• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:42pm
  • LHR: Asr 3:22pm Maghrib 4:59pm
  • ISB: Asr 3:22pm Maghrib 5:00pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:42pm
  • LHR: Asr 3:22pm Maghrib 4:59pm
  • ISB: Asr 3:22pm Maghrib 5:00pm

’ڈونلڈ ٹرمپ کا لہجہ معاملات کو مزید خراب کردے گا‘

شائع August 22, 2017

امریکا کی جانب سے پیش کی جانے والی نئی افغان پالیسی پر رد عمل دیتے ہوئے پاکستان کے مختلف تجزیہ کاروں، سیاست دانوں اور سابق وزراء نے امریکا کو تنقید کا نشانہ بنایا اور زور دیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دھمکی آمیز لہجہ معاملات کو مزید خراب کردے گا۔

خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان میں مزید ہزاروں امریکی فوجیوں کی تعیناتی کی راہ ہموار کرتے ہوئے طویل ترین جنگ کے خاتمے کے وعدے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں جبکہ پاکستان پر دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے کا الزام دہرا دیا۔

اپنے خطاب میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’ہم پاکستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہوں پر خاموش نہیں رہیں گے‘۔

دھمکی معاملات کو مزید خراب کرسکتی ہے، رحیم اللہ یوسف زئی

امریکا کی نئی افغان پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے تجزیہ کار اور افغان امور کے ماہر رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہی لہجہ ہے وہ سفارتکاری نہیں کرتے، ان کے دھمکی آمیز لہجے کے استعمال سے معاملات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: نئی افغان پالیسی: ٹرمپ کا پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینےکاالزام

ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان کی جنگ جیتیں گے، جس کے لیے وہ مختلف سماجی، اقتصادی، سفارتی اور فوجی ذرائع استعمال کریں گے، اس کے علاوہ ان کا ارادہ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا پاکستان سے مختلف مطالبات کرے گا، ان کا خیال ہے کہ امریکا، افغانستان کی جنگ جیت سکتا ہے لیکن اس کے لیے پاکستان کا تعاون کرنا ضروری ہے، امریکا کا یہ بھی خیال ہے کہ پاکستان نے ان کے ساتھ تعاون نہیں کیا جس کی وجہ سے وہ 16 سال میں جنگ نہیں جیت سکے۔

رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ امریکا کی یہ پالیسی کہ، پاکستان کو مجبور کیا جائے یا دباؤ ڈالا جائے، اس سے مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ اس سے یہ مسئلہ مزید بگڑ سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ عجیب بات ہے کہ ایک جانب امریکا، پاکستان کو تعاون کرنے کے لیے کہہ رہا ہے لیکن ساتھ ہی پاکستان کے دشمن بھارت کو یہ کہا جارہا ہے کہ وہ افغانستان میں مزید اقتصادی تعاون کرے۔

انہوں نے کہا کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ پاکستان ایسے معاملے میں امریکا کو تعاون فراہم کرے جس سے بھارت کی گرفت افغانستان میں مضبوط ہو، جس کے باعث پاکستان کے لیے مزید خطرات پیدا ہوسکتے ہیں، ’میرا خیال ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے‘۔

تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ پاکستان تعاون کرے گا لیکن ایسا نہیں ہے کہ اسے مذکورہ کام کے لیے مجبور کیا جائے اور دھمکی دی جائے۔

ایک سوال کے جواب میں رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ امریکا کی کئی سالوں سے خواہش رہی ہے کہ بھارت افغانستان کے معاملے میں مزید کردار ادا کرے، امریکا تو چاہتا ہے کہ بھارت اپنی فوجیں بھی افغانستان بھجوائے تاہم انڈیا ایسا نہیں کرے گا اور اسے لیے امریکا ان سے نہیں کہتا۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان کو 'امریکیوں کا قبرستان' بنادیں گے: طالبان

