• KHI: Asr 4:11pm Maghrib 5:47pm
  • LHR: Asr 3:25pm Maghrib 5:03pm
  • ISB: Asr 3:25pm Maghrib 5:03pm
  • KHI: Asr 4:11pm Maghrib 5:47pm
  • LHR: Asr 3:25pm Maghrib 5:03pm
  • ISB: Asr 3:25pm Maghrib 5:03pm

افغانستان میں سب سے بڑا بم حملہ: 4 پاکستانی عسکریت پسند بھی ہلاک

شائع April 16, 2017

واشنگٹن: رواں ہفتے افغانستان کے صوبے ننگرہار میں امریکا کی جانب سے داعش کے ٹھکانے پر گرائے گئے سب سے بڑے غیر جوہری بم کے حملے میں ہلاک ہونے والے 94 دہشتگردوں میں 4 کمانڈر تھے اور ان کا تعلق پاکستان سے بتایا گیا ہے۔

خیال رہے کہ رواں ہفتے جمعرات کے روز امریکا نے دہشت گرد تنظیم داعش کے برصغیر گروپ کی پیچیدہ سرنگوں میں بنائے گئے ٹھکانے پر سب سے بڑا غیر جوہری حملہ کیا تھا۔

اس حملے میں استعمال ہونے والے بم کو 'تمام بموں کی ماں' کے نام سے جانا جاتا ہے جبکہ اسے سرکاری طور پر جی بی یو 43 بی قرار دیا گیا ہے جس کے ذریعے 22000 پاؤنڈ وزنی دھماکا خیز مواد استعمال کیا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان:سب سے بڑے بم سے داعش کے 90 جنگجو ہلاک ہوئے،حکام

ابتدا میں افغان آرمی کے حکام کا کہنا تھا کہ حملے میں کم سے کم 36 دہشت گرد ہلاک ہوئے لیکن ہفتے کو انھوں نے اس تعداد میں 94 تک کا اضافہ کردیا، افغان حکام کا دعویٰ تھا کہ ہلاک ہونے والے تمام افراد کا تعلق داعش سے ہے۔

صوبہ ننگر ہار میں تعینات افغان سیکیورٹی فورسز کی 201 کور کے عوامی امور کے سربراہ میجر شیرن نے امریکی فوجی اخبار اسٹار اینڈ اسٹرپ کو بتایا کہ حملے میں ہلاک ہونے والے 94 افراد میں 4 اہم کمانڈر تھے۔

انھوں نے ان کی شناخت نہیں بتائی تاہم واشنگٹن میں موجود سرکاری ذرائع کے مطابق ان کا تعلق ان گروپس سے تھا جو ماضی میں پاکستان سے آپریٹ کیا کرتے تھے تاہم اسلام آباد کی جانب سے فوجی آپریشن کے آغاز کے بعد وہ افغانستان آگئے تھے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والے بیشتر افراد کا تعلق اسی گروپ سے ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا نے افغانستان میں سب سے بڑا غیر جوہری بم گرادیا

افغانستان میں نیٹو فورسز اور امریکی فورسز کے کمانڈر جنرل جان کیلسن نے فروری میں کانگریس کو ایک سماعت کے دوران بتایا تھا کہ داعش کے بیشتر جنگجو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تعلق رکھتے ہیں، اب ٹی ٹی پی کے افغانستان میں متعدد کیمپ موجود ہیں اور وہ ان کو پاکستان میں حملوں کیلئے استعنمال کرتے ہیں۔

جمعرات کے روز ہونے والا امریکی حملہ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزائی کیلئے ناراضگی کا باعث ہے، انھوں نے کابل حکومت کو اپنے ملک میں امریکیوں کو ایسے حملوں سے روکنے پر زور دیا تھا تاہم موجودہ صدر اشرف غنی کا کہنا تھا کہ انھوں نے بم حملوں کی اجازت دی تھی کیونکہ اس سے علاقے میں دہشت گردوں کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔

جنرل کیلسن نے بھی بم حملے کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ غاروں کے خلاف استعمال کیلئے جی بی یو 43 ایک درست ہتھیار ہے جیسا کہ افغان اور امریکی فورسز کو ان کارروائیوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔

تاہم سابق امریکی صدر جارج بش کے دور حکومت میں اقوام متحدہ اور افغانستان کیلئے سابق امریکی سفیر زلمے خلیل زاد نے واشنگٹن پر زور دیا کہ ایسے حملے پاکستان میں موجود دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانوں پر بھی کیے جانے چاہیے۔

یہ رپورٹ 16 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 19 دسمبر 2024
کارٹون : 18 دسمبر 2024