2پاکستانیوں کا قتل،امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی واقعے پر کتاب
2011 میں مبینہ طور پر اپنی جان بچانے کی کوشش میں لاہور کے 2 نوجوانوں کو قتل کرکے پاکستان میں سفارتی ہلچل پیدا کرنے والے امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس نے پیش آنے والے واقعے اور اپنے تجربے کو کتاب کی شکل میں پیش کردیا۔
'The Contractor: How I Landed in a Pakistani Prison and Ignited a Diplomatic Crisis' نامی یادداشت میں امریکی خفیہ ادارے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے سابق ملازم ریمنڈ ڈیوس نے پاکستان میں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی تفصیلات بیان کی ہیں۔
کتاب کی تفصیلات کے مطابق پاکستان کے شہر لاہور میں 2011 میں پیش آنے والے واقعے کا بغور اور ذاتی جائزہ لیا گیا، جبکہ گرفتاری سمیت وہ واقعات جو ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لیے دونوں ممالک کے سفارت کاروں کی الٹ پلٹ سے پیدا ہوئے وہ درج کیے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ 27 جنوری 2011 میں لاہور کے لائٹن روڈ پولیس کے پاس ریمنڈ ڈیوس پر دو پاکستانی شہریوں کے قتل کے الزام میں مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔
قرطبہ چوک پر فیضان اور فہیم کو قتل کرنے والے مشتبہ شخص کا دو ٹریفک پولیس اہلکاروں نے پیچھا کیا اور جب اسے پکڑا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ نوجوان اسے لوٹنے کی نیت سے اس کا تعاقب کررہے تھے اور اس نے اپنے دفاع میں نوجوانوں پر فائرنگ کی۔
یہ بھی پڑھیں: ریمنڈ ڈیوس کو امریکا میں دوسال قید
امریکی شہری کے ہاتھوں دو افراد کے قتل نے اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات کو کشیدہ کردیا تھا، امریکا کی جانب سے ریمنڈ ڈیوس کے لیے سفارتی استثنیٰ کا دباؤ ڈالا گیا، جو پاکستانی حکام کی جانب سے اس پر کچھ واضح اور کچھ مبہم ردعمل کا سبب بنا۔
اس وقت کے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ گرفتار امریکیوں کو سفارتی استثنٰی نہیں دیا جاسکتا۔
امریکی درخواست اس وقت مزید کمزور ہوگئی جب یہ بات سامنے آئی کہ گرفتار شخص پاکستان میں موجود سی آئی اے کے کارندوں میں سے ایک ہے۔
خون بہا کے عوض ریمنڈ ڈیوس کو دی جانے والی معافی کا مطلب امریکا کی جانب سے اس بات کو تسلیم کرنا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس استثنیٰ کا حقدار نہیں یا اس کا کیس لڑنے والی ٹیم کو اس بات کی امید نہیں رہی کہ وہ انتظامیہ کو رضامند کرسکیں گے کہ ریمنڈ ڈیوس کو استثنیٰ حاصل ہے۔
دفتر خارجہ نے اس معاملے پر کوئی واضح مؤقف اختیار نہیں کیا اور نہ ہی ریمنڈ ڈیوس کے استثنیٰ کے حوالے سے کوئی سرٹیفکیٹ لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرایا۔
دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ ٹرائل کورٹ پر چھوڑ دیا۔
ڈیڑھ مہینے تک جاری رہنے والے اس کشیدہ معاملے کا اختتام 16 مارچ 2011 میں اس وقت ہوا جب ہلاک شدگان کے اہلِ خانہ کو 23 کروڑ روپے (23 لاکھ ڈالر) ادا کرکے اسے پاکستان چھوڑنے کی اجازت دے دی گئی۔
تبصرے (1) بند ہیں