کرکٹ جاری رہے گی، دہشتگرد نہیں جیتیں گے
پہلے زمبابوے کی ٹیم لاہور آئی، اور پاکستانی تماشائیوں نے ان کا حوصلہ اس قدر بڑھایا کہ انہیں محسوس ہوا کہ جیسے وہ ہرارے کے ہی میدان میں کھیل رہے ہوں۔ پھر یہاں آمد ہوئی ڈیرن سمی کی اور لبرٹی چوک کے قریب وہ کچھ اس طرح محوِ جشن ہوئے کہ جیسے ایک پشاور کا باشندہ ہو، اور کوئٹہ فتح کیا ہو، (جو انہوں نے کیا بھی تھا۔)
قذافی اسٹیڈیم کی طویل القامت لائٹوں کی روشنیوں میں پاکستان سے کھیلنے اب آئی سی سی ورلڈ الیون ٹیم آ رہی ہے، جو بین الاقوامی سطح کی ٹیم کا درجہ رکھتی ہے۔
پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کا طویل اور کٹھن راستہ اسی شہر سے شروع ہوا ہے جہاں دہشتگردوں نے سری لنکن ٹیم کو نشانہ بنایا اور پاکستان کرکٹ کی قسمت کے ستاروں کا رخ ایک دہائی کے لیے زوال کی طرف موڑ دیا۔
لیکن پی سی بی نے اپنے وژن اور ثابت قدمی کے ساتھ نجم سیٹھی کی زیر قیادت بین الاقوامی کرکٹ کو پاکستان، بلکہ اپنے آبائی شہر لاہور، لانے کے لیے ایک غیر معمولی پیش رفت کی ہے۔
یو بی ایل آزادی کپ 2017، پاکستان کرکٹ کے ساتھ عالمی یکجہتی کا ایک خوشگوار مظاہرہ ہے۔ ٹیم میں سات ملکوں کے کھلاڑی شامل ہیں، جو کلی طور پر اپنے نام 6 عالمی ٹی 20 اعزازات رکھتے ہیں، اور مجموعی طور پر 510 بین الاقوامی ٹی 20 کرکٹ میچز کھیلنے کا تجربہ رکھتے ہیں جو اب پاکستان کے دیوانہ وار کرکٹ شائقین کے سامنے اپنے کھیل کا مظاہرہ پیش کریں گے۔
ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ جب آئی سی سی ورلڈ الیون ٹیم اپنے ہی ایک ممبر کے خلاف باضابطہ طور پر ٹی 20 بین الاقوامی میچ کھیلے گی۔ اس سے قبل ورلڈ الیون ٹیم صرف 2005 میں مضبوط آسٹریلین ٹیم کے خلاف کھیل چکی ہے۔ آسٹریلیا نے واحد ٹیسٹ میں 201 سے فتح حاصل کی تھی اور ایک روزہ میچ کی سیریز میں 0-3 کے ساتھ کلین سوئیپ کر دیا تھا۔ ان دنوں یہ ٹیم اپنے عروج پر تھی، اور اس ٹیم کو کبھی کم تر تصور کرنے والی دنیائے کرکٹ پر تب انہی کا راج تھا۔
لیکن پھر بھی عالمی شہرت یافتہ کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم کا کسی ریگیولر ٹیم، جو کہ ایک طویل عرصے سے ایک ساتھ کھیلتی اور پریکٹس کرتی رہی ہے، کے خلاف کھیلنا کافی کٹھن ہوگا۔ مگر کرکٹ کے مختصر ترین فارمیٹ یعنی ٹی 20 میں چند متاثر کن کھلاڑی اگرچہ چند گیندوں میں نہ سہی لیکن چند اوورز میں میچ کا رخ کا بدل سکتے ہیں۔
ورلڈ الیون کی بیٹنگ لائن کافی متاثر کن ہے، جس میں جنوبی افریقہ کی رن مشین ہاشم آملہ، آسٹریلوی جارج بیلے، انگلینڈ کے پاؤل کولن ووڈ، بنگلہ دیش سے تمیم اقبال، اور ویسٹ انڈین اسٹار ڈیرن سیمی شامل ہیں۔ اس ٹیم میں پانچ مختلف غیر ملکی ٹیموں کے سابق کپتان (اور اس وقت اپنی اپنی ٹیموں کے کھلاڑی ہیں) کی قیادت جنوبی افریقہ کی ٹیم کے موجودہ کپتان فاف ڈو پلیسی کریں گے۔
پی سی بی نے چند زبردست پیکجز کی مدد سے ان کھلاڑیوں کو للچانے کی کوشش کی ہے۔ وہ کھلاڑی پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کو دوبارہ زندہ کرنے کے نیک کام میں نہ صرف ہماری مدد کر رہے ہیں، بلکہ اسکواڈ میں شامل ہر فرد کو اپنی خدمات سرانجام دینے کے لیے ایک لاکھ ڈالر دیے جانے کی توقع ہے۔
جبکہ گرانٹ ایلیوٹ نیوزی لینڈ کے وہ پہلے کھلاڑی ہیں جو 13 برس بعد پاکستان میں بین الاقوامی میچ کھیل رہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ، "میں یہاں ملنے والے چند دیگر مواقع کو لے کر بھی کافی پرجوش ہوں، جن پر لاہور مالکان کے ساتھ بات چیت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے حال ہی میں جنوبی افریقہ میں ڈربن قلندرز کی فرینچائز خریدی ہے، اور نومبر سے دسمبر کے درمیان (افتتاحی گلوبل لیگ کے لیے) اس ٹیم کے بطور معاون کوچ ذمہ داریاں سنبھالوں گا۔
