پاناما کیس فیصلے پر قیاس آرائیاں: وزیراعظم کا انتباہ
گوادر: پاناما پیپر کیس کے حوالے سے اپنے غیرمعمولی ریمارکس میں وزیراعظم نواز شریف نے معاملے کی حساسیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے قیاس آرائیاں جلد آنے والے عدالتی فیصلے پر ممکنہ طور پر اثر انداز ہوسکتی ہیں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے پاناما لیکس کیس کا فیصلہ محفوظ کررکھا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ میں ٹی وی رپورٹس کے حوالے سے بتایا گیا کہ 15 مارچ کو بلوچستان کے ضلع گوادر کے ساحلی علاقے پسنی آمد پر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ پاناما کیس کے محفوظ فیصلے سے متعلق قیاس آرائیاں 'نقصان دہ' ثابت ہوسکتی ہیں۔
گذشتہ ماہ 23 فروری کو پاناما لیکس کیس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ اس طرح کے کیس کا کوئی مختصر فیصلہ جاری کرنا ممکن نہیں۔
مزید پڑھیں: پاناما کیس کی سماعت مکمل، فیصلہ محفوظ
5 رکنی لارجر بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ 'ہمیں تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے میں کچھ وقت لگے گا'۔
عدالت عظمیٰ کا مزید کہنا تھا کہ کیس کا فیصلہ مناسب وقت پر سنایا جائے گا اور 20 سال کے بعد بھی لوگ کہیں گے کہ یہ فیصلہ قانون کے عین مطابق تھا۔
مزید کہا گیا کہ 'اگر 20 کروڑ لوگ ناخوش بھی ہوتے ہیں تو ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں، ہم صرف قانون کے مطابق فیصلہ کریں گے'۔
لاجر بینچ کے رکن جسٹس شیخ عظمت کا کہنا تھا کہ 'فیصلہ ہم نے کرنا ہے اور ہم قانون کے مطابق فیصلہ کریں گے، جس نے بھی شور مچانا ہے وہ مچاتا رہے'۔
23 فروری کے بعد مدعی اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ ساتھ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی قیادت بھی یہ کہہ چکی ہے کہ وہ عدالت کے فیصلے کو قبول کریں گے اور دونوں ہی کھلے عام یہ کہہ چکے ہیں عدالتی فیصلہ اس تنازع پر ان کی پوزیشن کو واضح کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں:شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف
یاد رہے کہ اپریل 2016 میں بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے 'آف شور' مالی معاملات عیاں ہوئے تھے۔
ان دستاویزات میں روس کے ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا، آئس لینڈ کے وزیراعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔
شریف خاندان کی آف شور کمپنیز کا انکشاف ہونے کے بعد وزیراعظم نواز شریف سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کیا گیا اور بعدازاں پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور طارق اسد ایڈووکیٹ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کی تھیں۔