چین: مسلم علاقے میں سیکیورٹی کے نام پر ’ڈی این اے‘ منصوبہ
بیجنگ: انسانی حقوق کی تنظیموں نے چین کی جانب سے مسلم اکثریتی آبادی والے علاقے میں ڈی این اے ٹیسٹ کے منصوبے کو وسیع کرنے پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین نے سیکیورٹی کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے۔
مغربی چین کے مسلم اکثریتی آبادی والے صوبے سنکیانگ میں ڈی این اے کے نمونے حاصل کرنے کے لیے پولیس کی جانب سے 87 لاکھ ڈالر کے آلات خریدے جانے کا عمل جاری ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نے ہیومن رائیٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کے مبصرین کے حوالے سے بتایا کہ انہوں نے 30 لاکھ ڈالر کے ڈی این اے نمونے حاصل کرنے کے اضافی آلات خریدنے کے ثبوت دیکھے ہیں۔
انسانی حقوق کے مبصرین نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اتنے بڑے پیمانے پر ڈی این اے نمونوں کو حکومت اپنے سیاسی کنٹرول کے طور پر استعمال کر سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چین: سنکیانگ کے مسلمانوں کیلئے درجنوں ناموں پر پابندی
اس سے قبل گزشتہ برس چینی حکام نے سنکیانگ کے رہائشیوں کو پاسپورٹ حاصل کرنے اور بیرون ملک سفر کرنے کے لیے ڈی این اے نمونوں سمیت فنگر پرنٹس اور آواز کی ریکارڈنگ جمع کرانے کے لیے کہا تھا۔
سنکیانگ کی سرحدیں وسطی ایشیا کے کئی ممالک سے ملتی ہیں، جن میں سے افغانستان بھی شامل ہے، یہاں پر ہونے والے بم دھماکوں، چاقوں اور گاڑیوں کے ذریعے کیے جانے والے حملوں کے الزامات علیحدگی پسند مسلمانوں پر لگائے جاتے ہیں۔
رواں برس فروری میں جنوبی سنکیانگ میں پاکستانی سرحد کے قریب واقع پشن کاؤنٹی میں ہونے والے ایک چاقو کے حملے میں 3 حملہ آوروں سمیت 8 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
چینی عہدیداروں نے مسلمانوں کے اویغور قبیلے میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندوں کو ختم کرنے کے لیے انتہائی جارحانہ اقدامات اٹھائے ہیں، جن میں سے کچھ علاقوں میں گاڑیوں کی ٹریکنگ کے لیے سیٹ لائٹ سسٹم بھی نصب کیا گیا، جب کہ خواتین کے لیے نقاب کرنے اور مردوں کی جانب سے داڑھی رکھنے جیسے عوامل پر جرمانے کا نفاذ بھی کیا جاچکا ہے۔
خبر رساں ادارے نے ریجنل پبلک سیکیورٹی بیورو کے اعلیٰ عہدیدار ہوانگ کے حوالے سے بتایا کہ ڈی این اے کے لیے آلات خریدے جا چکے ہیں۔
ایک اور عہدیدار ین نے اپنا مکمل نام نہ بتانے اور مزید تفصیلات فراہم نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سنکیانگ کی شیشی کاؤنٹی کے لیے آواز کی ریکارڈنگ اور تھری ڈی اسکین پرنٹر کے سامان کی ترسیل کے لیے سپلائرز کی خدمات لینے کی کوشش کی جا رہی ہیں۔
بیلجیم کی یونیورسٹی آف لیوون کے کمپیوٹیشنل بائیولاجسٹ اور ڈی این اے میں اسپیشلسٹ یویس موریو کے مطابق اگر چینی حکام ان آلات کو مکمل طرح سے استعمال میں لائیں تو یومیہ ایک ہزار اور سالانہ لاکھوں افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا جاسکتا ہے۔
مزید پڑھیں: چین: سنکیانگ میں روزے رکھنے پر پابندی
