تعلیم حکومت کی ذمہ داری ہے، مذہبی تنظیموں کی نہیں
برسوں سے ریاست کی مسلسل کئی کوتاہیوں میں سے ایک کوتاہی، جس کا براہ راست تعلق پاکستان کی موجودہ صورتحال سے بھی ہے، شعبہ تعلیم کو نظر انداز کرنا ہے۔
دارالحکومت اسلام آباد کی انتظامیہ کی حالیہ تحقیق، ان دیگر عناصر کو ظاہر کرتی ہے جو اس خلا کو پُر کر چکے ہیں۔ تحقیقی نتائج کے مطابق شہر میں تعلیمی اداروں کی تعداد 348 ہے— ان میں ہائر سیکنڈری اسکولوں کو شمار نہیں کیا گیا، جو کہ عام طور پر انٹر کالج تصور کیے جاتے ہیں— جبکہ اس تعداد سے زیادہ مدرسے موجود ہیں جن کی موجودہ تعداد 374 بنتی ہے۔ بات صرف یہاں پر ہی ختم نہیں ہو جاتی۔ نصف سے زائد مدرسے — 205 — رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ یہ بات بذات خود ان اداروں کو قائم کرنے میں مذہبی تنظیموں کو حاصل غیر معمولی آزادی اور حکومت کی عدم نگرانی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
ساتھ ہی یہ معلوم بھی ہوا ہے کہ گزشتہ چار برسوں کے دوران وفاقی حکومت نے شہر میں ایک بھی اسکول قائم نہیں کیا ہے، جب کہ اس دوران مدرسوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا، اور آپ اس پوری تاریک تصویر یوں مختصر انداز میں دیکھ سکتے ہیں۔ شعبہ تعلیم میں فرائض میں حیران کن غفلت صرف مقامی سطح تک محدود نہیں بلکہ پورے پاکستان میں یہی صورتحال ہے۔
کافی عرصے سے کئی مذہبی رہنما، جن میں مولانا فضل الرحمن سب سے زیادہ پیش پیش ہیں، مدرسوں پر مذہب کی بنیاد پر شدت پسندی کا الزام لگانے کی شدید مخالفت کر رہے ہیں۔ یہ بلاشبہ ایک حقیقت ہے کہ تمام مدارس بنیادی طور پر شدت پسندی کو فروغ نہیں دیتے، یہاں پر تشدد، شدت پسندی کی بھی بات نہیں، مگر یہ بھی اتنی ہی بڑی ایک حقیقت ہے کہ مدارس اپنی مخصوص نکتہ نظر کے ساتھ ایک قدامت پسند تعلیم فراہم کرتے ہیں جو اکثر ناخوشگوار نظریاتی تقسیم کو تقویت بخشتی ہے۔
شعبہ تعلیم کے لیے انتہائی ناقص بجٹ کی فراہمی، آمدن میں بڑھتا ہوا عدم مساوات اور کس طرح تعلیمی اداروں تک غریب کی عدم رسائی کے اثرات، جو کہ مدرسوں کے زبردست مفاد کی صورت میں نکلتے ہیں، کو نہ سمجھنے کی یہ حکومتی بے حسی ہی ہے۔ کم آمدن والے گھرانوں کے پاس یا تو اپنے بچوں کو مفت، مگر غیر معیاری سرکاری اسکولوں میں بھیجنے کا آپشن ہوتا ہے یا پھر معیاری نجی اسکولوں بھیجنے کا آپشن — مگر ان میں سے مناسب ترین نجی اسکول بھی اس قدر زیادہ فیس لیتے ہیں جن کی ادائیگی بڑے گھرانے کی بھی استعداد سے باہر ہو جاتی ہے۔
جبکہ مدرسے ایک بہترین فارمولے کی پیش کش کرتے ہیں؛ جہاں مفت قیام و طعام، کے ساتھ ساتھ کم از کم اطمینان بخش معیار کی تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔ صوبائی سطح پر ہونے والی مدرسوں کی جیو ٹیگنگ نے ایسے اداروں کی خطرناک حد تک بڑھتی تعداد کا انکشاف کیا ہے، جن میں سے زیادہ تعداد غیر رجسٹرڈ مدارس کی ہے۔
حکومت طویل عرصے سے آبادی کو تعلیم کی فراہمی کا اہم کام مذہبی تنظیموں پر چھوڑ چکی ہے۔ جس کا تباہ کن نتیجہ اب ہمارے سامنے بھی ہے، حکومت کو اب بنا زیادہ دیر کیے اقدامات کرنے ہوں گے۔
یہ اداریہ 19 مارچ 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرے (2) بند ہیں