• KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm

وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے کیلئے حمزہ شہباز مضبوط امیدوار

شائع July 30, 2017

لاہور: سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف کو بطور وزیر اعظم نااہل قرار دیے جانے کے بعد حکمراں جماعت کی پارلیمانی پارٹی نے شہباز شریف کو نیا وزیر اعظم جبکہ ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ مقرر کرنے پر غور شروع کردیا۔

ن لیگ میں موجود ذرائع کے مطابق تاہم پارٹی نے اس حوالے سے حتمی فیصلہ نہیں کیا کہ پنجاب میں پارٹی کا لیڈر کون ہوگا دوسری جانب مسلم لیگ (ن) اس وقت پنجاب پر اپنی پکڑ کھونے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔

ن لیگ سے تعلق رکھنے والے پنجاب اسمبلی کے ایک سینیئر قانون ساز نے ڈان کو بتایا کہ شہباز شریف اپنے صاحبزادے حمزہ شہباز کو اپنی جگہ وزیر اعلیٰ پنجاب بنانا چاہتے ہیں جو پہلے ہی نائب وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں تاہم ان کی تقرری کا حتمی فیصلہ نواز شریف کریں گے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ جو بھی وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے منتخب ہوگا اسے شہباز شریف سے ہدایات حاصل کرنی ہوں گی جبکہ شہباز شریف اس پوزیشن کے لیے حمزہ شہباز کے ساتھ زیادہ مطمئن ہوں گے اس کے ساتھ ہی شہباز شریف اپنے بیٹے کو اعلیٰ سطح کی قیادت کا تجربہ دلوانے کے خواہشمند ہیں۔

مزید دیکھیں: وزیر اعظم کیخلاف اور شہباز شریف کی حمایت میں بینرز آویزاں

حکمراں جماعت کے رہنما نے یہ بھی بتایا کہ شہباز شریف پنجاب کے معاملات کی بلاواسطہ نگرانی کریں گے جبکہ انکے بھائی (سابق وزیر اعظم نواز شریف) رائے ونڈ میں اپنی رہائش گاہ سے وزارت عظمیٰ کے معاملات کی نگرانی کریں گے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پنجاب میں نئے وزیر اعلیٰ کی تقرری کے بعد شہباز شریف کی ذمہ داریاں بھی دگنی ہو جائیں گی اور وہ مرکز میں اپنے فرائض کی انجام دہی کے ساتھ پنجاب کے امور کی بھی نگرانی کریں گے۔

ن لیگ کے رہنما نے ڈان کو مزید بتایا کہ اگر حمزہ شہباز وزارت اعلیٰ کے منصب پر احسن طریقے سے اپنے فرائض ادا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو وہ آئندہ برس (2018) میں ہونے والے عام انتخابات میں وزارت کے مضبوط ترین امید وار ہوں گے۔

یاد رہے کہ نواز شریف نے وزارت عظمیٰ سبکدوش ہونے کے بعد شہباز شریف کو وزیر اعظم جبکہ وزیر مملکت شاہد خاقان عباسی کو عبوری وزیر اعظم بنانے کا باقاعدہ اعلان کیا۔

یہ بھی دیکھیں: شریف خاندان کیلئے مرغیوں کا صدقہ

پارٹی رہنما نے بتایا کہ مرکز میں شہباز شریف کو لانے اور پنجاب حمزہ شہباز کے حوالے کرنے کا فیصلہ نواز شریف کے لیے انتہائی مشکل ہوگا کیونکہ ممکنہ طور پر نواز شریف اپنے بھائی اور بھتیجے کو مرکز اور پنجاب میں حکمرانی کرتا نہیں دیکھنا چاہیں گے کیونکہ اس کا بلآخر مطلب یہ ہوگا کہ انہوں نے جماعت کے کنٹرول کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شہباز شریف کی جگہ وزیر اعلیٰ کا انتخاب نواز شریف کے لیے انتہائی مشکل ہوگا۔

حال ہی میں حمزہ شہباز اور نواز شریف کے بچوں کے سیاسی جھگڑوں کی افواہیں گردش کر رہی تھیں، حمزہ نے پاناما پیپرز کیس میں اپنے انکل (نواز شریف) کا کھل کر دفاع نہیں کیا جبکہ اس حوالے سے کسی بھی سطح پر زیادہ تبصرہ دینے سے بھی باز رہے تاہم دونوں گھرانوں نے ان افواہوں کی ہمیشہ تردیدی کی۔

مزید پڑھیں: وہ منصوبے جن کا نواز شریف افتتاح نہ کرسکے

حمزہ شہباز اس وقت رکن قومی اسمبلی ہیں اور انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست این اے 119 سے کامیابی حاصل کی تھی۔

اگر حمزہ شہبار اپنی پارٹی کی جانب سے وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے نامزد ہوتے ہیں تو انہیں قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دینا ہوگا اور پنجاب اسمبلی میں اپنے والد کی چھوڑی ہوئی نشست پر الیکشن جیت کر صوبائی اسمبلی میں جانا ہوگا۔

ایک صوبائی وزیر نے ڈان کو بتایا کہ صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ، وزیر اطلاعات مجتبیٰ شجاع الرحمٰن اور وزیر صحت بلال یاسین کو بھی وزیر اعلیٰ بنانے پرغورکیا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کا منصب اور شہباز شریف کی احتیاط

ایک صوبائی وزیر نے ڈان کو بتایا کہ صوبائی وزیر قانونی رانا ثنا اللہ، وزیر اطلاعات مجتبیٰ شجاع الرحمٰن اور وزیر صحت بلال یاسین کو بھی وزیر اعلیٰ بنانے پرغورکیا جارہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اگر پارٹی کی جانب سے حمزہ شہباز کو وزارت اعلیٰ کے لیے منتخب کر لیا جاتا ہے تو ان مذکورہ تین وزراء میں سے کسی ایک کو آئند 45 دن کے لیے عبوری وزیر اعلیٰ مقرر کیا جائے گا لیکن اگر پارٹی کو اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہے تو پھر ان تین ہی میں سے کسی ایک شخص کو وزیر اعلیٰ مقرر کر دیا جائے گا۔

ڈان نے اس حوالے سے حمزہ شہباز سے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی لیکن جواب نہیں مل سکا۔


یہ رپورٹ 30 جولائی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 27 نومبر 2024
کارٹون : 26 نومبر 2024