عمران طاہر، جو کہ اس ٹورنامنٹ میں شامل 55 بین الاقوامی ٹی 20 میچ کھیلنے اور سب سے زیادہ وکٹ لینے والے کھلاڑی ہیں، کے جذبات بھی کچھ الگ ہوں گے۔ وہ لاہور میں پیدا ہوئے، وہیں پلے بڑے ہیں اور اسی سرزمین کے سپوت ہیں۔ وہ بھی پہلی بار پاکستان میں اپنا بین الاقوامی میچ کھیلیں گے، بلکہ اپنے پیدائشی ملک کی ٹیم کے خلاف میدان میں اتریں گے۔
حال ہی میں برمنگھم میں پاکستان قونصل خانے میں مبینہ طور پر مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد جب وہ یہاں آ کر اپنے مخصوص انداز میں وکٹ لینے کی خوشی منائیں گے تو پاکستان کے بے رحم تماشائیوں کا رد عمل دیدنی ہوگا۔
اس غیر معمولی کرکٹ سیریز میں بیٹنگ اور باؤلنگ کے چند دلچسپ مقابلے دیکھنے کو ملیں گے۔ ورلڈ الیون کی بیٹنگ لائن کے پہاڑ کو گرانے کے لیے پاکستانی ٹیم اپنی باؤلنگ پر انحصار کرے گا۔
پاکستان کے عمدہ باؤلر محمد عامر اپنی اہلیہ کے ہمراہ انگلینڈ میں ہونے کی وجہ سے اگر پوری سیریز نہیں تو بھی ممکن ہے کہ چند میچوں میں نہ کھیل پائیں۔ ممکن ہے کہ اس ہفتے ان کے ہاں پہلے بچے کی پیدائش ہو۔
البتہ میدان میں ان کے شکاری ساتھی حسن علی نے اپنی کمر کس لی ہے اور وکٹوں پر اپنی آنکھیں بھی جما لی ہیں۔ نوجوان کھلاڑی حسن کا کہنا ہے کہ، "ورلڈ الیون ایک اچھی ٹیم ہے، اس میں کافی اچھے کھلاڑی شامل ہیں، میں ان سب کی وکٹ لینے کی کوشش کروں گا۔ لیکن بھائی ہاشم آملہ کی وکٹ ضرور لینا چاہوں گا، یہ میرے لیے ایک باعث مسرت بات ہوگی۔"
قذافی اسٹیڈیم کے ماضی کا ریکارڈ دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ، دونوں ٹیموں کو رنز کے پہاڑ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پاکستانی ٹیم اس وقت اپنے متاثرکن کپتان سرفراز احمد کی زیر قیادت خود کو از سر نو ایک نئی ٹیم میں بدلنے کے مرحلے سے گزر رہی ہے اور یہ سیریز ان کے ایک مضبوط ٹیم بننے میں مددگار ثابت ہو گی۔ پاکستانی ٹیم میں شامل صرف تین کھلاڑی ہی پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کھیل چکے ہیں، جن میں سرفراز احمد، شعیب ملک اور سہیل خان شامل ہیں۔
انگلینڈ اور ویلز کرکٹ بورڈ کے صدر جائلز کلارک، جو آئی سی سی کی پاکستان ٹاسک فورس کے سربراہ ہیں، نے بجا طور پر کہا کہ، "دہشتگرد ہرگز جیت نہیں سکتے اور پاکستان میں کرکٹ کو جاری و ساری رہنا ہوگا۔"
یقین کریں یا نہ کریں، بین الاقوامی کرکٹ پاکستان میں لوٹ آئی ہے۔
میچز:
پاکستان بمقابلہ ورلڈ الیون، پہلا ٹی 20، شہر: لاہور، بتاریخ 12 ستمبر، بروز منگل
پاکستان بمقابلہ ورلڈ الیون، دوسرا ٹی 20، شہر: لاہور، بتاریخ 13 ستمبر، بروز بدھ
پاکستان بمقابلہ ورلڈ الیون، تیسرا ٹی 20، شہر: لاہور، بتاریخ 15 ستمبر، بروز جمعہ
ٹیم پاکستان:
سرفراز احمد، فخر زمان، احمد شہزاد، بابر اعظم، شعیب ملک، عمر امین، عماد وسیم، شاداب خان، محمد نواز، فہیم اشرف، حسن علی، عامر یامین، محمد عامر، رومان رئیس، عثمان خان، سہیل خان
ورلڈ الیون ٹیم:
فاف ڈو پلیسی، ہاشم آملہ، جارج بیلے، پاؤل کولنگ ووڈ، بین کٹنگ، جارج ایلیوٹ، تمیم اقبال، ڈیوڈ ملر، ٹِم پین، تھیسیرا پریرا، ڈیرن سیمی، سیمیوئل بدری، مورن مورکل، عمران طاہر
یہ مضمون ابتدائی طور پر انگلش میں شائع ہوا۔