عدالتی فیصلہ سیاسی عمل پاک کر پائے گا؟
اس کیس میں تمام تر ایسی چیزیں شامل تھیں جو اسے ایک تاریخ ساز عدالتی مقدمہ بناتی ہیں: جن میں ایک موجودہ وزیر اعظم اور ان کے گھروالوں پر عائد کرپشن کے الزامات؛ حزب اختلاف کی جماعتوں کے نمائندوں کی درخواست؛ چیف جسٹس پاکستان کی جانب سے سماعت کا آغاز، جنہوں نے اسلام آباد میں ممکنہ تباہ کن سیاسی محاذ آرائی کو روکنے کے لیے مداخلت کی تھی؛ اور دھماکا خیز پاناما پیپرز، جس نے پوری دنیا میں ایک طوفان کھڑا کیا، میں شامل منی ٹریل کے شواہد شامل ہیں۔
آخر میں، اور اپنے اختلافی فیصلے میں، عدالت نے پایا کہ اس مقدمے میں اتنے شواہد نہیں جو اپوزیشن کو وہ فیصلہ سنایا جائے جو وہ سننا چاہتی ہے، مگر وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے حوالے سے تحقیقات کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کے لائق شکوک شبہات ضرور ہیں۔
حکومت نے اس فیصلے کو فوراً اپنی فتح کے طور پر لے لیا؛ اور پی ٹی آئی نے ، شاید ٹوٹے دل کے ساتھ، فیصلے کو ایک بار پھر وزیر اعظم کو عارضی طور پر وزارت اعظمیٰ چھوڑنے کا مطالبہ کرنے کے لیے استعمال کیا۔ ان دونوں ہی ردعمل کے امکانات موجود تھے۔
طویل فیصلہ سنانے کے چند گھنٹوں بعد ہی، اس کے نکات پر مکمل جائرہ لینا ممکن نہیں؛ آنے والے دنوں میں فیصلے کے حوالے سے مزید تفصیل اور حمایتی و تنقیدی مستحکم خیالات سامنے آئیں گے۔ لیکن پھر بھی معمول سے ہٹ کر جو ایک بات ہے جس کی فوری طور پر نشاندہی کی بھی جاسکتی ہے اور شاید عدالت نے اس بات کے نتائج کے بارے میں سوچا بھی نہ ہو۔
جے آئی ٹی دراصل خود ایک بند گلی ہے۔ دیگر سیاسی الزامات کے معاملات میں جے آئی ٹی کا ریکارڈ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کسی بھی غیر معمولی سرپرائز کی توقع نہ کی جائے۔ لیکن موجودہ وزیر اعظم کے خلاف مالی اور قانونی معاملات میں تحقیقات میں فوجی انٹیلجنس اداروں کی شمولیت ایک غیر معمولی بات ہے — اور ایک ایسی مثال ہے جسے قائم نہیں ہونا چاہیے۔
سوال یہ نہیں وزیر اعظم یا شہریوں میں سے کون قانون سے بالاتر ہیں۔ اس میں قطعی طور پر کوئی شک نہیں کہ بطور وزیر اعظم، نواز شریف ایک اوسط شہری کے مقابلے میں بڑی سطح پر جانچ پڑتال کے مستحق ہیں۔ جو فکر کی بات ہے وہ جے آئی ٹی کی تشکیل کا ہے، خاص طور پر ایک فوجی انٹیلجنس نمائندے کی شمولیت اداروں پر اعتماد کی کمی کا اشارہ دیتی ہے۔
سویلین معاملات کی تحقیقات، فیصلہ سازی اور حل سویلین طرز عمل کے ساتھ کیا جائے۔ اور اگر عدالت کو سویلین اداروں پر مکمل اعتماد نہیں، جس کا اشارہ فیصلے سے بھی ملا، تو وہ اپنا اعتماد ایک عدالتی کمیشن پر پیدا کر سکتی تھی۔
