کچھی کینال کا افتتاح ایک خوش آئند اقدام مگر تکمیل ضروری ہے
ظاہری طور پر ہی سہی، مگر یہ لگتا ہے کہ سالوں میں پہلی بار حکومت نے بلوچستان میں ایک قدم اٹھایا ہے جو بلوچستان کے عوام کے لیے حقیقی طور پر فائدہ مند ثابت ہوگا۔
جمعرات کے روز وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے ڈیرہ بگٹی کی تحصیل سوئی میں 363 کلومیٹر طویل کچھی کینال کا افتتاح کیا۔ 80 ارب روپے کی لاگت سے تیار ہونے والا یہ منصوبہ پہلے مرحلے میں تحصیل کی 72 ہزار ایکڑ بنجر زمین سیراب کرے گا۔ دوسرے اور تیسرے مرحلے میں اسے سطحِ مرتفع کچھی اور اس سے بھی آگے جھل مگسی، بولان اور نصیر آباد ضلعوں تک پھیلایا جائے گا۔
اس موقع پر وزیرِ اعظم نے کہا کہ یہ منصوبہ ڈیرہ بگٹی کے عوام کی قسمت بدل دے گا، اور کہا کہ بلوچستان ملک کا امیر ترین صوبہ بنے گا۔
یہ خوش آئند ہے کہ ایک عرصے سے محروم صوبہ نئے کینال کے ذریعے دریائے سندھ کے پانی سے مستفید ہوگا، اور ملکی زراعت کے لیے خون جتنی اہمیت رکھنے والے پانی سے اپنا حصہ لے گا۔ اس طرح ڈیرہ بگٹی کے لوگوں کو آمدنی کا ایک اور ذریعہ حاصل ہوگا جن کے لیے سوئی گیس فیلڈ باقاعدہ آمدنی کا ایک بہت محدود ذریعہ ہے۔
وہ لوگ جو مزدوری کی تلاش میں فصل کٹائی کے موسم میں بلوچستان اور سندھ کے دوسرے حصوں کی جانب ہجرت کر جاتے ہیں، انہیں اب زیادہ ہجرت نہیں کرنی پڑے گی۔
زمین کے سیراب اور قابلِ زراعت ہونے سے نہ صرف اجناس اور دیگر فصلوں کی پیداوار میں اضافہ ہوگا بلکہ زمین کی قیمتیں بھی بڑھیں گی۔ مگر ہمیں اس موقع پر کچھ اہم نکات کا خیال ضرور رکھنا چاہیے۔
یہ کینال صوبہ پنجاب کے تونسہ بیراج سے نکلتا ہے، اور اس کی سب سے زیادہ لمبائی اب بھی پنجاب سے گزرتی ہے: 363 کلومیٹر طویل اپنے پہلے مرحلے میں اس کا صرف 81 کلومیٹر حصہ بلوچستان میں ہے جبکہ باقی سارا پنجاب میں۔ اس کے علاوہ ابھی تک کوئی تاریخ نہیں دی گئیں کہ دوسرا اور تیسرا مرحلہ کب شروع ہوگا۔
اس کے علاوہ، کیوں کہ اس منصوبے سے 7 لاکھ 13 ہزار ایکڑ زمین کو پانی فراہم کرنا ہے، اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ابھی تک منصوبے کا صرف دس فیصد حصہ مکمل ہوا ہے۔ اور بھلے ہی اس کینال کی 6000 کیوسک پانی لے جانے کی صلاحیت پٹ فیڈر یا کیرتھر کینال سے کہیں زیادہ ہے، مگر بہاؤ کی نچلی جانب ہونے کے اپنے الگ نقصانات ہیں۔
جائز وجوہات کی بناء پر بلوچوں کے درمیان ریاست سے مایوسی کافی زیادہ ہے۔ اس مایوسی کو کچھ حد تک ختم کرنے اور منصوبے سے وابستہ امیدیں پوری کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ اپنے پہلے مرحلے سے آگے بڑھے۔
یہ اداریہ ڈان اخبار میں 16 ستمبر 2017 کو شائع ہوا۔