انہوں نے کہا کہ ڈی این اے آلات کی اتنے پیمانے پر خریداری اور چینی حکومت کی جانب سے سنکیانگ کے اویغور مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر ڈی این اے پروفائیلنگ کرنا تشویش ناک ہے۔
چین کی وزارت پبلک سیکیورٹی کی گزشتہ برس شائع ہونے والی فورنزک رسرچ رپورٹ کے مطابق چینی حکومت نے 1989 سے اب تک 40 کروڑ افراد کی جینیٹک معلومات حاصل کرلی۔
برطانوی ادارے گین واچ کے بانی ہیلن ولیس کے مطابق دیگر ممالک کے مقابلے چین میں قانونی تحفظ کا فقدان پایا جاتا ہے، اور لوگوں کی جینیاتی اور ذاتی معلومات کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے رسرچر مایا وانگ کا کہنا ہے کہ سنکیانگ میں حکومتی نگرانی پہلے ہی سخت ہے، اور وہاں کے لوگوں سے جرائم کی تحقیقات کے برعکس غیر متعلقہ معلومات بھی لی جا رہی ہے، اور ان پر سخت نگرانی اور کنٹرول کیا جا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے نے بتایا کہ حکومتی سرپرستی میں کام کرنے والے ڈین این اے ٹیسٹ کے ادارے ہر شخص کی انفرادی رپورٹ تیار کریں گے، خصوصی طور پر ان افراد کے خون، بالوں اور منہ میں آنے والے پانی کے نمونے لیے جائیں گے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق ان ڈی این اے نمونوں کو چین کے قانون نافذ کرنے والے ادارے دنیا بھر میں فوجداری مقدمات کے تحت استعمال میں لائیں گے۔
خیال رہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں ڈی این اے کے حوالے سے مختلف طریقے رائج ہیں، امریکا میں بھی عام لوگوں کا ڈی این اے حاصل کرنے کا ایک محدود طریقہ ہے، وہاں ان افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا جاتا ہے، جنہیں حراست میں لیا گیا ہو۔
فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کے مطابق ان کے ڈیٹا بیس میں ایک کروڑ 28 لاکھ سے زائد افراد کا ڈیٹا موجود ہے، اور یہ امریکا کی مجموعی آبادی سے صرف 4 فیصد افراد بنتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: چین: مسلم انتہاپسندوں نے موسیقی پر پابندی لگادی
برطانوی حکومت کے مطابق سرکاری ڈیٹا بیس میں صرف 52 لاکھ سے زائد افراد کا ڈیٹا موجود ہے، جو وہاں کی مجموعی آبادی کے 8 فیصد افراد پر مشتمل ہے۔
چین کے ڈین این اے ڈیٹا بیس میں اس وقت وہاں کی صرف تین فیصد آبادی کا ڈیٹا موجود ہے، اور چینی عہدیدار اس ڈیٹا کو اب والدین اور ان کے مغوی بچوں کی بازیابی کے لیے بھی استعمال کر رہے ہیں۔
چینی حکومت کے مطابق گذشتہ برس ایک سیریل کلر کی گرفتاری کے لیے ڈین ای اے ڈیٹا بیس مددگار ثابت ہوا، قاتل نے گرفتاری کے بعد 14 سال کے اندر خواتین سمیت 11 لڑکیوں کو قتل کرنے کا اعتراف کیا۔
برطانوی سماجی کارکن ہیلن ولیس کے مطابق چین کے حالیہ اقدامات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ڈی این اے کا ایک بہت بڑا ڈیٹا بیس بنانے جا رہا ہے، جسے مستقبل میں مزید بڑھایا جائے گا، اور قانونی طور پر کیے جانے والے اس کام کو قانونی طریقے سے غیرقانونی کاموں کے لیے استعمال کیا جائے گا، جیسے دیگر ممالک میں حفاظت کے نام پر اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