• KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:03pm
  • LHR: Zuhr 12:06pm Asr 4:35pm
  • ISB: Zuhr 12:12pm Asr 4:41pm
  • KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:03pm
  • LHR: Zuhr 12:06pm Asr 4:35pm
  • ISB: Zuhr 12:12pm Asr 4:41pm

اسمگل شدہ گاڑیوں کا غیر قانونی کاروبار

شائع March 28, 2017

اگر آپ پاکستان جیسے ملک میں زبرست انداز میں محفوظ آٹو شعبے میں موجود مختلف اقسام کے بگاڑ کو نزدیکی سے جاننا چاہتے ہیں تو کمزور سرحدی انتظام اور بڑی سطح پر بے ضابطہ معیشت کے ساتھ، بلوچستان میں بڑھتی ہوئی ’کابلی گاڑیوں’ کی تجارت پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ ڈیلرز سے حاصل غیر سرکاری اندازوں کے مطابق صرف کوئٹہ شہر کی سڑکوں پر مبینہ طور پر 50 ہزار گاڑیاں اسمگل شدہ ہیں۔

یہ غیر قانونی کاروبار ایک حد تک کمزور سرحدی انتظام اور قانون نافذ کرنے والوں کی سستی کا نتیجہ ہے۔ جبکہ اتنا ہی قصور آٹو شعبے کا بھی ہے جو مارکیٹ کے نچلی سطح کے صارفین کی ضروریات کو پورا نہیں کرتی جو 10 لاکھ روپے سے کم قیمت کے آس پاس کار خرید کرنا چاہتے ہیں۔

یہ غیر قانونی کاروبار اس لیے پنپ رہا ہے کیونکہ پاکستان میں اس بڑی مارکیٹ میں موجود خلا کو پُر نہیں کیا جاتا، جبکہ ہمارے قریب واقع خلیجی ممالک ہیں جو تھوڑی بہت استعمال شدہ گاڑیوں کی کثیر فراہمی کی پیش کش کرتے ہیں جنہیں کوئی بھی انٹرپرائزنگ اسمگلر نہ صرف حاصل کر سکتا ہے بلکہ یہاں چلانے کا انتظامات بھی کر پاتا ہے۔

اس غیر قانونی کاروبار کی وجہ سے ریاست نہ صرف کسٹم ڈیوٹیز اور ایکسائز ٹیکسوں کی صورت میں اپنے حصے کے روینیو سے محروم ہو جاتی ہے، بلکہ یہاں پر لائی جانے والی گاڑیاں عام طور پر جرائم پیشہ افراد اور دہشتگردوں کے زیر استعمال ہوتی ہیں۔

ضروری ہے کہ اس غیر قانونی کاروبار کو اب لگام دی جائے، مگر چونکہ اس میں گہری معاشی جڑیں پیوست ہیں، لہٰذا اس کے خلاف اقدامات محض سادہ کارروائی کے بجائے قانون نافذ کرنے والوں کی جانب سے سخت گیر مہم کی صورت میں محتاط انداز میں اقدامات اٹھائے جائیں۔

شاید وقت آ گیا ہے کہ اب ہم ملک میں بیرونی ممالک سے استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی راہ ہموار کرنے پر سوچیں، جن پر مختلف ڈیوٹیز ٹیکس کا اطلاق کیا جائے جبکہ شمالی علاقاجات کی این سی پی گاڑیوں کی اسکیم کے طرز پر پابندیاں بھی عائد کی جاسکتی ہیں کہ ایسی گاڑیاں کہاں پر چلائی جا سکتی ہیں۔

مگر بنیادی طور پر یہاں ہماری سب سے بڑی ترجیح ایک ایسا طریقہ تلاش کرنا ہے کہ کس طرح کار ساز اداروں پر زور ڈالا جائے کہ وہ صرف اشرافیہ کی ضروریات کو پورا کرنے تک ہی محدود نہ رہیں اور اپنی صارف مارکیٹ میں موجود نچلی سطح کے بڑی تعداد میں موجود صارفین میں بھی منافع بخش کاروبار تلاش کریں۔ صاف طور پر یہ ایک خلا ہے جسے پر کرنے کی ضرورت ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

اداریہ

کارٹون

کارٹون : 31 مارچ 2025
کارٹون : 30 مارچ 2025