کالعدم تنظیموں کو انتخابات سے روکنے کی ضرورت ہے
کئی سالوں سے پاکستان کے انتہاپسند عناصر خود کو جمہوری نظام میں شامل کرنے کے لیے انتخابی سیاست کو استعمال کر رہے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ ان بنیادی اصولوں کی دھجیاں بھی اڑا رہے ہیں جن پر جمہوری نظام قائم ہے۔
اب جبکہ اگلا سال انتخابات کا سال ہے، تو اس بات پر سوچ بچار ضروری ہے کہ یہ پورا عمل کس طرح انتہاپسندوں کی وجہ سے متاثر ہو سکتا ہے۔
پیر کے روز سینیٹ میں وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بیان دیا کہ کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کے لیے نئے قانون کی تیاری پر کام جاری ہے۔ ان کے اس بیان کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔
مگر وزیرِ داخلہ اس طرح کے افراد سے نمٹنے کے طریقہءِ کار پر دوہرے رویے کا مسلسل اظہار کیے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے ایک بار پھر گذشتہ اکتوبر کالعدم اہلِ سنت والجماعت کے سربراہ مولانا احمد لدھیانوی سے ملاقات کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ انہیں وفد کے رکن کی حیثیت سے ملنے کے لیے آئے تھے۔
مگر ان کی یہ بات درست ہے کہ مولانا لدھیانوی کو مئی 2013 میں انتخابات لڑنے کی اجازت الیکشن کمیشن نے دی تھی۔ یہی وہ وجہ ہے کہ چوہدری نثار علی خان کا تجویز کردہ قانون کیوں ضروری ہے۔
پاکستان انتہاپسند تنظیموں کو غیر قانونی قرار دینے میں کافی سرگرم رہا ہے، خاص طور گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد کئی تنظیمیں کالعدم قرار دی گئی تھیں۔ مگر اس مشق نے خود کو خود ہی ناکام کیا۔
ان تنظیموں پر تو پابندی عائد کی گئی، مگر ان کے رہنماؤں پر کوئی پابندی نہ ہونے کی وجہ سے وہ عوام میں گھل مل کر اپنا زہریلا نظریہ پھیلاتے رہے، اور اس دوران ان کی تنظیموں نے نئے ناموں سے کام شروع کر دیا۔
یہ اس لیے بھی خطرناک تھا کہ جنرل ضیاء کے 1985 میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات نے سیاسی امیدواروں کو فرقہ وارانہ تنظیموں کے ساتھ اتحاد قائم کرنے پر مجبور کر دیا تھا جو ملک بھر کی مساجد و مدرسوں سے ووٹر اکھٹے کر سکتے تھے۔
اگلے کئی سالوں میں سویلین اور فوجی حکومتوں کی مہم جوئیوں نے اس طرح کے گروہوں کے لیے انتخابی سیاست میں مزید جگہ پیدا کی۔ ان کے رہنما ایسے عہدے حاصل کرنے میں کامیاب رہے جہاں سے وہ پس منظر میں رہتے ہوئے، یا براہِ راست بھی بے پناہ اثر و رسوخ کا مظاہرہ کر سکتے تھے۔
مثال کے طور پر 2002 میں کالعدم سپاہِ صحابہ (اہلِ سنت والجماعت کی سابقہ تنظیم) کے سربراہ اعظم طارق نے جیل میں بیٹھ کر آزاد امیدوار کے طور پر قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور کامیاب ہوگئے۔ اور پھر جنرل پرویز مشرف نے اعظم طارق کو وزیرِ اعظم کے لیے میر ظفر اللہ جمالی کو ووٹ دینے کے بدلے رہا کر دیا۔
کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت تو ہے ہی، مگر اس کے ساتھ ساتھ فورتھ شیڈول میں شامل افراد پر عائد پابندیوں کا بھی سختی سے نفاذ کیا جانا چاہیے۔
یہ اداریہ ڈان اخبار میں 22 مارچ 2017 کو شائع ہوا۔