• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

سی ایس ایس میں کامیاب ہونا مشکل کیوں ہے

شائع May 24, 2017 اپ ڈیٹ May 25, 2017
لکھاری سابق سول سرونٹ ہیں۔
لکھاری سابق سول سرونٹ ہیں۔

رواں سال سی ایس ایس امتحان میں 9 ہزار 643 امیدواروں میں سے صرف 202 کامیاب ہو پائے، جس کے بعد اخبارات میں ’سی ایس ایس زوال پذیر ہے’ جیسی سرخیاں پڑھنے کو ملیں۔

ویسے تو اس زوال کی کئی وجوہات ہیں مگر رواں سال کی وجہ کچھ اور ہی ہے۔ اصل وجہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) کا متعارف کردہ نیا امتحانی نظام ہے۔

2016 میں ایف پی ایس سی نے مضامین کی تعداد کی بنیاد پر امتحانی اصولوں میں تبدیلی کی۔ پہلے انجینئرز ہائی اسکورنگ مضمون، ریاضی کو چنتے تھے اور پکے نمبر اٹھالیتے تھے، جبکہ دیگر کم اسکورنگ مضامین کے ذہین طلبہ کے لیے ایسا کر پانا ممکن نہیں تھا۔ اپنی مہارت کے مطابق مضمون کا انتخاب کرنے کا یہ طریقہ دیگر جگہوں پر بھی اپنایا گیا، جس وجہ سے طلبہ کی اکثریت کو ناانصافی کا نقصان اٹھانا پڑتا تھا۔

چونکہ سی ایس ایس امتحان کا مقصد ایسے ذہین افراد کی تلاش کرنا ہے جو ایک سے زائد شعبوں میں مہارت رکھتے ہوں، لہٰذا ایف پی ایس سی نے مضامین کو 6 مختلف گروپس میں بانٹ دیا، جن میں اکنامکس اور اکاؤنٹنگ، پیور سائنس/ ریاضی، بزنس/پبلک ایڈمنسٹریشن، تاریخ، ماحولیات/ زمینی سائنس اور قانون شامل ہیں۔ امتحان کو منصفانہ بنانے کے لیے امیدواروں کو ہر گروپ میں سے ایک مضمون کا انتخاب لازمی بنا دیا ہے۔

ہمارے پرانے اور خوبصورت دنوں میں کثیر الانتخاب سوالات (mcqs) نہیں ہوتے تھے اور امتحان لینا بھی اپنے آپ میں ایک فن ہوتا تھا۔ انگریزی ادب اور وہ جن کی لکھائی بہتر ہوتی تھی انہیں خاص فائدہ حاصل ہوتا۔ پھر چند دہائیوں کے بعد، ہم نے مقابلے میں بیٹھنے والوں میں بڑی تعداد ڈاکٹروں اور انجینئروں کی دیکھی۔ لہٰذا، جب تک ایف پی ایس سی کوئی دوسرا نقص تلاش کر لیتی تب تک، ان نئے اصولوں کا مقصد اُس خرابی کو ٹھیک کرنا ہی ہے۔

کسی بھی نظام کو بہتر و معیاری بننے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ چونکہ ایک مضمون میں ناکامی سے بھی امید وار اپنے موقعے بھی گنوا بیٹھتے ہیں، اسی لیے ہی کامیابی کا تناسب اچانک سے یوں گرا ہے، کیونکہ طلبہ کی اکثریت کو مجبوراً ایسے بھی مضامین منتخب کرنے پڑے جن پر انہیں خاص مہارت حاصل نہیں ہوتی۔

تھوڑا اور بھی سیاق و سباق چاہیے۔ آئینی طور پر ریاست کے تین ستون ہیں— انتظامیہ، عدلیہ اور پارلیمنٹ۔ کچھ برسوں بعد تین مزید ستونوں کا اضافہ ہوا، فوج، میڈیا اور ملا۔ ہر ایک نے حسد کے ساتھ اپنے میدان کا دفاع کیا ہے۔ فوج اور عدلیہ کو لیجیے۔ صرف اندرونی نظام احتساب ہے۔ جب ان پر تنقید کی بات آتی ہے تو عام طور پر میڈیا اور عوام کافی محتاط رہتے ہیں۔ حد سے زیادہ تنقید کے بعد، ادارے اپنے اپنے ممبران کے دفاع میں آگے آ جاتے ہیں۔

اسی طرح، کوئی پارلیمانی رکن اپنے خلاف تنقید یا الزامات کو باآسانی دستیاب میڈیا کے ذریعے فوراً رد کر دیتا ہے یا کر دیتی ہے۔ وہ رکن اپنے اوپر تنقید کرنے والوں سے بدکلامی کے لیے ایوان کا فلور بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتا یا کرتی۔ اور ملا پر تنقید آپ صرف اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر ہی کر سکتے ہیں۔

