رضاکارانہ رقم واپسی کا قانون:اٹارنی جنرل سے تحریری جواب طلب
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے رضاکارانہ رقم واپسی کے قانون پر اٹارنی جنرل سے تحریری جواب طلب کرلیا۔
جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بینچ نے نیب قانون میں رقوم کی رضاکارانہ واپسی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ایک طرف نیب کہتا ہے کہ ساڑھے 7 کروڑ کا کیس معمولی ہے، دوسری جانب 10 لاکھ کا مجرم سزا کاٹ رہا ہوتا ہے، دونوں کے نتائج میں فرق ہے، جب کسی کے خلاف انکوائری ہوتی ہے تو چیئرمین نیب چٹھی لکھتے ہیں۔
عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ پلی بارگین اور رضاکارانہ واپسی میں فرق کیا ہے؟ کہا جاتا ہے آجاؤ بھائی کرپشن کر لو چار آنے ہمیں دے دو اور چلے جاؤ، خدا کا خوف کریں ایسا بھی کبھی ہوا ہے؟ کیا کوئی ہے جو اس قانون کا دفاع کرے۔
اٹارنی جنرل نے رضاکارانہ رقم واپسی کے قانون کی مخالفت کردی اور کہا کہ نیب قانون میں تبدیلی کا بل سینیٹ میں زیر التوا ہے، تحریری جواب میں قانون سازی سے متعلق آگاہ کروں گا۔
یہ بھی پڑھیں: چیئرمین نیب کی جانب سے 'پلی بارگین' قانون کا دفاع
جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ چئیرمین نیب کو رضاکارانہ رقم واپسی کے لامحدود اختیارات دیئے گئے، رضاکارانہ رقم واپسی دراصل اعتراف جرم ہے، رضاکارانہ رقم واپسی کے قانون سے جرم کو نیک نیتی بنادیا گیا، رضاکارانہ رقم واپسی کا قانون ایسی شاندار ترمیم کرکے لایا گیا کہ کیا کہنے، اس پر آنکھیں بند نہیں کرسکتے۔
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ 5 لاکھ کے ملزم کو 15 ہزار لے کر چھوڑا جاتا ہے، کیوں نہ اس معاملے پر چیئرمین نیب کو نوٹس جاری کریں۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ عدالت خود مقدمے کا فیصلہ کرے گی۔
عدالت نے اٹارنی جنرل سمیت صوبائی حکومتوں اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد سے جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 8 نومبر تک ملتوی کردی۔