بھارت کو افغانستان میں مزید کردار ادا کرنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ کہ شاید امریکا پاکستان سے تعاون نہیں چاہتا اور پاکستان کو مزید ناراض اور غیر محفوظ کرنا چاہتے ہیں اس کے علاوہ امریکا کے اس فیصلے سے چین کو بھی تشویش ہوگی کیونکہ ان دنوں بھارت اور چین کی فوجیں آمنے سامنے ہیں اور ان کے تعلقات کشیدہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ چین کی کوشش رہی ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا حل بات چیت سے تلاش کیا جائے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان کے مسئلے کا حل طاقت کے ذریعے نکالنے جارہے ہیں جبکہ وہ گذشتہ 16 سال سے یہاں اسی طریقے کو استعمال کررہے ہیں لیکن کامیاب نہیں ہوسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا کہ اس عمل سے ایران، روس اور خطے کے دیگر ممالک کو بھی تشویش ہوگی جو افغانستان کے مسئلے کو پُر امن مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے خواہاں تھے۔

دھمکی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو نقصان، سینیٹر رحمٰن ملک

بعد ازاں سابق وزیر داخلہ اور پیپلز پارٹی کے سینیٹر رحمٰن ملک کا کہنا تھا کہ امریکی صدرکی دھمکی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو نقصان ہوگا اور پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانا دہشت گردی کے خلاف جنگ کو سبوتاژ کرنا ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بتائیں کہ افغانستان کو وار زون کس نے بنایا؟ جبکہ امریکا نے ہی پاکستان کو افغانستان کے جنگ میں دھکیلا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا کو پاکستانی فوج و سویلین کی قربانیوں کی قدر کرنی چاہیے۔

سینیٹر رحمٰن ملک کا کہنا تھا کہ بھارت افغانستان کی زمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کررہا ہے۔

انہوں نے حکومت پاکستان کو تجویز دی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر فوری طور پر آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) بلائی جائے اور امریکی دھمکی کو اقوام متحدہ میں لے کر جانا چاہیے۔

امریکا ناکامیوں کا بوجھ پاکستان پر ڈال رہا ہے، عمران خان

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ امریکا افغانستان میں اپنی ناکامیوں کا بوجھ پاکستان پر ڈال رہا ہے.

عمران خان کا کہنا تھا دہائیوں سے نافذ کی گئی ناقص اور ناکام افغان پالیسی حقیقت میں امریکی مایوسی کا سبب ہے جبکہ بھارت کشمیر میں اپنی عسکری حکمت عملی کی ناکامی کا ذمہ دار بھی پاکستان کو ٹھہراتا ہے لیکن کشمیر میں سر اٹھاتی مزاحمت خود بھارت کی اپنی ناکام عسکری حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ الزام تراشی کی اس نئی قسط سے پاکستان کو ہمیشہ کے لیے ناقابل فراموش سبق حاصل کرنا چاہیے اور پاکستان کو سیکھ لینا چاہیے کہ ڈالروں کے عوض پرائی جنگ کو کبھی بھی اپنے گھر تک نہیں لانا چاہیے۔

یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نئی افغان پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان سے پھر ڈومور کا مطالبہ کردیا۔

جنوبی ایشیا کے لیے امریکی پالیسی سناتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے الزام لگایا کہ پاکستان افراتفری پھیلانے والوں کو اکثر پناہ دیتا ہے اور پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں پر اب خاموش نہیں رہیں گے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ہمارا ساتھ دینے سے پاکستان کو فائدہ اور نہ دینے پر نقصان ہوگا جبکہ دوسری جانب امریکی صدر نے بھارت پر زور دیا کہ وہ افغانستان کی ترقی میں کردار ادا کرے۔

بھارت کے افغانستان میں بڑھتے ہوئے کردار پر تشویش، زاہد حسین

ادھر معروف تجزیہ کار اور صحافی زاہد حسین کا کہنا تھا کہ ’امریکا کے اس دباؤ کے باعث دونوں ممالک کے درمیان تعلقات پر سنگین نوعیت کے اثرات مرتب ہوں گے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آغاز کے بعد سے کسی امریکی صدر نے براہ راست پاکستان کو دھمکی دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کو افغانستان میں مزید کردار ادا کرنے کا کہنا، جس سے پاکستان کو ہونے والی تشویش سے امریکا بخوبی واقف ہے، ایک ایسا اقدام ہے جس پر امریکا کی پچھلی انتظامیہ نے انتہائی احتیاط سے کام لیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 28 نومبر 2024
کارٹون : 27 نومبر 2024