دوسری جانب، میڈیا پرسن پر تنقید کریں تو وہ یقینی طور پر آپ کی تمام غلطیوں، اصلی یا تصوراتی، کو اس حد تک ہر کسی کی توجہ کا مرکز بنا دیتے ہیں کہ آپ اپنی عزت بچانے کی خاطر کل وقتی میڈیا مینجمنٹ کا رخ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ آپشن دستیاب نہ ہو تو، اس کی یونین، چینل، یا ساتھ کام کرنے والے ساتھی مدد کو بڑھ آئیں گے۔

واحد بیوروکریٹ ایسے ہیں جن کے دفاع کے لیے کوئی بھی آگے نہیں آتا، حتیٰ کہ ان کے اپنے ساتھی بھی نہیں۔ میڈیا کا رخ کرنا اصولوں کے خلاف ہے اور چونکہ سول سرونٹس کے پاس میڈیا تک غیر رسمی رسائی حاصل نہیں ہوتی لہٰذا میڈیا کے ذریعے بیوروکریٹ کے دفاع کا ’انتظام’ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ افسر تنظیمیں سالوں کی تربیت کی وجہ سے حد سے زیادہ فرمان بردار ہوتی ہیں؛ وہ صرف ’باضابطہ’ (through proper channel) ہی اپنا احتجاج کر سکتے ہیں۔

بیوروکریسی پر کاری ضرب لگانا عدلیہ، میڈیا اور سیاستدانوں کا کا ایک سب سے پسندیدہ مشغلہ رہا ہے۔ بے ضابطہ طاقت کا استعمال، نااہلی اور کرپشن، کی مثالیں دینے کے لیے بیوروکریٹس کو ہی استعمال کیا جاتا ہے، حالانکہ ایسی تمام خصلتوں کے مالک وہ خود بھی ہوتے ہیں۔

سی ایس ایس میں داخل ہونے والا ایک پر خلوص نوجوان مرد یا عورت جب دیکھتا ہے کہ ملازمتیں میرٹ کے بجائے سیاسی سفارشات پر دی جا رہی ہیں، جب انہیں یہ بات سمجھ آنے لگتی ہے کہ اقتدار میں بیٹھے سیاستدان سے وفاداری بیورکریٹ کی من پسند اسائنمنٹ کی وجہ بن رہی ہے، جب وہ اپنے بدعنوان ہم منصبوں کو ترقی کرتا دیکھتے ہیں تو تمام آئیڈیل ازم ہوا میں اڑ جاتا ہے۔

وہ جو خود کو اس سب سے باز رکھتے ہیں یا تو وہ خود کو مرکزی دھارے سے دور کسی ذیلی ادارے میں تعینات کروا دیتے ہیں یا وقت گزارنا سیکھ لیتے ہیں۔ پورے طریقہ کار میں منفی اور رکاوٹ عنصر بن کر رہ جاتے ہیں۔

جب تک دیگر طاقتور اداروں اور ریاست کے ستونوں کی جانب سے بیوروکریسی کا احترام نہیں کیا جاتا، تب تک عوام بھی بیوروکریسی کا احترام نہیں کرے گی اور آپ کے پاس تو ایسا نظام بھی ہے جہاں ہر کوئی ایسا کرنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ نتیجتاً، بیوروکریسی اپنی رٹ قائم ہی نہیں کر پاتی۔

یہاں تک کہ سی ایس ایس میں داخل ہونے والے آئیڈیئلسٹ نوجوانوں کو اپنے ان سینئرز کی طرف سے کوئی مدد یا رہنمائی بھی حاصل نہیں ہوتی، جو پہلے ہی خود کو غیر محفوظ کر رہے ہوتے ہیں۔ وفاقی سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ اور صوبائی چیف سیکریٹریز، جو ایک وقت میں سول سرونٹس کے لیے بے پناہ طاقت کا ذریعہ تھے، اب تو خود کو بھی محفوظ رکھنے سے قاصر ہیں، اور پوسٹ آفسز بن چکے ہیں۔

کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ پاکستانی آرمی چیف اپنے کور کمانڈرز کی تعیناتیوں، یا اس کی پیٹھ پیچھے بریگیڈیئرز کی تعیناتی کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے وزیر اعظم کے دفتر کے باہر گھنٹوں انتظار کریں؟

لیکن جب بات بیوروکریٹس، بشمول سینئرز، کی آتی ہے تو انہیں ہر بار اس مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ اور پھر بھی سول سرونٹس سے فیصلہ کن اور مؤثر ہونے اور 'ڈیلیور' کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔

یہ مضمون 21 مئی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تسنیم نورانی

لکھاری سابق سول سرونٹ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024