• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

لاہورہائیکورٹ بارکی وزیراعظم کیخلاف تحریک چلانے کی دھمکی

شائع April 22, 2017

لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے پاناما کیس کے فیصلے کے بعد وزیراعظم نواز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے وکلاء تحریک چلانے کی دھمکی دے ڈالی۔

لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ذوالفقار چوہدری، نائب صدر راشد لودھی، سیکرٹری عامر سعید راں اور فنانس سیکرٹری ظہیر بٹ نے اس حوالے سے ایک پریس کانفرنس کی۔

اس موقع پر بار ایسوسی ایشن کے صدر چوہدری ذوالفقار نے کہا کہ اگر وزیراعظم نے ایک ہفتے میں استعفی نہ دیا تو عدلیہ بحالی سے بڑی تحریک چلائی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ یہ واحد فیصلہ ہے جس میں سپریم کورٹ کے پانچوں ججز اس ایک نکتے پر متفق ہیں کہ وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے۔

ذوالفقار چوہدری کا کہنا تھا کہ 'پاناما لیکس کے معاملے پر دنیا بھر سے استعفے آئے، مگر وزیراعظم نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا'۔

انھوں نے کہا کہ 'استعفیٰ کا مطالبہ جائز ہے کیوں کہ ماتحت افسران وزیراعظم کے خلاف غیر جانبدار تحقیقات نہیں کر سکتے'۔

مزید پڑھیں:پاناما کیس: سپریم کورٹ کا جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ

بار ایسوسی ایشن کے صدر نے کہا کہ وکلاء کے ملک گیر کنونشن کے علاوہ آل پارٹیز کانفرنس بھی منعقد کی جائے گی جس میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

اس موقع پر لاہور ہائی کورٹ بار کے نائب صدر راشد لودھی نے کہا کہ پہلی مرتبہ کرپشن سپریم کورٹ کا موضوع بنا اور منی ٹریل پر سپریم کورٹ نے سنجیدہ سوالات اٹھائے جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے وزیراعظم کا موقف مسترد کر دیا ہے، لہذا اب وہ اپنے عہدے پر رہنے کا اخلاقی جواز کھو چکے ہیں۔

دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ بار کے سیکرٹری عامر سعید راں کا کہنا تھا کہ 20 اپریل کے فیصلے نے وزیراعظم کے خلاف فرد جرم عائد کی ہے اور فیصلے میں دو ججز نے واضح کردیا کہ وزیر اعظم صادق اور امین نہیں رہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس کےفیصلے کو سیاست کی بھینٹ نہیں چڑھنا چاہیئے: نثار

انھوں نے کہا کہ فیصلے سے قبل عدلیہ کو دھمکانے کے لیے بینرز لگائے گئے، یہ اقدام قابل مذمت ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے حکمرانوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم اخلاقی جرات کا مظاہرہ کریں اور اپنے ماتحت افسران کے سامنے پیش ہونے سے قبل ہی استعفی دے دیں۔

وکلاء عہدیداروں نے واضح کیا کہ بار نے ہمیشہ آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے جدوجہد کی ہے اور وکلاء اب بھی جذبے اور لگن سے سرشار ہو کر اپنا پیٹ کاٹ کر کسی سیاسی جماعت کی پشت پناہی کے بغیر تحریک چلائیں گے۔

واضح رہے کہ رواں ماہ 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف پاناما کیس کی مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دیا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے کورٹ روم نمبر 1 میں پاناما لیکس کے معاملے پر آئینی درخواستوں کا فیصلہ سنایا جسے رواں سال 23 فروری کو محفوظ کیا گیا تھا۔

540 سے زائد صفحات پر مشتمل اس فیصلے کو جسٹس اعجاز اسلم خان نے تحریر کیا تھا۔

مزید پڑھیں: پاناما فیصلہ:جسٹس آصف کھوسہ کیا اختلافی نوٹ لکھا؟

فیصلے پر ججز کی رائے تقسیم رہی، 3 ججز ایک طرف جبکہ 2 ججز جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد خان نے اختلافی نوٹ لکھا اور وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دینے سے اتفاق کیا۔

فیصلے کے مطابق فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں 7 دن کے اندر جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔

پاناما کیس کے معاملے پر عدالتی فیصلے کو حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے 'فتح' قرار دیا، تاہم اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024