عمران فاروق قتل کیس: برطانیہ کی عدم دلچسپی پر ماہرین حیران
لندن: ایک سال گزرنے کے باوجود برطانیہ کی کراؤن پراسیکیوشن سروس (سی پی ایس) کی درخواست پر عمران فاروق قتل کیس کے ملزم کی برطانیہ کو حوالگی کی درخواست پر عملدرآمد تعطل کا شکار ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سی پی ایس نے 2016 کے آغاز میں محسن علی سید نامی شخص کی برطانیہ کو حوالگی کا مطالبہ کیا تھا جبکہ اسلام آباد میں موجود اعلیٰ حکام کے مطابق انہیں محسن علی سید کی حوالگی کے لیے باقاعدہ درخواست کا انتظار ہے۔
برطانوی قوانین کے تحت حوالگی کی درخواست وزارت داخلہ سے ہوتی ہوئی دفتر خارجہ جاتی ہے جہاں سے اسے پاکستانی انتظامیہ کو پہنچایا جاتا ہے، تاہم اس کیس میں یہ واضح نہیں ہوسکا کہ رکاوٹ وزارت داخلہ کی جانب سے ہے، دفتر خارجہ کی جانب سے یا دونوں ہی اس پر پس و پیش سے کام لے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس:خالد شمیم کا اعترافی بیان جمع
حوالگی کی درخواست سے متعلق پوچھے گئے سوال پر وزارتِ داخلہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ 'برطانیہ اپنی پالیسی اور طریقہ کار کو مدنظر رکھتے ہوئے اس وقت تک اس بات کی تصدیق یا تردید نہیں کرے گا کہ حوالگی کی درخواست بھیجی جاچکی ہے یا نہیں، جب تک اس درخواست کے نتیجے میں کسی شخص کی گرفتاری منظرعام پر نہیں آجاتی'۔
سی پی ایس نے بھی معاملے پر ایسا ہی جواب دیا کہ 'سروس درخواست کے حوالے سے کوئی تصدیقی یا تردیدی بیان جاری نہیں کرسکتی'۔
برطانوی وزارت داخلہ کا بیان اس حقیقت کو نظرانداز کرتا ہے کہ محسن علی سید کو پاکستان میں گرفتار کیا جاچکا ہے، ملزم پانچ سال انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کی حراست میں رہ چکا ہے اور اسی عرصے میں اس کا مبینہ ساتھی محمد کاشف خان کامران ہلاک ہوچکا ہے۔
مزید پڑھیں: عمران فاروق قتل کا کوڈ 'ماموں کی صبح ہوگئی' تھا
محسن علی سید کو 2015 میں چمن سے گرفتار کیا گیا تھا، کیس میں مشتبہ دو مزید افراد خالد شمیم اور معظم علی کو بھی گرفتار کیا جاچکا ہے اور یہ افراد پاکستانی انتظامیہ کی حراست میں موجود ہیں۔
وزارت داخلہ کی جانب سے حوالگی کی درخواست پر تبصرہ نہ کرنے کا بیان بھی اس کے اپنی سابقہ مثالوں کے خلاف ہے۔
2006 میں برطانیہ نے تصدیق کی تھی وہ پاکستانی حراست میں موجود برمنگھم میں پیدا ہونے والے جہادی راشد رؤف کی حوالگی کی درخواست کرچکے ہیں۔
وزارت داخلہ کے حکام کے مطابق ان دونوں کیسز میں فرق ہے مگر پھر بھی یہ معلومات فراہم کرنا پالیسی کے خلاف ہے۔
برطانوی محکموں کی جانب سے غیر واضح بیانات اور ردعمل پاکستانی عسکری و سول حکام کی اس تشویش میں اضافہ کرتے ہیں کہ برطانوی ریاست کے چند عناصر متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کو تحفظ فراہم کرنے کی کوششوں میں ہیں، کیونکہ یہ اسے ایک سفارتی اثاثہ سمجھتے ہیں جو پاکستان میں برطانوی اثرورسوخ کے لیے اہم ہے۔
برطانوی وکیل علی نسیم باجوہ کے مطابق 'درخواست کے لیے درکار قانونی ضروریات مکمل کی جاچکی ہیں، تاہم محسن علی سید کی حوالگی میں ناکامی کو قانونی کارروائی میں ناکافی ثبوت و شواہد سے نہیں جوڑا جاسکتا، تاخیر کا یہ معاملہ سیاسی عمل میں ناکامی اور عدم دلچسپی کا ہے'۔
حوالگی کا معاہدہ
واضح رہے کہ برطانیہ اور پاکستان کے درمیان کوئی باقاعدہ حوالگی کا معاہدہ موجود نہیں تاہم گذشتہ سال عمران فاروق قتل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس بات کی یقین دہانی کرائی تھی کہ معاہدے کی عدم موجودگی پاکستانی تعاون میں کسی رکاوٹ کا باعث نہیں بنے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارے درمیان حوالگی کا کوئی معاہدہ موجود نہیں تاہم اس سے برطانیہ اور ہمارے درمیان تعاون پر کوئی فرق نہیں پڑے گا'۔
یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق قتل کا مقدمہ پاکستان میں درج
جہاں ایک جانب برطانوی پولیس کراؤن پراسیکیوشن سروس کی رہنمائی میں محسن علی سید کی حوالگی حاصل کرنا چاہتی ہے وہیں پاکستان کا یہ مؤقف ہے کہ مشتبہ محسن علی سید کا خالد شمیم اور معظم علی کے ساتھ برطانیہ میں ہی ٹرائل ہو، لیکن اب جبکہ محسن علی سید کی باقاعدہ درخواست حوالگی کا عمل تاخیر کا شکار ہے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان افراد کا برطانیہ میں کوئی ٹرائل نہیں ہوسکے گا۔
2010 میں فاروق ستار کے قتل کے بعد سے ایم کیو ایم کا اصرار رہا ہے کہ اس قتل کا ان کی جماعت سے کوئی لینا دینا نہیں ۔
اب تک ایم کیو ایم کی ویب سائٹ پر برطانوی پولیس کی یہ اپیل نمایاں ہے کہ اس قتل سے متعلق معلومات فراہم کی جائیں، ویب سائٹ پر عمران فاروق کو 'شہیدِ انقلاب و وفاداری' بھی قرار دیا گیا ہے۔
ایک جانب جہاں عمران فاروق کے قتل کی انکوائری تعطل کا شکار نظر آتی ہے وہیں دوسری جانب الطاف حسین کی جانب سے 22 اگست کو کی گئی متنازع ٹیلی فونک تقریر پر برطانوی تحقیقات کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
پاکستان ایم کیو ایم سے جڑے مختلف کیسز میں برطانیہ کے مزید تعاون کا خواہاں ہے، گذشتہ ہفتے وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ وہ منی لانڈرنگ اور نفرت انگیز تقاریر کے معاملے میں قانونی معاونت کی تلاش میں ہیں۔
یہ تاحال واضح نہیں ہوسکا ہے کہ پاکستان میں اس حوالے سے قانونی کارروائیوں کا آغاز برطانیہ پر کسی دباؤ کی وجہ بنے گا یا نہیں، یا برطانوی حکام اس لیے کارروائی کو ترک کردیتے ہیں کہ ان کیسز پر پاکستان میں کارروائی جاری ہے۔
تبصرے (2) بند ہیں