اعضاء کی تجارت: اوپر تک پہنچ رکھنے والوں کو پکڑنا ہوگا
یہ اعضاء کی تجارت کا ایک مثالی کیس ہے۔ کرائے کے گھر میں اعضاء کی پیوندکاری، انتہائی غریب 'عطیہ کنندگان'، انتہائی دولتمند 'وصول کنندگان'، اور سب سے اوپر موجود وہ لالچی ڈاکٹرز، جو معاشرے کے محروم ترین لوگوں کی بے چارگی کا فائدہ اٹھا کر لاکھوں روپے کما رہے ہیں۔
ہفتے کے روز وفاقی ادارہءِ تحقیقات (ایف آئی اے) نے لاہور کے ایک پوش علاقے میں واقع ایک بنگلے پر چھاپہ مارا، اور اعضاء کی تجارت میں ملوث ایسے گروہ کو پکڑا جو یہ کام 2009 سے کر رہا تھا۔
قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے دو عمانی باشندوں کو بھی پکڑا، جن میں سے ایک تھوڑی دیر قبل ہی گردے کی پیوندکاری کروا چکا تھا، جبکہ دوسرا ابھی چھری کے نیچے ہی تھا۔
جن دو افراد کے گردے پیوندکاری کے لیے نکالے گئے تھے، ان میں سے ایک رکشہ ڈرائیور تھا اور ایک 20 سالہ لڑکی تھی۔ ایف آئی اے کے مطابق دونوں نے ہی اپنے قرضے ادا کرنے کے لیے گردے فروخت کیے۔
رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے دونوں ڈاکٹروں کو گرفتار کر لیا گیا اور ان سمیت ایک اور مفرور ڈاکٹر اور عملے کے دو افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔
ایف آئی اے کو اس جرم کے خلاف کارروائی کا اختیار دیے جانے کے بعد یہ پہلی کارروائی تھی، اور یہ پاکستان کو اعضاء کی خرید و فروخت کی مارکیٹ کی شرمناک شہرت چھٹکارہ دلانے میں کافی اہم ثابت ہو سکتی ہے۔ مگر اس کا حقیقی توڑ صرف کامیاب استغاثہ ہی ہو سکتا ہے، جس کے ذریعے دس سال قید اور ڈاکٹرز کے لائسنس کی منسوخی شامل ہے۔
یہ ایک نہایت منظم جرم ہے جس میں طاقتور اور مضبوط روابط والے افراد شامل ہیں۔ بسا اوقات یہ نیٹ ورکس بین الاقوامی سطح پر کام کر رہے ہوتے ہیں جیسا کہ اس کیس میں دیکھنے کو ملا۔ اس میں وہ ایجنٹس بھی شامل ہیں جو 'عطیہ کنندگان' کو ڈھونڈتے ہیں، اور پولیس بھی جو نظریں چرانے کے لیے پیسے لیتی ہے۔ اور یہ سب برائیاں اس ملک میں نہایت گہرائی میں پیوست ہیں، بھلے ہی اس ملک میں اعضاء کی تجارت کے خلاف قوانین 2007 سے موجود ہیں۔
مگر جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، قانون ہونا ایک بات ہے اور اس کا نفاذ الگ، خاص طور پر ایسے ملک میں جہاں ریاست غریبوں کی حفاظت کے لیے کچھ بھی نہیں کرتی۔
ڈان کی جانب سے کئی تحقیقاتی رپورٹس میں نشاندہی کی گئی ہے کہ کیسے اداروں کی لاپرواہی یا ملی بھگت نے ڈاکٹروں کے لیے غیر قانونی پیوندکاری کے ذریعے دولت کمانے کا راستہ کھلا چھوڑا ہے۔
سماجی عدم مساوات کو جاری رکھنے کے علاوہ اس نے ملک میں مردہ افراد کی جانب سے اعضاء عطیہ کرنے کے پروگرام کو بھی نقصان پہنچایا ہے جو کہ اخلاقی پیوندکاری کے لیے ضروری ہے۔
یہ اداریہ ڈان اخبار میں 2 مئی 2017 کو شائع ہوا۔