اداریہ : روہنگیا بحران
گزشتہ کئی برسوں میں میانمار کی مسلم روہنگیا آبادی اور وہاں اکثریت میں موجود بدھوؤں کے درمیان جھڑپیں تو ہوتی رہی ہیں، جس میں عام طور پر مسلم آبادی بدترین ریاستی ظلم و ستم کا شکار بنتی ہے لیکن اس بار جس قدر پرتشدد واقعات رونما ہو رہے ہیں اور اس صورتحال پر جو عالمی رد عمل آیا ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
حالیہ بحران کی صورتحال تب شروع ہوئی جب گزشتہ ماہ روہنگیا عسکریت پسندوں کی جانب سے مبینہ طور پر میانمار سیکیورٹی افسران کو قتل کیا گیا تھا، جس کے بعد سے ہزاروں روہنگیا مہاجرین پڑوسی ملک بنگلہ دیش کا رخ کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیشن کے مطابق تقریباً 2 لاکھ 7 ہزار روہنگیا مسلمان پر خطر راستوں کے ذریعے ملک بدر ہو چکے ہیں، سفر کے دوران ان کی کئی کشتیاں بھی ڈوبیں اور کئی لوگ مارے گئے۔ اقوام متحدہ کی مہاجر ایجنسی کے مطابق، میانمار سے اپنی جان بچا کر فرار ہونے والے "تھکے ہارے، بھوکے اور محفوظ جگہوں سے محروم ہیں۔"
ایسی بھی خبریں ہیں کہ میانمار میں روہنگیا برداری پر سیکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ مشتعل بدھوؤں کے ہجوم بھی حملے کر رہے ہیں، ایک بین الاقوامی میڈیا ادارے نے مسلمان بستیوں کو نذر آتش کیے جانے کی بھی خبر دی ہے۔
پڑھیے: میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کو درپیش مشکلات
جبکہ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے انسانی حقوق نے کہا ہے کہ میانمار میں اندازے کے مطابق ایک ہزار افراد مارے جا چکے ہیں، جن میں زیادہ تر روہنگیا برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ جبکہ کئی روہنگیا باشندے میانمار میں حالیہ تشدد کے خطرے کے پیش نظر وہاں سے فرار ہو چکے ہیں، بنگلہ دیشی مہاجر کیمپوں میں بھی ان کی صورتحال کچھ زیادہ بہتر نہیں۔ ہفتے کے روز ملنے والی خبر کے مطابق کیمپوں میں خوراک اور پانی کی قلت ہے، جبکہ وبائی مرض پھیلنے کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے۔
ان پرتشدد واقعات اور روہنگیا برادری کے لوگوں کی حالت زار پر پاکستان سمیت پوری دنیا سراپا احتجاج ہے۔ میانمار کی ریاستی کونسلر اور نوبل انعام یافتہ آنگ سان سو چی کو بھی زبردست تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ان پر تنقید کرنے والی بڑی شخصیات میں دیس منڈ ٹو ٹو اور ملالہ یوسف زئی شامل ہیں۔ پوری دنیا میں آنگ سان سوچی کے حامیوں کے لیے مایوس کن بات شاید یہ ہے کہ حتیٰ کہ انہوں نے میانمار کے جنرلز کے خلاف کھڑی ہو کر جمہوریت کے لیے جدوجہد کی ہے لیکن روہنگیا معاملے پر ان کا رویہ کافی سرد اور تقریباً عمومی ہے۔
پڑھیے: 11روز میں سوالاکھ کے قریب روہنگیا بنگلہ دیش پہنچے ہیں،اقوام متحدہ
انہوں نے کہا ہے کہ میانمار کے صوبے راکھین، جہاں روہنگیا برادری کی ایک بڑی آبادی موجود ہے، میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے میں "غلط معلومات کا ایک پورا پہاڑ" کھڑا کیا گیا ہے۔ یہ تو سچ ہے کہ سوشل میڈیا پر من گھڑت چیزوں اور غلط معلومات کی بھرمار ہے لیکن روہنگیا باشندوں کی سیکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں جو نسل کشی کی گئی ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔
محترمہ سوچی کو یہ بھی وضاحت دینے ہوگی آخر کیا وجہ ہے کہ مسلمان وہاں سے اتنی بڑی تعداد میں نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔ بلاشبہ میانمار کی ڈوریں اب بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں ہیں، لیکن اگر وہ روہنگیا معاملے پر اپنی آواز نہیں اٹھاتیں تو یوں انہیں جو انسانی حقوق کی چیمپئن ہونے کا رتبہ حاصل ہے اسے اس قدر نقصان ہوگا کہ جسے دوبارہ حاصل کرنا ناممکن ہوگا۔
یہ اداریہ 10 ستمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