ویل ڈن پی سی بی، ویل ڈن نجم سیٹھی
پاکستان زندہ باد، پاکستان زندہ باد، جیتے گا بھئی جیتے گا، پاکستان جیتے گا
جب پچیس ہزار لوگ ایک ہی نعرہ ایک ساتھ لگائیں، تو اس سے وہ توانائی پیدا ہوتی ہے جو پوری کائنات پر اثرانداز ہوتی ہے۔ اسپورٹس کی دنیا میں اس کا مطلب 'ہوم کراؤڈ ایڈوانٹیج' یا اپنے ملک میں کھیلنے کا فائدہ کہہ سکتے ہیں۔ اور پاکستان کے پاس آزادی کپ، جس میں اس نے 1-2 سے کامیابی حاصل کی، میں یہ فائدہ موجود تھا۔
جب لاہور میں پہلا ٹاس فاف ڈوپلیسی کے حق میں آیا، تو انہوں نے باؤلنگ کا فیصلہ کیا۔ پاکستانی کپتان سرفراز احمد کا کہنا تھا کہ "ہم ویسے بھی بیٹنگ کرنا چاہتے تھے۔ کھلاڑی جوش میں ہیں، کئی پہلی دفعہ کھیل رہے ہیں۔ ہماری توجہ کرکٹ پر ہے۔ ماضی ماضی ہے۔ ہمارے پاس ایک 'زبردست' ٹیم ہے۔"
سرفراز نے کچھ ہی الفاظ میں اپنا مدعا مکمل طور پر بیان کر دیا۔ یہ ان کی ٹیم کے لیے ایک نیا آغاز ہے، وہ ان حالات کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں، اور وہ اپنے لڑکوں کی حمایت میں ہیں۔
فخر زمان نے اس تاریخی سیریز کی پہلی گیند کا سامنا کیا۔ فخر، چیمپیئنز کے چیمپیئن۔ وہ شخص جنہوں نے پاکستان کو بڑے اسٹیج پر بلندی تک پہنچایا۔ وہ سابق نیوی افسر جنہوں نے انڈین ٹیم کو برباد کر دیا۔ چوکا، چوکا، صفر، آؤٹ۔ فخر نے اپنی قسمت آزمائی، اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور چار گیندوں کے بعد وائیڈ سلپ میں کیچ آؤٹ ہوگئے۔
مگر فخر کا کردار معین تھا۔ انہوں نے اگلے میچوں میں تیز تر 21 اور 27 رنز بنائے، مگر اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ کہ انہوں نے دلیرانہ کرکٹ کھیلی۔
پاکستانی بیٹنگ لائن میں دوسرے اور تیسرے نمبر پر احمد شہزاد اور بابر اعظم تھے۔ دونوں ہی لاہور میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے، ایک پچیس سال کے، ایک بائیس سال کے، اور دونوں ہی پاکستان کرکٹ کا مستقبل ہیں۔ دونوں نے باہمی شراکت سے 123 رنز بنائے۔ ان کی اننگز بہت جارحانہ تو نہیں تھی، مگر وہ اتنے غالب ضرور تھے کہ مخالف ٹیم کو احساس دلا دیں کہ یہ پاکستانی میدان تھا۔
شہزاد اور بابر نے تین میچوں میں پاکستان کے کل 554 رنز میں سے 350 بنائے۔ انہوں نے پاکستان کو کروائی گئی گیندوں میں سے تقریباً 70 فیصد کھیلیں۔ جہاں شہزاد پہلے دو میچوں میں تھوڑے ماند دکھائی دیے، وہاں انہوں نے تیسرے میں شاندار کارکردگی دکھائی۔ بابر پہلی گیند کا سامنا کرتے ہی نہایت پرجوش و پراعتماد دکھائی دیے۔
بابر کچھ ہی عرصے میں بہت بڑے اسٹار بنیں گے، بشرط یہ کہ وہ اپنے کزنز (اکمل برادران) کے ضائع شدہ ہنر سے سبق سیکھیں گے اور اپنے پیر زمین پر رکھیں گے۔
بابر پہلے کھیل میں مین آف دی میچ قرار پائے اور شہزاد آخری میچ میں۔ دونوں نے ہی سینچری کرنے کے سنہرے موقعے گنوائے، دونوں نے اپنی ٹیم کے اونچے حتمی اسکور کی خاطر بلاجھجھک اپنی وکٹوں کی قربانی دے دی۔
شعیب ملک چوتھے نمبر پر بیٹنگ کے لیے آئے۔ احمد شہزاد کو چھوڑ کر باقی کی ٹیم پاکستان کے پاس کل 327 بین الاقوامی میچز کا تجربہ تھا۔ ملک خود 376 میچ کھیل چکے ہیں۔ وہ وسیم اکرم کے ماتحت کھیلنے والے آخری کھلاڑی ہیں۔
