکیں ان ہی وجوہات کی بنا پر جاری ہیں لیکن ہماری حکومت لوگوں کے مطالبات سننے کو تیار ہی نہیں۔
سینیٹر نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے سے قبل عوام کی رائے جاننے کے لیے فاٹا میں ریفرنڈم کرایا جائے۔
سینیٹر عثمان خان کاکڑ کا عوامی جلسے سے خطاب کے دوران کہنا تھا کہ حکومت پختون عوام پر ظلم بند کرے۔
انہوں نے کہا کہ پختون عوام کی غیر قانونی گرفتاری کے باعث سندھ اور پنجاب میں پختونوں کا رہنا اور کام کرنا مشکل ہوگیا ہے اور انہیں اپنے گھروں تک محدود کردیا گیا ہے جبکہ انہیں صدیوں سے پاکستان میں رہنے کے باوجود مقامی شہری نہیں سمجھا جاتا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پختونوں کے لیے معاشی دروازے بند کردینے سے پوری کمیونٹی اذیت کا شکار ہے۔
مزید پڑھیں: ایک لاکھ پاکستانی ’مشتبہ غیرملکی‘ قرار
پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما مطیع اللہ موسیٰ خیل نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اسلام آباد میں عوامی جلسے کا مقصد فیصلہ کرنے والوں کو یہ پیغام دینا تھا کہ فاٹا کی عوام خیبرپختونخوا سے انضمام نہیں چاہتی۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پختون عوام نے بہت مشکلات برداشت کی ہیں، ملک بھر میں بند کیے گئے 90 ہزار شناختی کارڈز میں سے 99.99 فیصد پختون عوام کے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ شناختی کارڈ کی بندش کی وجہ سے پختون عوام اپنا کاروبار نہیں کرسکتی اور بینک اکاونٹ نہیں کھلوا سکتی یہاں تک کہ اپنے بچوں کو اسکول میں تعلیم تک نہیں دلوا سکتی۔
یہ بھی پڑھیں: آئی ڈی پیز کی تعداد 9لاکھ سے متجاوز، صحت کے مسائل کا سامنا
انہوں نے کہا کہ پختون عوام کو پنجاب اور آزاد کشمیر میں منتقل کیا جا رہا ہے جبکہ ان کی کروڑوں روپے کی زمینیں ان علاقوں میں موجود ہیں۔
پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما پاکستان حالت جنگ کا شکار ہے پختون عوام نے اس ملک کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں جبکہ ہزاروں پختونوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بنا پر بے گھرکردیا گیا۔
یہ خبر 23 اکتوبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی