• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

پاناما پیپرز تحقیقات کے معاملے پر وکلاء تنظیمیں تقسیم

شائع May 3, 2017

اسلام آباد: پاناما لیکس کے معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی تحقیقات کے حوالے سے وکلاء تنظیمیں تقسیم ہوگئیں اور یہ اختلاف سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) تک سرایت کر گیا۔

ایس سی بی اے کے 22 ارکان، پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کی جانب سے 5 مئی کو منعقد ہونے والے وکلاء نمائندوں کے کنونشن میں شرکت کریں گے جبکہ ایس سی بی اے کے صدر رشید اے رضوی اور سیکریٹری آفتاب باجوہ سمیت دیگر ارکان 20 مئی کو اپنی الگ کانفرنس بلائیں گے۔

گذشتہ ماہ 20 اپریل کو سامنے آنے والے پاناما کیس کے فیصلے کے بعد پی بی سی نے 29 اپریل کو وکلاء نمائندوں کے کنونشن کے انعقاد کا اعلان کیا تھا جو 5 مئی کو منعقد کیا جائے گا۔

پاکستان میں موجود مختلف بار ایسوسی ایشن کی جانب سے وزیر اعظم کے استعفے کے مطالبے کے حوالے سے دی جانے والی ملک گیر ہرتال کی کال پر وکلاء کو منظم کرنے اور ہدایات جاری کرنے کے لیے اس کنونشن کا انعقاد کیا جارہا ہے۔

مزید پرھیں: لاہور ہائیکورٹ بارکی وزیراعظم کے خلاف تحریک چلانے کی دھمکی

صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایس سی بی اے کے صدر رشید اے رضوی نے کہا کہ ہم پاکستان بار کونسل اور لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایل ایچ سی بی اے) سے درخواست کریں گے کہ وہ 5 اور 13 مئی کو ہونے والے اپنے کنونشن کو ملتوی کرنے پر غور کریں اور 20 مئی کو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے اجلاس میں شرکت کریں، ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ اجلاس متفقہ حکمت عملی اور ایک عام قرارداد وضع کرنے میں مدد گار ثابت ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ وکلاء تنظیموں میں 'ماں کی حیثیت' رکھنے والی پاکستان بار کونسل کا یہ کام ہے کہ وہ ملک کی تمام بار ایسوسی ایشنز کو اپنے ساتھ منسلک کرے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں موجود تمام بار کونسلز اور ایسوسی ایشنز کو وقت کی ضرورت ہے تاکہ جب وہ کنونشن میں شرکت کریں تو اپنی نمائندہ جماعتوں کی ایک پختہ اور متفقہ رائے کے ساتھ سامنے آسکیں اور یہ تب ہی ممکن ہوسکتا ہے جب یہ ایسوسی ایشنز مناسب پیشگی اجلاس منعقد کریں۔

یہ بھی پڑھیں: وکلا کا چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے استعفے کا مطالبہ

تاہم سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نائب صدر شبیر شر کا اس معاملے پر کہنا تھا کہ ایس سی بی اے کے پندرہ ارکان 5 مئی کو ہونے والے کنونشن میں شرکت کریں گے، انہوں نے مزید کہا کہ ہم پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی ائی) کا آلہ کار نہیں بنیں گے۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے تعلق رکھنے والے شبیر شر نے کہا ہے کہ آج کے اجلاس کو ارکان کی اکثریت نے مسترد کردیا ہے اور وزیر اعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی تحقیقات مکمل ہونے تک مستعفی ہوجائیں۔

دوسری جانب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکریٹری آفتاب باجوہ نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ایس سی بی اے، پاکستان بار کونسل اور لاہور ہائیکورٹ بار کونسل کی جانب سے منعقد کیے جانے والے کنونشن میں شرکت نہیں کرے گی، کیونکہ یہ دونوں فیصلے فل ہاؤس اجلاس کے دوران نہیں ہوئے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 20 مئی کو منعقد کیے جانے والے اجلاس کا مقصد اس انتہائی نازک وقت پر وکلاء تنظیموں کے درمیان ہونے والی تقسیم کو روکنا ہے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رشید رضوی کا یہ بھی کہنا تھا کہ کونسل بہت جلد رابطہ مہم کا آغاز کرے گی جس کے ذریعے ملک میں موجود تمام بار وکلاء تنظیموں کو 20 مئی کو ہونے والے کنونشن میں شرکت کرنے پر آمادہ کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں:ہمارے فیصلے صدیوں تک قانون کا حصہ رہتے ہیں، سپریم کورٹ

جب انہیں باور کروایا گیا کہ پاکستان بار کونسل، ملک میں وکلاء کی ریگولیٹری تنظیم ہے تو اس پر ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو وکلاء کا مینڈیٹ حاصل ہے جو اس تنظیم کو 2016 کے الیکشن میں حاصل ہوا جبکہ پی بی سی 2014 میں منتخب ہوئی تھی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جمہوریت کو سپورٹ کرنا اور قانون کی بالا دستی وکلاء کے خون میں شامل ہے اور کسی بھی قسم کے مارشل لاء کی ہمیشہ مخالفت کی جائے گی جیسا کہ گذشتہ ادوار میں ہوا ہے۔

تاہم رشید رضوی نے ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) اور انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے حکام کی جے آئی ٹیم میں شمولیت کی مخالفت کی ہے۔

اپنی ذاتی رائے دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایک عدالتی کمیشن کو مقرر کرنے کے لیے مناسب طریقہ کار اپنایا جائے۔

واضٍح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے پاناما کیس کے فیصلے کے بعد وزیراعظم نواز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے وکلاء تحریک چلانے کی دھمکی بھی دی تھی۔

یہ خبر 3 مئی 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024