اور اگر آپ بھی ان لوگوں میں سے ہیں جو یہ پوچھتے ہیں کہ ملک آخر کیوں اب تک ٹیم کا حصہ ہیں، تو تینوں میچوں میں پاکستانی اننگز کا اختتامیہ دیکھیں، 38، 39، اور ٭17، وہ بھی 188 کے ہوشربا اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ۔
بابر، شہزاد، اور ملک نے سیریز میں پاکستان کے کل رنز کا تقریباً 80 فیصد اسکور کیا۔ لوئر مڈل آرڈر کی کم ہی ضرورت پیش آئی۔ جب پاکستانی کرکٹرز لاہور میں کرکٹ کے شاندار ماضی کی یاد تازہ کر رہے تھے، تو ورلڈ الیون کے باؤلرز کے لیے پاکستانی بلے بازوں کو روکنا مشکل ہو رہا تھا۔
پاکستان نے تینوں میچوں میں پہلے بیٹنگ کی اور یہ اس کے باؤلرز پر تھا کہ وہ قذافی اسٹیڈیم کی روایتی ہموار وکٹ اور چھوٹی باؤنڈریز پر رنز کا تعاقب کس طرح روک پاتے ہیں۔
عماد نے تینوں میچوں میں پاکستان کے لیے باؤلنگ کا آغاز کیا۔ وہ واحد پاکستانی باؤلر تھے جنہوں نے ہر میچ میں اپنے کوٹہ پورا کیا۔ وہ مختصر فارمیٹ کے کھیلوں میں محمد حفیظ کی جگہ لے سکتے ہیں۔ وہ دونوں ٹیمز میں سے واحد باؤلر تھے جو اوور میں سات سے بھی کم رنز دینے میں کامیاب رہے۔
پاکستان کی فاسٹ باؤلنگ نے درمیانے اوورز میں بھی بہترین لائن اور لینتھ کے ساتھ مختلف رفتار کی باؤلنگ کروائی۔ مگر صرف یہی نہیں، بلکہ پاکستان باقاعدگی کے ساتھ وکٹیں لینے میں بھی کامیاب رہا اور پہلا میچ 20 رنز سے جیت لیا۔
دوسرا میچ تھوڑا مختلف تھا۔ ہاشم آملہ نے ورلڈ الیون کی اس سیریز میں واحد نصف سینچری بنائی۔ ورلڈ الیون کی جانب سے پیریرا نے رومان رئیس کی کروائی گئی میچ کی آخری گیند پر ایک چھکے کے ساتھ ہدف حاصل کر لیا۔
آخری میچ پہلے میچ سے کہیں زیادہ یکطرفہ تھا۔ پاکستان نے ابتدائی وکٹیں حاصل کیں اور ورلڈ الیون کو 67/5 پر محدود کر دیا۔ پیریرا نے اپنے جوہر دکھانے کی کوشش کی مگر اپنے پارٹنرز سے کوئی مدد نہ مل سکی۔ پاکستان 33 رنز سے یہ میچ اور نتیجتاً سیریز جیتنے میں کامیاب رہا۔
پاکستان نے گیند اور بلے سے تو ورلڈ الیون کو تو ہرایا ہی، مگر اس سے بھی زیادہ حیران کن اور دلآویز چیز میدان میں پاکستان کی توانائی تھی۔ جس جوش و جذبے کے ساتھ پاکستانی کھلاڑیوں نے کھیل پیش کیا اور میدان میں گیند کا مقابلہ کیا، وہ قابلِ دید تھا۔
فاف ڈوپلیسی نے تو یہاں تک کہا کہ "ان کی فیلڈنگ تو برق رفتار ہے۔ یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔ یہ کسی بھی ٹیم جتنی بہترین ٹیم ہیں۔"
اس سب جوش و جذبے کے بیچ مصباح الحق اور شاہد آفریدی کو اپنے ہی ملک کے لوگوں کے سامنے کرکٹ کو خیرباد کہنے کا موقع بھی ملا۔
کرکٹ ویسٹ انڈیز کے سربراہ ڈیو کیمرون کو پاکستان کی حمایت کرنے کے لیے پی سی بی کے چیئرمین نجم سیٹھی نے خصوصی سکہ پیش کیا۔ ویسٹ انڈیز کا دورہ پاکستان اس نومبر میں متوقع ہے۔
ویل ڈن پی سی بی، ویل ڈن نجم سیٹھی۔
پاکستان نے بالآخر اپنی سرزمین پر کھیلا، وہ بہتر ٹیم تھے، انہوں نے ہر گیند پر پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کا مزہ لیا۔ امید ہے کہ کرکٹ یہاں سے اب دوبارہ نہیں جائے گی۔
یہ بلاگ ابتدائی طور پر انگلش میں شائع ہوا۔