پاناما پیپرز کی پٹیشنز اپنے اہم نکتے میں ایک سادہ سا خیال پیش کرتی ہیں— کہ ایک طویل عرصے سے ملک میں موجود سیاسی خاندان ذاتی دولت کو بڑھانے کے لیے نظام کو استعمال کرتے ہیں۔ اس سادہ سے خیال — ظاہری اور دہائیوں پر مشتمل تفصیلی شواہد سے اسے ثابت کرنے کے لیے— سپریم کورٹ تک لے جانے اور وہ بھی ایک موجودہ وزیر اعظم کے خلاف، کا سہرا عمران خان اور ان کی پی ٹی آئی کے سر جاتا ہے۔
ہو سکتا ہے عمران خان کی حکمت عملی، خاص طور پر اسلام آباد کو بند کرنے کی دھمکی دینا، درست نہ ہوں اور کبھی کبھار تو بلاجواز بھی معلوم ہوئیں، مگر پاکستان میں کرپشن سیاسی زندگی کا ناقابل تردید پہلو ہے اور اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کیا جائے۔
نواز شریف اب بھی وزارت عظمی کے عہدے پر فائز بھلے ہوں اور ابھی تک ان کے خاندان کے افراد کو بھی کسی قسم کے جرم کی سزا سنائی نہیں گئی، مگر مشکل یہ ہے کہ خاندان مالی طور پر اپنی ایمانداری کو سیاسی معاملے سے جوڑتے دکھائی دیتی ہے — اس کے ساتھ ان کو کسی حد تک سیاسی حمایت ملتی آ رہی ہے اور گزشتہ انتخابات میں ان کو حاصل ہونے والی عوامی حمایت کا مطلب ہے یہ کسی چیز کے لیے جوابدہ نہیں۔ آسان لفظوں میں کہیں تو نواز شریف اس پورے قصے سے داغدار روایت کے ساتھ باہر نکل آئیں گے۔
اگر تبدیلی نے — اداروں کو مستحکم بنانے، شفافیت کو قائم کرنے، ایمانداری کی سربلندی— کے ساتھ آنا ہے تو موجودہ صورتحال میں سب کو اپنے کردار پر غور کرنا چاہیے۔
سپریم کورٹ سیاسی چالبازیوں پر مکمل طور پر غالب نہ آ سکی، جنہوں نے سماعتوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا اور بینچ کی جانب سے غیر ضروری بیانات سے عوامی توقعات کو ٹھیس پہنچی۔ مسلم لیگ (ن) نے ایسا رویہ پیش کیا کہ جیسے قومی سطح پر کوئی بے چینی نہ ہو اور نہ ہی حکومت کی گرفت کمزور ہورہی ہے، بلکہ بدعنوانی ایک خام خیالی اور اپوزیشن کا تصور ہے۔
حزب اختلاف نے قیاس آرائی اور الزام کو ایک حقیقت کے طور پر پیش کیا، جہاں تک پی ٹی آئی کی بات ہے تو، اسے اب بھی وزیر اعظم کو اقتدار سے دستبردار کرنے سے آگے جا کر ایک سیاسی وژن تشکیل دینا باقی ہے۔ دوسری جانب،ادارے پستی کا شکار ہیں جبکہ پارلیمنٹ بے اثر اور نظر انداز ادارہ ہے، جہاں سے زبردست جمہوری خیالات اور اداروں میں مثبت تبدیلیاں رونما ہونی چاہیئے تھیں۔
شاید اس فیصلے کی روشنی میں ملکی اداروں اور قیادت کو سیاسی عمل کی صفائی کے لیے عوام کی حقیقی اور فوری طلب کو پورا کرنے کے لیے راستہ مل جائے گا۔
نواز شریف ایک قانونی طور پر ایک منتخب وزیر اعظم ہیں؛ وہ اور ان کے اہل خانہ اب تک یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ ان کی دولت قانونی طور پر حاصل کی گئی۔
یہ اداریہ 21 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